مضامین قرآن (69) اخلاقی طور پر مطلوب و غیر مطلوب رویے : فواحش اور حفظ فروج ۔
اخلاقی
مطالبات کے ضمن میں ہم قرآن مجید میں بیان کردہ جامع اصطلاحات کا مطالعہ کر رہے
ہیں۔ ان میں سے ایک بہت اہم اصطلاح فواحش ہے جس سے پرہیز کا حکم قرآن مجید میں دیا
گیا ہے۔ اس سلبی حکم کو قرآن مجید نے حفظ فروج کی مثبت اصطلاح کے استعمال سے مزید
موکد کیا ہے اور اسے مومن مرداور عورتوں کے ایک اعلیٰ ایمانی وصف کے طور پر بیان
کیا ہے۔ قرآن مجید کے عمومی اخلاقی احکام عام طور پر خدا یا بندوں کے ساتھ درست
تعلق کی اساسات کو بیان کرتے ہیں۔ لیکن حفظ فروج خاص مرد و زن کے خاص تعلق کے پس
منظر میں بیان کی گئی ایک اعلیٰ اخلاقی قدر ہے جو نہ صرف ایک پاکیزہ معاشرت کو جنم
دیتی ہے، بلکہ اس خاندانی نظام کی بقا اور استحکام کی ضامن ہے جس پر پوری انسانی
معاشرت موقوف ہے۔ ذیل میں ہم پہلے فواحش سے اجتناب کے حکم کی وضاحت کریں گے اور
پھر حفظ فروج کی اصطلاح کی تفصیل کریں گے۔
فواحش سے پرہیز
جنس ایک بنیادی انسانی جبلت ہے۔ یہ جبلت جب میاں بیوی کے درمیان نکاح کی مستقل اور علانیہ رفاقت کی شکل میں اپنی تسکین کرتی ہے تو معاشرے میں خیر کا باعث بنتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اولاد اور پھر خاندان کا ادارہ وجود میں آتا ہے۔ یہی وہ خاندان ہے جو معصوم بچوں کی جنم بھومی، ان کی تربیت گاہ اور بلوغت کی عمر کو پہنچنے تک ان کی تمام ضروریات کی فراہمی کا ضامن ہوتا ہے۔ یہی وہ ادارہ ہے جو انسانی زندگی کے دوسرے دورِ ناتوانی یعنی بڑھاپے میں ہمیشہ سے اس کی جائے پناہ رہا ہے۔ یہ خاندان ہی ہے جو بزرگوں کی موت تک ان کی تمام ذمہ داریوں کو اٹھاتا ہے۔
انسانی
معاشروں نے خدائی اسکیم کو سمجھتے ہوئے نکاح کو جنسی تسکین کا واحد راستہ قرار دے
کر اس دائرے سے باہر جنسی جبلت کی تسکین کی ہر کوشش کو برا سمجھا ہے۔ کیونکہ جنسی
ضرورت کی تکمیل کے لیے نکاح سے باہر راستہ کھول دیا گیا تو پھر کون اس جبلی تقاضے
کی تسکین کے لیے نکاح کے بعد وجود میں آنے والی اس خاندانی زندگی کو اپنی ترجیح
بنائے گا جو ذمہ داریوں کا دوسرا نام ہے۔ اس کے علاوہ بھی فواحش دس طرح کے
معاشرتی، جسمانی، معاشی اور نفسیاتی آزار کو جنم دیتے ہیں جیسے بچوں کی ماں باپ
دونوں یا کسی ایک سے محرومی، جنسی بیماریاں، ہوس پرستی میں پیسوں کا لٹانا، باہمی
عداوت، قتل و فساد، جنسی جرائم اور انسانی نفسیات کی عدم تسکین وغیرہ۔
یہی
وہ پس منظر ہے جس میں فواحش کو بے راہ روی، بے حیائی اور بدکاری سے تعبیر کرکے اسے
ہمیشہ ایک برا عمل سمجھا ہے۔ قرآن مجید نے انسانی معاشروں میں پائے جانے والے جنسی
بے راہ روی کی برائی کے اس تصور کو اٹھایا اور اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ
یہ شیطان کی تعلیم ہے جس کا خدا کی عطا کردہ تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں چاہے اسے
مذہب کے نام پر اختیار کیا جائے۔ پروردگار عالم نے جو بنیادی عبادت یعنی نماز فرض
کی ہے، اس کا تو ایک اہم وصف یہی ہے کہ وہ انسان کو ہر برائی اور جنسی بے راہ روی
کی طرف بڑھنے سے روکتی ہے۔
قرآن
مجید نے صرف زنا ہی کی برائی بیان کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ فحش اور اس کی جمع
فواحش کے الفاظ لاکر نہ صرف جنسی بے راہروی کے ہر راستے کو مسدود کر دیا بلکہ اس
کی برائی کو بھی پوری طرح کھول دیا۔ قرآن مجید کے استعمال کردہ لفظ الفحشاء کے
اندر یہ بات پوشیدہ ہے کہ جنسی بے راہ روی کے اس راستے کی قباحت بہت شدید بھی ہے
اور انسانوں کے لیے معلوم و معروف بھی ہے۔ قرآن مجید نے بعض مقامات مثلاً (الاسراء32:17)
میں زنا کے قریب جانے سے روکتے ہوئے بطور علت اس کا فاحشۃ ہونا بیان کیا ہے جس سے
یہ بات واضح ہے کہ اس کا بے حیائی اور برائی ہونا ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ قرآن مجید
نے فاحشۃ کے لفظ کے ساتھ اس کی جمع یعنی فواحش استعمال کرکے اس بات کو واضح کیا ہے
کہ زنا کے علاوہ بھی جنسی بے راہ روی کا دیگر ہر راستہ مثلاً ہم جنس پرستی ہو،
جانوروں کے ساتھ بدفعلی وغیرہ سب ناجائز و حرام ہیں۔
قرآن
مجید میں اس لفظ کے استعمالات جنسی بے راہ روی کی دو بنیادی اقسام کو سامنے لاتے
ہیں۔ پہلی خود زنا ہے جو دراصل نکاح کے دائرے سے باہر قائم ہونے والا مرد و زن کا
جنسی تعلق ہے۔ قوم لوط کے عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے قضائے شہوت کے فعل کے لیے اس
لفظ کے استعمال سے یہ بات اصولی طور پر معلوم ہوتی ہے کہ زنا کے علاوہ بھی قضائے
شہوت کا ہر راستہ غلط ہے جیسے بہائم یا اطفال سے تعلق یا خواتین کا باہمی تعلق وغیرہ۔
سوتیلی ماں سے نکاح کو فحش قرار دے کر یہ اصول دیا گیا کہ محرمات سے نکاح کرکے بھی
ان سے تعلق فحش اور ناجائز ہی رہتا ہے۔
دوسری
قسم جنسی اعضا کا افشا یا عریانی ہے۔ سورہ اعراف میں قریش کے برہنہ طواف کی روایت
جو مشرکانہ معبدوں میں مذہبی قحبہ گری کی ایک ضمنی شکل تھی، اس کی مذمت کرتے ہوئے
فواحش کا لفظ استعمال کرکے قرآن مجید نے فواحش کا دائرہ عریانی تک بڑھادیا ہے۔ ان
دو بنیادی اقسام سے آگے بڑھ کر جنسی کشش کو نمایاں کرنے والی دیگر چیزوں کو فواحش
کے زمرے میں لانا ہمارے نزدیک قرآن مجید سے تجاوز ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ
وہ چیزیں محمود ہیں۔ قرآن مجید نے اس کے برعکس عفت پر مبنی مطلوب رویے کو غص بصر،
حفظ فروج اور مرد و زن کے اختلاط کے دیگر آداب کے ذیل میں لاکر ان تمام چیزوں کو
نیکی کا موضوع بنا دیا ہے۔ یہی وہ فطری تربیت ہے جو انسان کو گناہوں سے بچا کر
بتدریج نیکی کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام تک پہنچاتی ہے۔
اس
ضمن کی ایک اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے فواحش کی ممانعت میں لاتقربوا یعنی قریب
نہ جاؤ کے الفاظ استعمال کرکے یہ واضح کیا ہے کہ ان سے بچنے کا راستہ یہی ہے کہ ان
چیزوں سے بھی بچا جائے جو زنا میں مبتلا کرسکتی ہوں کیونکہ جنسی بے راہ روی ایک
مقناطیس کی طرح کام کرتی ہے۔ ایک دفعہ کوئی اس کی کشش کے دائرے میں داخل ہوجائے تو
پھر یہ خود بخود اسے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ اس میں تقبیل، ملامست، فواحش بینی،
فحش گفتگو وغیرہ سب شامل ہیں۔
فواحش
سے اجتناب کے ضمن میں اس بات کو بھی واضح کیا گیا ہے کہ انسان کو کھلے اور چھپے ہر
فواحش سے بچنا ہے۔ اس وضاحت کی ضرورت اس لیے ضروری ہے کہ عام انسانی معاشروں میں
عام طور پر فواحش کا علانیہ ارتکاب کرنے والے کم ہی لوگ ہوتے ہیں کیونکہ اسے ایک
بری چیز سمجھا جاتا ہے۔ لیکن زمانے کی نگاہ سے چھپ کر زنا کرنا اور خفیہ مراسم کی
شکل میں بدکاری کو اختیار کرنا نسبتاً ایک آسان اور محفوظ راستہ ہے۔ چناچہ فواحش
کی ان دونوں شکلوں کو یکساں طور پر حرام کر دیا گیا ہے۔ اگر کوئی مرد یا عورت خفیہ
طور پر کسی جنسی تعلق یا علانیہ بدکاری کے معاملے میں ملوث ہوں تو پاکدامن لوگوں کو
ایسے بدکاروں سے نکاح سے پرہیز کرنا چاہیے۔
فواحش
کے ضمن کی آخری چیز ان کا افشا، پھیلانا، لوگوں کو ان کی طرف بلانا، لوگوں کو ان
چیزوں میں ملوث کرنا وغیرہ ہے جو اتنا بڑا جرم ہے کہ اس پر جہنم کی وعید کی گئی
ہے،(النور24:20)۔ اس ذیل میں وہ سارے لوگ شامل ہیں جو پاکدامن لوگوں پر تہمت
لگاتے، بدکاری کے اڈوں کا اہتمام کرتے، وہاں اپنی جسمانی خدمات پیش کرتے اور لوگوں
کے اندر صنفی ہیجان پیدا کرنے کے لیے فواحش کو پھیلاتے ہیں۔ یہ آخری چیز وہ ہے جو
دور جدید میں پورنوگرافی انڈسٹری کی شکل میں ایک بہت بڑا فتنہ بن گئی ہے۔
حفظ فروج
فواحش سے اجتناب کے حکم کے ساتھ قرآن مجید میں حفظ فروج کا ایک تصور دیا گیا ہے جو انسان کو زنا سے بچا کر عفت و پاکدامنی کی زندگی گزارنے میں مدد دیتا ہے۔ حفظ فروج کا لفظی مطلب تو شرمگاہوں کی حفاظت ہے، مگر قرآن مجید نے اس ترکیب کو جس طرح استعمال کیا ہے وہ نہ صرف خود اپنے آپ کے زنا سے بچانے کے مفہوم کو بیان کرتی ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ کسی انسان کے سامنے اپنی صنفی خصوصیات کو نمایاں کرنے کے بجائے نوع انسانی کے ایک فرد کے طور پر پیش کرنے کے تصور پر بھی دلالت کرتی ہے۔ یہ گویا انسان کے اس کردار کا بھی بیان ہے جس میں انسان خود کو زنا اور اس کے داعیات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور ساتھ میں انسان صنف مخالف کے لیے ایک آزمائش کی صورتحال پیدا کرنے سے بھی پرہیز کرتا ہے۔
انسان
کا معاملہ یہ ہے کہ عام طور پر مرد و عورت نہ صرف صنف مخالف میں کشش محسوس کرتے
ہیں بلکہ اس کے ساتھ وہ جسمانی خدوخال کی بنا پر صنف مخالف کے لیے باعث کشش بھی
ہوتے ہیں۔ ایسے میں حفظ فروج کا قرآنی تصور ہمیں بتاتا ہے کہ اہل ایمان میاں بیوی
کے جائز تعلق کے سوا کسی ناجائز راستے سے اپنی جنسی تسکین نہیں کرتے۔ کسی مقام پر
دونوں اصناف کا سامنا ہو تو ایسے لباس کا اہتمام کرتے ہیں جو جنسی کشش کو ڈھانپ
دینے والا ہوتا ہے۔ یہ چیز اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ انسان اپنے اندر موجزن
جنسی ہیجان کو قابو میں رکھنے کا عادی نہ ہو۔ چنانچہ حفظ فروج کا تصور اسی ہیجان
کو قابو میں رکھنے سے شروع ہوتا، اپنے صنفی اعضا چھپا کر رکھنے پر آمادہ کرتا، کم
لباسی یا کسی اور طریقے سے جسم کی نمائش سے روکتا اور آخرکار زنا کے اس گناہ سے
بچنے کو یقینی بناتا ہے جس پر ابدی جہنم کی وعید ہے۔
حفظ
فروج کے اس اصولی تصور کے ساتھ فواحش سے لوگوں کو دور رکھنے کے لیے قرآن مجید نے
کچھ اور احکام بھی دیے ہیں جو فواحش سے دور رہنے کے قرآنی حکم کو ایک متعین عملی
شکل دے دیتے ہیں۔ ان میں شادی کی حوصلہ افزائی، اس کے لیے پاکدامنی کی شرط، بدکاری
کی حوصلہ شکنی اور اس پر سزا، صنفی مخالف کی موجودگی میں کسی جگہ داخلے کے آداب
وغیرہ کی تعلیم شامل ہیں۔ ان آداب میں سب سے بنیادی چیز غص بصر یا ان چیزوں سے
نگاہوں کا بچانا ہے جو انسان میں جنسی ہیجان پیدا کریں۔ خواتین کو اس حوالے سے دو
مزید احکام دیے گئے۔ ایک اجنبی مردوں کے سامنے اپنی زینتیں چھپا کر رکھنا اور
دوسرے گریبانوں پر اوڑھنیوں کا آنچل پھیلا لینا۔ ان احکام کی وجہ یہ ہے کہ خواتین
کا زیب و زینت اختیار کرنا صنف مخالف کے ذوق جمال اور ان کے سینے کا ابھار جو
نسوانیت کی علامت ہے، مردوں کے لیے ایک صنفی کشش رکھتا ہے۔ عرب کی معاشرت میں اور
اس کے علاوہ بھی عام طور پر خواتین کا اوپری لباس سر کے ذریعے سے پہنا جاتا تھا
اور اکثر آج بھی پہلا جاتا ہے۔ اسی بنا پر ان کی قمیضوں کے گریبان کافی کھلے ہوتے
تھے۔ اوڑھنی کا آنچل گریبان پر پھیلانے سے گریبان کے ساتھ ممکنہ طور پر نمایاں
ہوجانے والی سینے کی درز اور اس کے ساتھ فی الجملہ سینے کا ابھار بھی چھپ جاتا ہے۔
زینتوں
کے ضمن میں خواتین کو اپنے مخفی زیورات کی آوازیں بھی نمایاں کرنے سے روکا گیا ہے۔
اخفائے زینت کے اس حکم میں البتہ عادتاً کھلے رہنے والا اعضا جیسے ہاتھ، منہ وغیرہ
مستثنیٰ ہیں جن کی زینتیں رفع حرج کے اصول پر ظاہر کرنے کی اجازت ہے۔ اسی طرح
قریبی رشتہ داروں کے سامنے اخفائے زینت کا یہ حکم نہیں ہے۔ جبکہ نکاح کی عمر سے
گزر جانے والی بزرگ خواتین جن کی جنسی کشش ختم ہوچکی ہوتی ہے ان کو سینے کو اضافی
کپڑے سے چھپانے کے حکم سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ تاہم اگر انھوں نے زیورات پہن
کر اپنی نمائش کر رکھی ہو پھر یہ اجازت نہیں ہے۔
حفظ فروج ایک اعلیٰ دینی وصف
قرآن مجید نے حفظ فروج کو مومن مرد اور عورتوں کے ایک مستقل اور اعلیٰ دینی وصف کے طور پر بیان کیا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مرد و زن کے اختلاط اور لباس کے معاملے میں انسانی معاشرت حالات، زمانے، جغرافیے، آب و ہوا، ثقافت اور رسوم و عادات کی بنا پر بہت کچھ بدل سکتی ہے، اس لیے جو اصولی بات قرآنی بیانات سے حفظ فروج کے حوالے سے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسے کردار کا بیان ہے جو صنف مخالف میں کشش محسوس کرنے کے باوجود زنا کے راستے پر قدم نہیں رکھتا۔ دوسری طرف وہ اپنی جمالیاتی یا جسمانی کشش کو بھی صنف مخالف کے سامنے نمایاں کرنے سے رکتا ہے۔ اس میں سب سے اہم ذریعہ انسان کی بے لباسی، کم لباسی یا لباس کو اس طرح پہننا ہے کہ اس کی تنگی یا باریکی صنفی کشش کو پوری طرح نمایاں کر دے۔ اس کے علاوہ بھی کسی اور طریقے سے جنسی طور پر لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنا، ان کی طرف مائل ہونا یا ان کی پیش قدمی کی حوصلہ افزائی کرنا وغیرہ سب وہ رویے ہیں جو حفظ فروج کے خلاف ہیں۔ سیدہ مریم کو اسی پاکدامنی کے ایک نمونے کے طور پر پیش کیا گیا ہے جن کے امتحان کے لیے ایک فرشتہ ایک بھرپور مرد کی شکل میں ان کے سامنے آیا مگر انھوں نے جوانی کی پکار کو سننے کے بجائے خدائے رحمن کی پناہ لی۔ اسی طرح سیدنا یوسف کے واقعے میں یہ واضح کیا ہے کہ جو بندہ دوسرے کی پیش قدمی اور ڈگمگا دینے والے حالات کے باوجود اپنے جذبات کے بجائے خدا کی برہان اور فطرت کی آواز پر لبیک کہتا ہے، خدا آگے بڑھ کر اسے اس برائی سے بچا لیتا ہے۔
قرآنی بیانات
”شیطان تمھیں تنگ دستی سے ڈراتا اور (خرچ کے لیے) بے حیائی کی راہ سجھاتا ہے اور اللہ اپنی طرف سے تمھارے ساتھ مغفرت اور فضل کا وعدہ کرتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت اور بڑا علم رکھنے والا ہے۔“،(البقرہ268:2)
”یہ لوگ جب کسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم نے
اپنے باپ دادا کو اِسی طریقے پر پایا ہے اور خدا نے ہمیں اِسی کا حکم دیا ہے۔ اِن
سے کہو، اللہ کبھی بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔ کیا تم اللہ پر افترا کرکے ایسی
باتیں کہتے ہو جنھیں تم نہیں جانتے؟“،(الاعراف 28:7)
”بے شک، اللہ (اِس میں) عدل اور احسان اور قرابت مندوں کو دیتے
رہنے کی ہدایت کرتا ہے اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے روکتا ہے۔وہ تمھیں نصیحت
کرتا ہے تاکہ تم یاددہانی حاصل کرو۔“،(النحل90:16)
”اُس کتاب کو پڑھتے رہو جو تمھاری طرف وحی کی گئی ہے اور نماز
کا اہتمام رکھو۔ کچھ شک نہیں کہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ (یہ اللہ کی
یاد ہے) اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی یاد بڑی چیز ہے۔ (تم اُس پر بھروسا رکھو، اِس
لیے کہ) اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگ کرتے ہو۔“،(العنکبوت45: 29)
”اِسی طرح لوط کو رسول بنا کر بھیجا، جب اُس نے اپنی قوم سے کہا
کہ تم لوگ کھلی بدکاری کے مرتکب ہوتے ہو۔ تم سے پہلے دنیا کی کسی قوم نے (اِس
ڈھٹائی کے ساتھ اور اِس طرح قومی حیثیت میں) اِس کا ارتکاب نہیں
کیا۔“،(العنکبوت28:29)
”اور فواحش کے قریب نہ جاؤ، خواہ وہ کھلے ہوں یا چھپے۔ اور کسی
جان کو، جسے اللہ نے حرام ٹھیرایا ہے، ناحق قتل نہ کرو۔ یہ باتیں ہیں جن کی اللہ
نے تمھیں ہدایت کی ہے تاکہ تم سمجھ سے کام لو۔“،(الانعام151: 6)
”(اے پیغمبر)، اپنے ماننے والوں کو ہدایت کرو کہ (اِن گھروں میں
عورتیں ہوں تو) اپنی نگاہیں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ
اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ جو کچھ وہ کرتے ہیں، اللہ
اُس سے خوب واقف ہے۔ اور ماننے والی عورتوں کو ہدایت کرو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں
بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کی چیزیں نہ کھولیں،
سواے اُن کے جو اُن میں سے کھلی ہوتی ہیں اور اِس کے لیے اپنی اوڑھنیوں کے آنچل
اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں۔ اور اپنی زینت کی چیزیں نہ کھولیں، مگر اپنے شوہروں
کے سامنے یا اپنے باپ، اپنے شوہروں کے باپ، اپنے بیٹوں، اپنے شوہروں کے بیٹوں،
اپنے بھائیوں، اپنے بھائیوں کے بیٹوں، اپنی بہنوں کے بیٹوں، اپنے میل جول کی
عورتوں اور اپنے غلاموں کے سامنے یا اُن زیردست مردوں کے سامنے جو عورتوں کی خواہش
نہیں رکھتے یا اُن بچوں کے سامنے جو عورتوں کی پردے کی چیزوں سے ابھی واقف نہیں
ہوئے۔ اور اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلیں کہ اُن کی چھپی ہوئی زینت معلوم
ہو جائے۔ ایمان والو، (اب تک کی غلطیوں پر) سب مل کر اللہ سے رجوع کرو تاکہ تم
فلاح پاؤ۔“،(النور30-31: 24)
”اور بڑی بوڑھی عورتیں جو اب نکاح کی امید نہیں رکھتی ہیں، وہ
اگر اپنے دوپٹے گریبانوں سے اتار دیں تو اُن پر کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ زینت کی
نمایش کرنے والی نہ ہوں۔ تاہم وہ بھی احتیاط کریں تو اُن کے لیے بہتر ہے اور اللہ
سمیع وعلیم ہے۔“،(النور 60:24)
”اور اپنے آپ کو اُن سے پردے میں کر لیا تھا۔ پھر ہم نے اُس کے
پاس اپنا فرشتہ بھیجا اور وہ اُس کے سامنے ایک پورے آدمی کی صورت میں نمودار
ہوگیا۔ مریم (نے اُسے دیکھا تو) بول اٹھی کہ میں تم سے خداے رحمٰن کی پناہ میں آتی
ہوں، اگر تم اُس سے ڈرنے والے ہو۔“،(مریم 17-18: 19)
”اور عمران کی بیٹی مریم کی مثال پیش کرتا ہے جس نے اپنا دامن
پاک رکھا۔ پھر ہم نے اُس کے اندر اپنی طرف سے روح پھونک دی، اور اُس نے اپنے
پروردگار کے ارشادات اور اُس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ فرماں بردار لوگوں میں
سے تھی۔“،(التحریم12:66)
”حقیقت یہ ہے کہ اُس عورت نے تو یوسف کا ارادہ کر ہی لیا تھا،
وہ بھی اگر اپنے پروردگار کی برہان نہ دیکھ لیتا تو اُس کا ارادہ کر لیتا۔ اِسی
طرح ہوا تاکہ ہم اُس سے برائی اور بے حیائی کو دور رکھیں، اِس میں شبہ نہیں کہ وہ
ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھا۔“،(یوسف24:12)
”اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔“،(المومنون5:23)
”حقیقت یہ ہے کہ جو مرد اور جو عورتیں مسلمان ہیں، مومن ہیں،
بندگی کرنے والے ہیں، سچے ہیں، صبر کرنے والے ہیں، اللہ کے آگے جھک کر رہنے والے
ہیں، خیرات کرنے والے ہیں، روزہ رکھنے والے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے
ہیں اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے اُن کے لیے بھی مغفرت اور
بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔“،(الاحزاب35:33)
”اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں جو کسی کے نکاح میں ہوں،
الاّ یہ کہ وہ تمھاری ملکیت میں آجائیں۔ یہ اللہ کا قانون ہے جس کی پابندی تم پر
لازم کی گئی ہے۔ اور اِن کے ماسوا جو عورتیں ہیں، (اُن کا مہر ادا کرکے) اپنے مال
کے ذریعے سے اُنھیں حاصل کرنا تمھارے لیے حلال ہے، اِس شرط کے ساتھ کہ تم پاک دامن
رہنے والے ہو نہ کہ بدکاری کرنے والے۔ پھر (اِس سے پہلے اگر مہر ادا نہیں کیا ہے
تو) جو فائدہ اُن سے اٹھایا ہے، اُس کے صلے میں اُن کا مہر اُنھیں ادا کرو، ایک
فرض کے طور پر۔ مہر ٹھیرانے کے بعد، البتہ آپس کی رضامندی سے جو کچھ طے کر لو تو
اُس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ بے شک، اللہ علیم و حکیم ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں