نیا
راستہ
کامیابی
اور اس کی مانگ ہمیشہ ایک جیسی ہوتی ہے، دنیا کا ہر شخص “بڑا آدمی” بننا چاہتا ہے
اور کم و بیش ہر ایک کی بڑے آدمی کی تشریح پیسوں سے شروع ہو کر شہرت پر ختم ہو
جاتی ہے۔ کچھ علم، ہنر، اَنا اور حسن کو بھی شمار کرتے ہیں تو کچھ تہذیب و تمدّن
کا تڑکا لگانے کے لئے فنونِ لطیفہ اور ماحول سے محبت کو بھی شامل کر دیتے ہیں۔
مگر
کامیابی کی تقسیم برابر نہیں ہوتی۔ ایک عجیب نہ سمجھ میں آنے والا سسٹم ہے۔ عجیب
بانٹ ہے، کوئی الگ ہی حساب ہے۔ کون امیر، کون غریب۔ اللہ والے کبھی محتاج رہ جائیں
تو مشرک و کافر ارب پتی ٹھہرے۔ عاجز و مجبور دنیا میں مشہور ہو جائیں تو سرمایہ
دار و حکمران ذلیل ٹھہریں، بھوکوں کے دسترخوانوں سے زمانہ کھائے تو متمول ساہوکار
ایسی بیماریوں میں گھِر جائیں کہ زندگی پرہیز کرے۔
کبھی
کبھی سوچتا ہوں کہ کوئی نیا راستہ یا انوکھا طریقہ تو ایسا ہوگا کہ انسان کامیابی
سے اِس سراب سے بچ کر اصل منزل کی طرف گامزن ہو سکے۔ وہ کیا بنیادی جزئیات
ہوں کہ آدمی اِن سوچوں سے ماوراء ہو کے پرواز کر سکے۔ کون سے ایسے اخلاق ہوں جو اس
کی ایسی وادیِ خاردار میں رہنمائی کریں، وہ کون سے اصول ہوں جو نفس کی اندھیری رات
میں امید کی شمع جلائیں، اور وہ کون سا ایسا تعلق ہے جو مایوسی کی دلدل سے باہر
نکالے۔
شاید
آدمی کو کبھی جھوٹ نہیں بولنا چاہئے اور کتابوں سے محبت کرے اور حرام نہ کھائے۔
جھوٹ سے اتنی ہی نفرت کرے جتنی ہم سوّر سے کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں سچ بولنا
اورکتاب پڑھنا بھی سوّر کھانے کی طرح حرام ہو چکے ہیں۔ یا شاید یہ کہ آدمی کسی کی
بھی تحقیر نہ کرے۔ نہ باتوں سے، نہ اشاروں سے، نہ باڈی لینگویج سے، نہ گمان میں نہ
خیال میں۔ یا شاید یہ کہ کوئی بندہ اُس کی موجودگی میں خوف میں مبتلا نہ ہو کہ کب
کیا ہو جائے یا یہ کہ ہمیشہ مسکرا کر بات کرے، اچھے اخلاق سے پیش آئے۔
جتنا
میں اِس بارے میں سوچتا ہوں سوچ کے تانے بانے ایک لفظ پر آکر ٹوٹ جاتے ہیں۔ جدھر
سے چاہے شروع کروں اختتام اِسی لفظ پر ہوتا ہے۔ اور وہ لفظ ہے محبت۔
بندہ
جب اللہ سے محبت کا اعتراف کر لیتا ہے اور اس پر کام کرنا شروع کر دیتا ہے تو وہ
تمام جزئیات، اصول اور تکنیک اسے آتی چلی جاتی ہیں جو اس نئے راستے کا پتہ دیتی
ہیں کہ جس میں فقیر بھی غنّا ہے، جس میں محرومی بھی انعام ہے، جس میں دکھ بھی خوشی
ہے، جس میں اس کا چاہے جانا، اس کی منشاء، اس کے کام، اس کی رضا سب کچھ ہے اور
بندے کی گردن فرطِ جذبات سے خم ہے۔ ایسا بندہ اللہ سائیں کو کاپی کرنا شروع کر
دیتا ہے۔ اللہ کی شان نہیں کہ وہ مخلوق کو رسوا کرے۔ یہ بندہ بھی کبھی کسی کو
شرمندہ نہیں کرتا۔ اللہ سائیں کی شان نہیں کہ دروازہ بند کرے۔ اللہ کی شان نہیں کہ
مانگنے والے کو خالی ہاتھ واپس کر دے۔ بندے اور اللہ کا موازنہ ہی کیا بس یہ اپنے
تئیں جو بن پڑے وہ کرتا جاتا ہے۔
محبت
ہی وہ راستہ ہے جو دنیا کے سراب سے پردہ اٹھاتا ہے اور یہ ایک ایسی محبت ہے جس کی
ہر صبح نئی ہوتی ہے۔ نئے رنگ، نئی خوشبو، نئی راہیں، نئی منزل۔ یہ وہ راستہ ہے جس
کے قدم خود منزل چومتی ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں