مضامین
قرآن (12) دلائل آخرت : قدرت کی دلیل ۔
دلائل
آخرت : قدرت کی دلیل
دلیل
قدرت کا خلاصہ
ہم
نے پچھلی قسط میں میں دلائل آخرت کے ضمن میں قدرت کی دلیل کا بیان شروع کیا تھا ۔
قرآن مجید نے یہ دلیل تین پہلوؤں سے پیش کی ہے جو درج ذیل ہیں ۔
1۔ان انسانی مشاہدات کو سامنے رکھ کر جن میں انسان ہر روز مردہ
چیزوں کو زندہ ہوتے دیکھتے ہیں ۔
2۔انفس و آفاق میں جو کچھ موجود ہے اس صناعی و کاریگری کی عظمت کو
سامنے رکھ کر یہ بتایا گیا ہے کہ تخلیق کا اتنا مشکل اور اتنا نازک معاملہ پہلی
دفعہ کیا جا سکتا ہے تو دوبارہ بھی کیا جا سکتا ہے ۔
3۔اللہ کے علم و قدرت کے ان پہلوؤں کو سامنے رکھنا جو یہ بتاتے ہیں
کہ مرنے والے انسانوں کے لیے فنا ہوتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کے علم و قدرت سے وہ کسی
طور باہر نہیں نکلتے ، اس لیے وہ جب چاہے گا انھیں دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا۔
ان
میں سے پہلے پر تفصیل سے گفتگو کی جا چکی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس دنیا میں ان
گنت مظاہر ہیں جو ایک نوعیت کی موت سے گزر کر بار بار زندہ ہوتے ہیں اور ہر انسان
ان کا مشاہدہ کرتا ہے ۔ جیسے مردہ زمین کا زندہ ہونا، انسان کا ہر روز نیند سے
بیدار ہونا اور اجرام فلکی کا غروب ہوکر طلوع ہونا۔ یہ سب بتاتے ہیں اللہ کی دنیا
میں مردہ ہونے کے بعد زندگی ، موت کی بے ہوشی کے بعد بیداری اور نظروں سے اوجھل ہو
جانے کے بعد دوبارہ طلوع ایک معمول کا واقعہ ہے ۔ ایسے قادر مطلق رب کے لیے مردوں
کا زندہ کرنا کیا مشکل ہے۔ یہی نہیں بلکہ مذہب کی تاریخ میں ایسے واقعات بھی ملتے
ہیں جن میں مردہ حیوانی وجود کو زندہ کر کے اللہ نے خود لوگوں کو دکھایا ہے ۔ جیسے
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعے سے مردوں کو زندہ کرنا، حضرت ابراہیم علیہ السلام
کی درخواست پر مردہ پرندوں کو زندہ کرنا اور اصحاف کہف کا صدیوں بعد زندہ کیا
جانا۔ ایسے صاحب قدرت خدا کے لیے تمام انسانوں کو ایک روز زندہ کرنا کیا مشکل ہے ؟
تخلیق
اول اور تخلیق عالم سے استدلال
دلیل
قدرت کا دوسرا پہلو اس حقیقت کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت جب بغیر کسی نقشے
اور مثال کے پہلی دفعہ تخلیق کا عمل کرسکتی ہے تو دوسری دفعہ تخلیق کرنا کیا مشکل
کام ہے ۔ عقل و شعور رکھنے والا ہر انسان اس چیز کو سمجھ سکتا ہے کہ کسی بھی چیز
کو پہلی دفعہ بنانا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ لیکن ایک دفعہ جب کوئی چیز بن کر سامنے
آجائے تو دوبارہ ا س کو اسی صورت پر پیدا کرنا نسبتاً بہت آسان کام ہے ۔ مثلاً ایک
مکان کی جب تعمیر کی جاتی ہے تو پہلی دفعہ نقشہ ہوتا ہے نہ اینٹ گارا، زمین سامنے
ہوتی ہے نہ لوہا اور پتھر۔ مگر بنانے والا جب عزم کر لیتا ہے تو وہ زمین ڈھونڈتا،
نقشہ ترتیب دیتا، معمار اکھٹے کرتا، اسباب جمع کرتا اور گھر کو تعمیر کر کے رہنا
بسنا شروع کر دیتا ہے۔ مگر کسی حادثے یا زلزلے وغیرہ میں یہ گھر ڈھے جائے تو
دوبارہ نسبتاً کم محنت سے مکان کی تعمیر نو کا یہ کام کر لیا جاتا ہے ۔
ٹھیک
یہی معاملہ وجود انسانی کا ہے۔ انسان کی دوبارہ پیدائش کا کوئی لاکھ انکار کرے ،
پہلی پیدائش کا منکر تو نہیں ہو سکتا۔ ہر شخص جانتا ہے کہ انسان پر ایک وقت وہ
گزرتا ہے جب وہ عدم محض ہوتا ہے ۔ کوئی اس کا نام جانتا ہے نہ اس کا نشان ہی کہیں
موجود ہوتا ہے ۔ پھر ایک روز اس کے ماں باپ کے اکھٹے ہونے سے انسان کی داغ بیل
پڑنا شروع ہوتی ہے ۔انسان اپنی زندگی کا یہ سفر ایک قطرہ آب سے شروع کرتا اور
بتدریج مختلف مراحل سے گزر کر انسان کامل کے روپ میں دنیا میں آ جاتا ہے ۔ یہ پورا
واقعہ اپنی ذات میں ایک ناقابل یقین واقعہ اور ایک معجزہ ہے ۔ مگر چونکہ یہ معجزہ
ہر روز ہوتا ہے اس لیے کسی کو عجیب نہیں لگتا۔ اب جس نے یہ واقعہ پہلی دفعہ ممکن
بنایا ہے، وہ اگر یہ کہے کہ میں یہ کام دوبارہ کرسکتا ہوں تو اس میں ایسی کون سی
عجیب بات ہوگئی ہے۔ بلکہ جیسا کہ بیان ہوا۔ یہ دوسری تخلیق تو زیادہ آسان کام ہے ۔
قرآن مجید تو اس سے آگے بڑھ کر یہ کہتا ہے کہ نہ صرف انسان کو دوبارہ زندہ کیا
جائے گا بلکہ اس کی انگلیوں کی پور پور کو دوبارہ ویسا ہی بنا دیا جائے گا جیسا کہ
وہ دنیا میں تھی۔ اس میں ایک بڑی لطیف بات یہ پوشیدہ ہے کہ انگلیوں کی پوروں پر
موجود فنگر پرنٹ ہر انسان کی جداگانہ شخصیت کے عکاس ہوتے ہیں ۔ چنانچہ اس کا مطلب
یہ ہے کہ ہر انسان کو جیسا کہ وہ تھا بعینہٖ دوبارہ پیدا کر دیا جائے گا۔
قرآن
مجید صرف انسان کی تخلیق اول کو بطور استدلال پیش نہیں کرتا بلکہ ساتھ میں ایک
دوسری حقیقت کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے ۔ وہ یہ کہ انسان جس کائنات اور جس ارض و
سما ء میں زندہ ہے ، وہ اپنی ذات میں کہیں زیادہ بڑی اور پیچیدہ تخلیق ہے ۔ جس رب
کی قدرت کاملہ نے اس کائنات اور آسمان و زمین کی ہر شے کو پیدا کیا ہے، اس سے یہ
کیسے بعید ہے کہ وہ انسان جیسی معمولی چیز کو دوبارہ نہ پیدا کرسکے ۔
چنانچہ
انسانوں کی یہ تخلیق اول اور زمین سے آسمان تک پھیلی یہ دنیا اور اس کی تخلیق اس
بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ایسے صاحب قدرت رب کے لیے انسانوں کو دوبارہ جی اٹھانا
کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے ۔
نگرانی
علم اور قدرت کی مثال
تاروں
بھرے آسمان سے دوبارہ تخلیق میں ایک اگلا سوال یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ مان لیا
کہ مکان دوبارہ بن سکتے ہیں ۔ مان لیا کہ انسان بھی دوبارہ بن سکتے ہیں۔ مگر انسان
کو جی اٹھانا تو اپنی ذات میں کوئی کام نہیں ۔ اس دوبارہ زندگی کا مقصد تو حساب
کتاب ہے ۔ وہ کیسے ہو گا؟ کیوں کر ہو گا؟ دنیا میں کسی مجرم کو سزا دی جاتی ہے تو
ثبوت پیش کیا جاتا ہے ۔ کسی کام پر جزا دی جاتی ہے تو اس کارنامے کے دس گواہ ہوتے
ہیں ۔ یہ آخرت میں گواہی ثبوت کا یہ معاملہ کیسے ہو گا؟
اس
کا جواب اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں یہ دیتے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کے بنائے
ہوئے نگرانی و حفاظت کے ایک مستقل انتظام میں جی رہا ہے۔ یہ نگرانی اتنی غیر
معمولی ہے کہ انسان کی زبان سے ایک لفظ نہیں نکلتا مگر اس کو ریکارڈ کر لیا جاتا
ہے ۔ ذرہ برابر کسی اچھائی یا برائی کا انسان ارتکاب نہیں کرتا، مگر قیامت کے دن
وہ اس کو اپنے نامہ اعمال میں موجود پائے گا۔ کراماً کاتبین انسان کے ہر عمل سے
واقف ہیں اور اسے اس کے نامہ اعمال میں نوٹ کرتے رہتے ہیں۔ یہ فرشتے ہی نہیں بلکہ
انسان کی اپنی جلد اور اس کے اعضاء تک قیامت کے دن اس کے اعمال کے بارے میں گواہی
دیں گے ۔
قرآن
مجید کے اس دعویٰ پر اگلا سوال یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ یہ تو عالم غیب کی باتیں ہیں
۔ ہم کیسے مان لیں کہ ہم براہ راست کسی نگرانی کے نظام میں زندہ ہیں۔اس کی دلیل
کیا ہے ؟ قرآن مجید اس اشکال کا جواب بھی دیتا ہے ۔ وہ نگرانی کے اس نظام کو
سمجھانے کے لیے تاروں بھرے آسمان کو گواہی میں پیش کرتا ہے ۔
یہ
مثال یوں تو ہر دور انسان کے لیے قابل فہم ہے لیکن زرعی دور کے اس انسان کے لیے تو
بہت زیادہ موثر تھی جو سارا دن کھلے آسمان تلے کھیت کھلیان میں کام کرتا، بھیڑ
بکریوں کو چراتا، بازار میں خرید و فروخت کرتا اور تجارتی کارواں میں دور
دراز سفر کرتا تھا۔ دن بھر کی تکان سے نڈھال ہو کر رات کے وقت جب یہ انسان ٹھنڈی
ہوا کے لیے کھلے آسمان تلے سونے کے لیے لیٹتا تو اس کی نگاہوں کے سامنے سب سے بڑی
چیز تاروں بھرا آسمان ہوتا۔ یہ آسمان وہی تھا جو دن بھر اس پر سایہ فگن رہا لیکن
دن کے برعکس رات میں اس آسمان پر جگمگاتے تاروں کا راج تھا۔ یہ تارے آسمان کی وہ
منور نگاہیں تھیں جو دن میں اس کی نظر سے اوجھل کر دی گئی تھیں۔ انسان سارا دن اس
احساس میں رہا کہ صاف و شفاف نیلگوں آسمان میں کچھ نہیں ۔ اس پر کوئی نگرانی نہیں۔
انسان کا جو دل چاہا وہ اس نے کیا اور یہ حقیقت بھول گیا کہ مستقل اس کی نگرانی کی
جا رہی تھی۔ رات کے وقت جگمگاتے تارے آسمان کی آنکھیں بن کر ، نگرانی کی ایک زندہ
تمثیل بن کر اس کے سامنے آ جاتے ہیں ۔ یہ آسمان کی وہ روشن نگاہیں ہیں جو اسے
مستقل تک رہی تھیں مگر خود روشنی کے پردے میں مستور رہیں ۔رات کے وقت اصل حقیقت اس
کے سامنے کھل کر آ گئی ہے ۔ انسان درحقیقت ستاروں کی ان لاتعداد نگاہوں کی مستقل
زد میں تھا۔ یہ نگاہیں اسے مستقل دیکھ رہی تھیں ۔ اس کے ایک ایک عمل کو محفوظ کر رہی
تھیں ، مگر وہ ان کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔ مگر اب نیند کی آغوش میں جانے سے قبل اس
نے دیکھ لیا کہ یہ سب اس پر نگران تھیں ۔
یہ
بے مثال تمثیل نگرانی اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ نظام کو بہترین طریقے پر انسان کے
سامنے کھول دیتی ہے۔ تم ہر حال میں نادیدہ نگاہوں کی زد میں ہو۔ اس وقت وہ نگاہیں
تمھیں نظر نہیں آ رہی ، مگر موت کی آغوش میں لیٹتے ہی جب تمھارا منہ آسمان کی طرف
ہو گا۔ تم دیکھ لو گے کہ تمھاری نگرانی کرنے والے کون تھے ۔
قرآنی
بیانات
مذکورہ
بالا مفاہیم قرآن مجید میں جگہ جگہ بیان ہوئے ہیں۔ انسان کی تخلیق اول سے تخلیق
ثانی کی دلیل قرآن مجید میں بہت زیادہ دہرائی گئی ہے ۔ چند مقامات درج ذیل ہیں ۔
’’تم اللہ کا کس طرح انکار کرتے ہو اور حال یہ ہے کہ تم مردہ تھے
تو اس نے تم کو زندہ کیا ۔ پھر وہ تم کو موت دیتا ہے پھر زندہ کرے گا، پھر تم اسی
کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔‘‘ (البقرۃ 28:2 )
’’اے لوگو! اگر تم دوبارہ جی اٹھنے کے باب میں شبہ میں ہو تو
دیکھو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ پھر منی کے ایک قطرے سے ، پھر ایک جنین سے
، پھر ایک لوتھڑے سے ، کوئی کامل ہوتا ہے اور کوئی ناقص۔ ایسا ہم نے اس لیے کیا تا
کہ تم پر اپنی قدرت و حکمت اچھی طرح واضح کر دیں اور ہم رحموں میں ٹھہرا دیتے ہیں
جو چاہتے ہیں ایک مدت معین کے لیے ۔ پھر ہم تم کو ایک بچہ کی شکل میں برآمد کرتے
ہیں ، پھر ایک وقت دیتے ہیں کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو۔ اور تم میں سے بعض پہلے ہی
مر جاتے ہیں اور بعض بڑھاپے کی آخری حد کو پہنچتے ہیں تا آنکہ وہ کچھ جاننے کے بعد
کچھ بھی نہیں جانتے ۔(الحج 5:22)
’’کہہ دو ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی مرتبہ پیدا
کیا۔ اور وہ ہر مخلوق سے اچھی طرح باخبر ہے ۔‘‘، (یسین 79:36)
’’انسان غور کرے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ! وہ پیدا کیا
گیا ہے ذرا سے اچھلتے پانی سے جو نکلتا ہے ریڑھ اور پسلیوں کے بیچ سے ۔ بے شک وہ
اس کے لوٹا سکنے پر پوری طرح قادر ہے ۔‘‘، (الطارق 8:86-5)
جبکہ
تخلیق کائنات سے انسان کی تخلیق ثانی پر اس طرح استدلال کیا گیا ہے ۔
’’کیا انہوں نے نہیں سوچا کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا
کیا وہ قادر ہے کہ ان کے مانند پھر پیدا کر دے اور اس نے ان کے لیے ایک مدت مقرر
کر رکھی ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن یہ ظالم انکا رہی پر اڑے رہے ۔ (بنی
اسرائیل 99:17)
’’کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا وہ ان کی جیسی مخلوق
پیدا کر نے پر قادر نہیں ! ہاں وہ قادر ہے اور وہی اصل پیدا کرنے والا اور جاننے
والا ہے ۔ اس کا معاملہ تو بس یوں ہے کہ جب وہ کسی بات کا ارادہ فرماتا ہے تو کہتا
ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے ۔ پس پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا اختیار
ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔(یسین 36: 83-81)
اللہ
تعالیٰ کی قدرت علم اور نگرانی کا بیان بعض مقامات پر اس طرح کیا گیا ہے ۔
’’کیا ان کا گمان ہے کہ ہم ان کے رازوں اور سرگوشیوں کو نہیں سن
رہے؟ ہاں (ہم سن رہے ہیں) اور ہمارے فرستادے ان کے پاس لکھ رہے ہیں ۔‘‘،
(الزخرف 80:43)
’’ہرگز نہیں ، بلکہ تم جزا کو جھٹلاتے ہو۔ حالانکہ تم پر نگران
مامور ہیں ، دبیرانِ گرامی۔ وہ جانتے ہیں جو تم کرتے ہو۔‘‘ (انفطار82: 12 – 9)
انسان
کی دوبارہ بعینہٖ تخلیق کا بیان ایسے کیا گیا ہے ۔
’’کیا انسان نے گمان کر رکھا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کر
پاویں گے ! ہاں ، ہم جمع کریں گے اس طرح کہ اس کے پور پور کو ٹھیک کر دیں گے ۔‘‘
(قیامہ 75: 4-3)
جبکہ
تاروں بھرے آسمان سے اس غیبی نگرانی اور اس سے قیامت پر استدلال کو اس طرح بیان
کیا گیا ہے ۔
’’آسمان گواہی دیتا ہے اور رات میں نمودار ہونے والے بھی ۔اور تم
کیا سمجھے کہ کیا ہیں رات میں نمودار ہونے والے ! دمکتے ستارے ! یہ سب گواہی دیتے
ہیں ہر جان پر ایک نگہبان مقرر ہے ۔ ‘‘، (الطارق 86: 4-1)
’’گواہی دیتا ہے برجوں والا آسمان اور وہ دن بھی جس کا وعدہ تم
سے کیا جا رہا ہے اور دیکھنے والے اور جو کچھ وہ دیکھ رہا ہے ، یہ سب گواہی دیتے
ہیں (کہ قیامت ہوکر رہے گی)۔‘‘ (البروج 85 :3-1)
[جاری ہے ]
ایک تبصرہ شائع کریں