’’قرآن‘‘ شعور اور لاشعور



’’قرآن‘‘ شعور اور لاشعور

قانون یہ ہے کہ آدمی شعور اور لاشعور میں رد و بدل ہو رہا ہے۔ جب وہ شعور میں ہوتا ہے تو اپنے اوپر زمان ومکان کی گرفت محسوس کرتا ہے اور جب وہ شعور سے نکل کر لاشعورمیں ہوتا ہے تو ٹائم اور اسپیس کی گرفت سے آزاد ہو جاتا ہے۔ (آزاد نہیں ہوتا آزاد محسوس کرتا ہے)۔

’’تو ہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔‘‘

(سورۃ آل عمران۔ ۳)

’’وہ رات کو دن سے ڈھانک دیتا ہے۔ دن جلد جلد رات کو ڈھونڈتا ہے۔‘‘

(سورۃ الاعراف۔ ۵۴)

’’رات کو دن سے ڈھانپتا ہے۔ دھیان کرنے والوں کے لئے اس میں نشانیاں ہیں۔‘‘

(سورۃ رعد۔ ۳)

’’یہ مدد اس لئے ہے کہ اللہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اللہ سنتا جانتا ہے۔‘‘

(سورۃ الحج۔ ۶۱)

’’اللہ رات اور دن کو پھراتا رہتا ہے۔‘‘

(سورۃ النور۔ ۴۴)

’’اور وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات کو اوڑھنا اور نیند کو آرام بنایا اور دن کو منتشر ہونے کا وقت مقرر کیا۔‘‘

(سورۃ فرقان۔ ۶۲)

’’کیا تو نے نہیں دیکھا؟ کہ اللہ دن میں رات اور رات میں دن داخل کرتا ہے۔‘‘

(سورۃ لقمان۔ ۲۹)

’’اور ان کے لئے ایک نشانی رات ہے کہ ہم اس سے (کھال کی طرح) دن کھینچتے ہیں۔ پھر ناگاہ وہ تاریکی میں آ جاتے ہیں۔‘‘

(سورۃ یٰسین۔ ۳۷)

’’رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے۔‘‘

(سورۃ الزمر۔ ۵)

’’رات کی قسم جب وہ پیٹھ پھیرے اور صبح کی جب وہ روشن ہو۔‘‘

(سورۃ مدثر۔ ۳۳)

’’اور دن کی جب اس کو روشن کرے۔ اور رات کی جب اسے ڈھانپ لے۔‘‘

(سورۃ شمس۔ ۳)

انسان اور کائنات کی ہر مخلوق دو حالتوں میں رد و بدل ہو رہی ہے۔ یعنی ہر مخلوق حیات و ممات دو رخوں پر قائم ہے۔ ایک رات (آزاد حواس)۔ دوسرا رخ دن (مقید حواس)۔ زندگی کے یہ دو رخ ہمہ وقت متحرک رہتے ہیں۔ البتہ حواس کے وقفوں کے ساتھ آدمی میں تبدیلی محسوس کرتا  ہے مثلاً  ایک آدمی بیدار ہے اُس کی زندگی اسپیس سے گزر رہی ہے وہ الگ ہے۔اسپیس سے مراد یہ ہے کہ انسان جب دیکھتا ہے وہ بھی اسپیس ہے جب سنتا ہے وہ بھی اسپیس ہے۔ جب چلتا ہے وہ بھی اسپیس ہے، جب سوچتا ہے وہ بھی اسپیس ہے۔ یعنی کسی بھی طرح اسپیس کے دائرہ کار سے کوئی مخلوق باہر نہیں آ سکتی۔ اسپیس پر زندگی کے لمحات گزرنا ٹائم ہے۔ مثلاً ایک آدمی زمین پر پیدل چلتا ہے۔ چلنے سے پہلے وہ زمین پر کھڑا ہے۔ دونوں پیر برابر ہیں۔ جب وہ چلنا شروع کرتا ہے تو ایک پیر اٹھاتا ہے اور جیسے ہی زمین پر رکھتا ہے دوسرا پیر اٹھاتا ہے۔ ایک قدم اٹھانے کے بعد اس نے جب زمین پر پیر رکھا تو دونوں قدم کے درمیان کا فاصلہ جس کو بظاہر خلا کہا جاتا ہے وہ ٹائم ہے۔ اس کی وضاحت اس طرح بھی ہو سکتی ہے کہ ایک آدمی زمین پر دس قدم چلا۔ ایک قدم کا فاصلہ ایک سیکنڈ ہوا یعنی چلنے والے نے دس قدم اسپیس طے کیا اور دس قدم اسپیس طے کرنے میں دس سیکنڈ کا ٹائم لگا دیا۔

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران