مضامین قرآن (06) وجود باری تعالیٰ کے دلائل ۔


 

مضامین قرآن (06) وجود باری تعالیٰ کے دلائل ۔

ہم دلائل قرآن کے ضمن میں وجود باری تعالیٰ پر قرآن مجید کی دوسری دلیل پر گفتگو کر رہے تھے جسے ہم نے توجیہہ کی دلیل کا نام دیا ہے ۔ اس دلیل کی اساس سورہ نور آیت نمبر 40  رکھی گئی ہے۔ اس آیت میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ اللہ ہی زمین وآسمان کا نور ہے۔ یعنی اللہ پر ایمان کی روشنی کے ساتھ جب مظاہر کائنات پر نگاہ ڈالی جاتی ہے تو ہر چیز اپنی جگہ درست بیٹھ جاتی ہے ۔اور اس کا انکار کر کے انسان سوائے اندھیروں کے کچھ حاصل نہیں کر پاتا۔ اس ضمن میں جو پہلی بات ہم نے واضح کی وہ یہ تھی کہ اس دنیا میں تخلیق و بقا کا سلسلہ ہر جگہ ہرسو کارفرما نظر آتا ہے ۔ یہ کائنات پیدا ہوئی ہے اور اس کائنات میں ہر جگہ اور ہر لمحہ کچھ نہ کچھ پیدا ہورہا ہے ۔ یہ سب ایسے سازگار ماحول میں پیدا ہورہا ہے جسے پیدا کرنے اور باقی رکھنے میں پیدا ہونے والی مخلوقات کا کوئی عمل دخل نہیں ۔ یہ سازگار حالات باقی نہ رہیں تو تخلیقی عمل فوراً ختم ہوجائے گا۔ سوال یہ ہے کہ تخلیق و بقا کے اس لامتناہی سلسلے کو وجود میں لانے اور باقی رکھنے کا سہرا کس کے سر ہے۔ قرآن مجید بتاتا ہے کہ یہ ہستی اللہ تعالیٰ کی ہستی ہے ۔ اس سوال کا کوئی دوسرا جواب آج کے دن تک نہیں دیا جا سکا۔ یہی خدا کے ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔

اس خلاصے کے بعد اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے زمین و آسمان کے نور ہونے کا دوسرا پہلو کیا ہے ۔یہ پہلو اس کائنات اور زندگی میں پائی جانے والی مقصدیت اور عناصر کائنات میں باہمی ربط ہے ۔

 

2۔ربط ومقصدیت

قرآن مجید نے تخلیق و بقا کے حوالے سے خدا کے خالق ہونے کا جو دعوی کیا ہے ، پوری کائنات اس کی تصدیق میں کھڑی ہوئی ہے ۔ کائنات اپنی اصل کے اعتبار سے حیات اور زندگی کی بدترین دشمن ہے۔ یہ بلاشبہ زندگی کا قبرستان ہے جس میں زندگی کا باقی رہنا تو درکنار وجود میں آنے کا بھی سرے سے کوئی امکان ہی نہیں ۔ یہ کائنات کروڑوں ڈگری کی آگ اور ناقابل تصور سردی ، زندگی کی ہر حرارت سے محروم خلا، زہریلی گیسوں اور بنجر پتھروں کے سوا کسی چیز کا نام نہیں۔ مگر اس کائنات میں زمین جیسا سیارہ ہے جو اس مادے سے پیدا ہوا جو باقی کائنات میں موجود ہے مگر یہاں زندگی کو وجود میں لانے کے لیے کائنات میں پھیلے موت کے ہر روپ کو قابو کر کے زندگی بخش توانائی میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ جو فضا دوسر ے سیاروں میں زہریلی گیسوں پر مشتمل ہوتی ہے یا پھر خلا میں ہوتی ہی نہیں وہ یہاں زندگی کا ذریعہ بنادی گئی ہے ۔ جو دھرتی دوسری جگہ گیس ، برف یا بنجر چٹانوں سے عبارت ہے یہاں زرخیز مٹی کی شکل میں فصل اگا رہی ہے ۔ آگ و ٹھنڈ کی انتہائیں جو زندگی کی قاتل ہیں یہاں پورے اعتدال سے موسم اور رنگ تخلیق کرتی ہیں ۔

 

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ جگہ جگہ کائنات کی نشانیوں پر توجہ دلا کر یہ کہتے ہیں کہ اس درجے کی متنوع، مختلف اور متضاد کائناتی عناصر کو اس نے اس طرح مسخر کر رکھا ہے اور ان میں باہمی طور پر ایسا نظم، ڈیزائن، تناسب اورتوازن ہے کہ یہ سب مل کر حیات کے ناممکن واقعہ کو ممکن بنا دیتے ہیں ۔ اس عمل میں کائنات کس طرح موافق ہوکر کام کرتی ہے اسے صرف ایک مثال سے اس طرح سمجھیں کہ پانی کا ایک گھونٹ ہم پیتے ہیں اس کے لیے کیا نظام کام کر رہا ہے ۔ پانی کا اصل ذخیرہ سمندر ہے ۔ مگر یہ کھڑا پانی سڑ جاتا ہے اس لیے اسے سڑنے سے بچانے کے لیے نمکین بنادیا گیا۔ پھر سورج زمین سے ایک مناسب فاصلے پر رہ کر سمندر کو گرم کرتا ہے ۔ جس سے نمک نیچے رہ جاتا ہے اور پانی بھاپ کی شکل میں اوپر اٹھ جاتا ہے ۔ پھر فضا اس بھاپ کو بادل بنا دیتی ہے اور پھر ہوا اسے اپنے کندھوں پر اٹھائے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے بارش کی شکل میں انسانوں کو سیراب کرتی ہے ۔ پھر مستقل استعمال کے لیے یہ پانی زمین کی تہہ میں اسٹور کر دیا جاتا ہے اور کچھ  پانی پہاڑوں پر برف کی شکل میں جمادیا جاتا ہے جس کے پگھلنے سے سارا سال دریا بہہ کر انسانی بستیوں کو سیراب کرتے ہیں۔ یہی نظام خوراک بھی پیدا کرتا ہے ۔ کیونکہ یہ برسنے والا پانی ہی مردہ دھرتی کو زندہ کر کے وہ پیداوار اگاتا ہے جو انسان اور دیگر مخلوقات کی زندگی کا سبب ہیں ۔

 

یہ بات قرآن کریم میں ان گنت مقامات پر بیان ہوئی ہے۔ اختصار کے پیش نظر چند مقامات درج ذیل ہیں ۔ حج 63۔ فاطر27۔ زمر21۔ البقرہ 22، 164۔ انعام 99۔ رعد 17 ۔ نحل 10، 65 قرآن ان میں سے ہر ایک چیز کو سامنے رکھ کر یہ سوال کرتا ہے کہ یہ سارا انتظام کس نے کیا ہے۔ اگر اللہ کو نہیں مانا جائے گا تو یہ جو ہر قدم پر ایک ارادے کی کارفرمائی، مقصدیت، ڈسپلن، تنظیم، ڈیزائن نظر آ رہا ہے اس کی کیا توجیہ کی جا سکتی ہے۔ یہ توازن انتہائی نازک ہے جس میں معمولی سی کمی بیشی سب کچھ برباد کر دے گی۔ جیسے سورج ذرا سا بھی قریب آجائے تو سارے سمندروں کا پانی بھاپ بن ختم ہوجائے گا اور نتیجتاً زندگی کی ہر شکل کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ مگر کس نے اس سسٹم کو تھام رکھا ہے ۔ کون حیات اور پرورش کے اس انتظام کو پوری کائنات پر جبر کر کے باقی رکھے ہوئے ہے۔ یہ پورا نظام بلاشبہ ایک ارادے کا گواہ ہے ۔ ارادہ ہے تو ارادہ کرنے والی ہستی بھی ہو گی۔ نظم ہے تو ناظم بھی ہو گا۔ ڈیزائن ہے تو ڈیزائنر بھی ہو گا۔ ربوبیت ہے تو رب بھی ہو گا۔ ایک شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ ہم اس دعویٰ کو نہیں مانتے ۔ یہ سب اتفاق کی کارفرمائی ہے ۔ کروڑ وں برس کے ارتقا کے نتیجے میں یہ سب آپ سے آپ ہو گیا۔ اربوں ستاروں میں سے ایک سیارے یعنی زمین پر اتفاق کی یہ زنجیر چلی اور زندگی ایک سادہ خلیہ سے شروع ہوکر بتدریج اتنی پیچیدہ ہو گئی۔ یہ بات ٹھیک ہونے کا ایک امکان ہو سکتا ہے ، مگر سائنس کی ترقی نے اب یہ حقیقت کھول دی ہے کہ حیات اپنی سادہ ترین سطح پر بھی اتنی زیادہ ہی پیچیدہ ہے اور وہاں بھی وہی پیچیدہ ترین نظام چل رہے ہیں جن کے لیے یہ ماننا ضروری ہے کہ کسی ارادہ کرنے والی ہستی، کسی ناظم ، کسی ڈیزائنر نے وہاں بھی ویسا ہی ایک سسٹم بنارکھا ہے جیسا کہ سورج، سمندر، فضا، ہوا، بادل، پہاڑ ، دھرتی اور دریا کو ملا کر ہمیں پینے کا پانی دیتا ہے۔ یہ بات محض ایک مفروضہ ہے کہ زندگی ابتدائی سطح پر بہت سادہ ہے ۔ زندگی ابتدائی سطح پر بھی انتہائی پیجیدہ ہے ۔ اس کو وجود میں لانے کے لیے ضروری تھا اور اس کو باقی رکھنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ کوئی ناظم، کوئی رب، کوئی ڈیزائنر مانا جائے۔ زندگی کی جو مقصدیت اس بظاہر بے مقصد کائنات میں نظر آتی ہے اس کی توجیہ سوائے خدا کے اور کوئی نہیں ۔

 

3۔وجود انسانی کی اندرونی پکار

گرچہ یہ دوباتیں ہی جو ہم نے اوپر بیان کی اس حقیقت کو کھول دیتی ہیں کہ یہ کائنات اپنے وجود کی خاموش آواز میں پکار پکار کر یہ کہتی ہے کہ اس کا ایک خالق اور مالک ہے جو اسے پال رہا ہے۔ مگر اس کائنات میں انسان جیسی مخلوق بھی پائی جاتی ہے جس کی فطرت کے اندر اپنی ہستی کا شعور، خدا کا تصور، خیر و شر اور سب سے بڑھ  کر عقل و فہم کی صلاحیتیں رکھ دی گئی ہیں۔ انسان کی اس ہستی کا تجزیہ ہم پہلی دلیل کے تحت کر چکے ہیں اور اس دلیل کے آغاز پر خلاصہ بھی بیان کر چکے ہیں۔  زیر بحث آتی سورہ نور کے اگلے حصے میں اللہ تعالیٰ اس شخصیت کو سامنے رکھتے ہیں کہ اس نور کا ماخذ خارج نہیں خود انسان کا اپنا وجود ہے ۔

 

’’ اُس کے نور کی مثال ایسی ہے ، جیسے ایک طاق ہو جس میں چراغ رکھا ہوا ہو، چراغ ایک فانوس میں ہو، فانوس ایسا ہو جیسے ایک چمکتا ہوا تارا۔ یہ چراغ زیتون کے ایسے شاداب درخت کے روغن سے جلایا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی۔ اُس کا روغن آگ کے چھوئے بغیر ہی بھڑ کا پڑتا ہو۔ روشنی پر روشنی! اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی فرماتا ہے ۔ (یہ ایک تمثیل ہے ) اور اللہ یہ تمثیلیں لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے بیان کرتا ہے ۔ (وہ ہر ایک سے وہی معاملہ کرتا ہے جس کا وہ سزاوار ہے ) اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے ۔

‘‘

یہاں طاق سے مراد انسان کا حیوانی وجود ہے ۔ چراغ انسان کا نفسی وجود یا اس کی شخصیت ہے جسے ہم نے انسان کی ہستی یا انا کا نام دیا۔ فانوس یا شیشہ عقل و فہم کی صلاحیتیں ہیں اور تیل فطرت میں موجود روحانیت کا احساس ہے۔ انسان کا یہ اپنا وجود خود اپنی توجیہہ چاہتا ہے ۔ اس کی عقل کائنات کو دیکھ کر سوالات اٹھاتی ہے ۔ اس کی فطرت اپنی خاموش صدا میں خدا کو تلاش کرتی ہے ۔ یہ تلاش اتنی شدید ہے کہ خدا نہ ملے تو انسان غیر خدا کوخالق کے مقام پر بٹھا دیتا ہے ، مگر وہ کبھی خدا کے تصور کے بغیر نہیں زندہ رہا۔ کائنات کے بقیہ حقائق کی طرح اس بات کی بھی کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی کہ انسان میں خدا کا اتنا گہرا تصور کیسے آ گیا۔ منکرین اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ ہزاروں برس کے خارجی تصورات اور حالات کا نتیجہ ہے ۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر یہ تصور خارج سے آیا ہے تو خارجی حالات کے بدلنے پر اس تصور کو بھی ختم ہوجانا چاہیے تھا۔ اس کو ایک مثال سے یوں سمجھیں کہ کہا جاتا ہے کہ انسانی معاشرت میں عورتوں کو ابتدا میں مرکزی اور برتر مقام حاصل تھا۔ مگر زراعتی دور میں عورت کا مقام پست ہو گیا۔ مگر ہم سب جانتے ہیں کہ صنعتی دور اور اب انفارمیشن ایج میں خواتین کی حیثیت تیزی سے تبدیل ہو چکی ہے ۔ ایک اور مثال یہ ہے کہ ہزاروں برس تک انسان سورج ، چاند ، ستاروں اور دیگر کائناتی مظاہر کو پوجتا رہا۔ مگر وقت بدلا تو یہ پرستش کے بجائے تحقیق کا موضوع بن گئے ۔مگر خدا کا معاملہ یہ ہے کہ حالات کچھ بھی رہے ہوں انسان خدا کو زندگی سے نہیں نکال سکا۔ اس کا مقام نہیں بدل سکا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مشرکانہ تصورات کے تحت جن دیگر خداؤں کو تخلیق کائنات میں سے کچھ حصہ دیا جاتا تھا آج ان کی یہ حیثیت نہیں رہی۔ مگر خدا آج بھی اپنی جگہ موجود ہے ۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ غیر خدا ہوں ، مظاہر کائنات ہوں یا عورت کا معاملہ ہو، ان سب کی حیثیت خارجی تصورات سے متعین ہوئی تھی اس لیے بدلتی رہی۔ خدا اصل میں اندرونی آواز ہے اس لیے اس کا تصو ر ہمیشہ سے اپنی جگہ باقی رہا ہے ۔ وجود انسانی کی یہی وہ شہادت ہے جو بتاتی ہے کہ خدا موجود ہے ۔ قرآن مجید اس تمثیل میں یہ واضح کرتا ہے کہ فطرت کا یہ تیل جیسے ہی نور نبوت سے روشنی پاتا ہے تیزی سے بھڑک اٹھتا ہے ۔ پھر عقل کے شفاف فانوس سے گزر کر اس کی روشنی میں پوری کائنات کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے اور ہر چیز اپنی جگہ واضح ہوجاتی ہے ۔

 

ظلمات

اس آیہ نور میں قرآن کریم یہی واضح نہیں کرتا کہ اللہ پر ایمان کے نور سے کائنات کی ہر شے اپنی جگہ پالیتی ہے بلکہ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ جب انکار کر دیا جاتا ہے تو سوائے اندھیروں کے کچھ بھی نہیں بچتا۔ اس سلسلہ کلام کے آخر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔

’’یا پھراس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا، کہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے ، اس پر ایک اور موج، اور اس کے اوپر بادل، تاریکی پر تاریکی مسلط ہے ، آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے ، جسے اللہ نور نہ بخشے اس کے لیے پھر کوئی نور نہیں ۔(النور40:24) اللہ کے وجود کے سوا انسان اپنی تاریخ میں کبھی اس سوال کا جواب دے ہی نہیں سکا کہ یہ کائنات کس نے بنائی ہے ۔ ڈھائی تین ہزار سال میں انسان نے جو کچھ سوچا اور جسے فلسفے کا علم کہا جاتا ہے ، اس کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انسان کے پاس خدا کے سوا اس سوال کا کوئی قابل قبول جواب ہی نہیں ۔ پچھلے تین ہزار برسوں میں فلسفیوں نے خدا کے علاوہ اس کائنات کی جو توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے اس سے دو ہی جوابات سامنے آئے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کائنات کا کوئی خدا نہیں ۔دوسرا جواب یہ ہے کہ اس کائنات کا ایک خدا مگر وہ کائنات میں سرائیت کیے ہوئے ہے ۔اس کے بارے میں ایک فلسفی نے بجا کہا ہے کہ یہ انکار خدا کا مہذبانہ طریقہ ہے ۔ گویا کہ اصل جواب ایک ہی ہے کہ کائنات کا کوئی خالق نہیں اور یہ آپ سے آپ وجود میں آئی ہے ۔ یہ بات علم، عقل، فطرت اور وجدان غرض ہر پہلو سے ایک ناقابل قبول بات ہے ۔ اسی کی تفصیل پیچھے ہم نے بیان کی ہے کہ کس طرح اس کائنات میں موجود تخلیق و بقا کا سلسلہ، کائنات و مخلوقات میں موجود ربط و نظم، مقصد و معنویت اور ترتیب وتوافق کا سلسلہ اور ان دونوں سے قبل انسان کے اندرونی وجود کی روحانی پکار سب مل کر اس بات کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں کہ یہ کائنات خود بخود بنی اور خود بخود ہی چل رہی ہے ۔ کائنات کی یہ تخلیقی فیکٹری ، اس میں پائی جانے والی کامل حکمت اور اس میں کھ ا ہوا باشعور انسان سب ہمیشہ سے انکار خدا کے تصور کو رد کرتے آئے ہیں۔ اس انکار کو قرآن مجید اندھیرے در اندھیرے کا وہ سلسلہ کہہ رہا ہے جس میں انسان کو اپنا آپ بھی سجھائی نہیں دیتا۔ چنانچہ خدا کے علاوہ کائنات کی کسی دوسری توجیہ کا کبھی سامنے نہ آنا اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ خدا کے سوا اس دنیا کی کوئی توجیہ نہیں ہو سکتی۔

 


ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران