مضامین قرآن (17) دلائل آخرت: رسولوں کی اقوام کی سزا وجزا ۔


 

مضامین قرآن (17) دلائل آخرت: رسولوں کی اقوام کی سزا وجزا ۔

دلائل آخرت: رسولوں کی اقوام کی سزا وجزا

آخرت کی ایک ناقابل انکار دلیل

قرآن مجید میں بیان کیے جانے والے آخرت کے جن دلائل کا ہم نے مطالعہ کیا ہے وہ آخری درجہ میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس دنیا کے بعد ایک نئی دنیا قائم ہونا اور وہاں پر تمام انسانوں کی سزا و جزا کا واقع ہونا ایک لازمی امر ہے ۔ مشاہدہ ان کی تائید ، عقل ان کی تصویب اور فطرت ان کی تصدیق کرتی ہے ۔ تاہم اس حقیقت کے باوجود بہرحال یہ عقل و فطرت ہی کے دلائل ہیں ۔ عقلی بات کا ایک نامعقول ہی سہی، مگر جواب بہرحال دیا جا سکتا ہے ۔ فطرت کی آواز بہت سچی سہی ، مگر اس کی پکار کو سنی ان سنی کرنا غفلت کے مریضوں کے لیے کوئی مشکل نہیں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس دنیا میں کوئی شخص اتنا غبی، احمق اور نادان ہو کہ عقل و فطرت کی کسی بھی بات کو سمجھنا اس کے لیے ممکن نہ ہو۔ جبکہ آخرت کی جوابدہی کا یہ معاملہ ہر انسان کے ساتھ پیش آنا ہے ۔

 

یہی وہ پس منظر ہے جس میں قرآن مجید آخرت کی سزا و جزا کو ثابت کرنے کے لیے ایک ایسی دلیل دیتا ہے جس کا انکار کرنا کسی طور سے ممکن نہیں ہے ۔ یہ دلیل کچھ خاص اقوام کے معاملے اسی دنیا میں برپا کی جانے والے وہ سزا وجزا ہے جس کی حیثیت ایک معلوم و معروف واقعے کی ہے اور جس کا انکار کوئی نہیں کرسکتا۔ اور جس کے بعد آخری بات یہی رہ جاتی ہے کہ پھر انکار کرنے والے کے ساتھ ہی براہ راست سزا و جزا کا معاملہ شروع کر دیا جائے ۔ تاہم یہ اس دنیا میں اللہ کی اسکیم نہیں کہ وہ کسی فرد کی مہلت عمل ختم ہونے سے پہلے اس کے ساتھ سزا و جزا کا معاملہ کر دے ۔

 

قرآن مجید پر تدبر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا ہی میں سزا و جزا کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے دو قسم کی اقوام کا انتخاب کیا ہے ۔ پہلی اقوام وہ ہیں جن کے اندر اللہ تعالیٰ براہ راست کسی رسول کی بعثت فرمادیں اور دوسری اولاد ابراہیم جو پچھلے چار ہزار برس سے دنیا میں آسمانی سزا و جزا کا زندہ ثبوت بن کر موجود ہیں ۔ پہلے ہم رسولوں کی اقوام پر قدرے تفصیل سے بات کریں گے ۔ تاہم اس کے لیے اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کا جو اہتمام کر رکھا ہے اس کو تفصیل سے سمجھنا ہو گا۔

 

رسولوں کی اقوام کی سزا و جزا

اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اپنی ہدایت کو انسانوں تک پہنچانے کے لیے متعدد انتظامات کیے ہیں ۔ ان میں سب سے زیادہ اہم اور واضح انتظام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں ہی میں سے کچھ لوگوں کو چن لیتے ہیں اور ان کو منصب نبوت سے سرفراز فرما کر ان پر اپنی وحی نازل کرتے ہیں ۔ یہ حضرات انبیا اللہ تعالیٰ کا پیغام بے کم و کاست انسانیت تک پہنچاتے ہیں ۔ اللہ کو کیا چیز مطلوب ہے ۔ اسے کیا ناپسند ہے ۔ اپنے بندوں کو وہ کیسا دیکھنا چاہتا ہے ۔ اس کی عبادت کا طریقہ کیا ہے ۔ دنیا میں کیا چیزیں غلط ہیں ۔ ہدایت کیا ہے اور گمراہی کیا ہے ۔ درست راستہ کیا ہے اور غلط کیا ہے ۔ یہ سب حضرات انبیا واضح کرتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اگر لوگوں نے اللہ کی بات نہ مانی تو روزقیامت وہ جب اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو اس کے عذاب کی جگہ یعنی جہنم میں ڈالے جائیں گے ۔ البتہ اللہ کی اطاعت اور نیکی کا راستہ اختیار کرنے والے جنت کی ابدی بستی میں بسائے جائیں گے ۔

 

انبیا یہ دعوت دیتے ہیں اور ساری زندگی دیتے رہتے ہیں ۔ جو لوگ ان کی بات مانتے ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ آخرت کی فلاح کے حقدار ٹھہرتے ہیں اور ان کا کفر کرنے والے اہل جہنم میں شامل ہوجاتے ہیں ۔ لیکن اس دنیا میں انبیا کی تکذیب کر دی جائے یا تصدیق۔ اس کا بالعموم کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ تاہم انبیا میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی قوم کو صرف یہ دعوت ہی نہیں دیتے بلکہ اس مشن کے ساتھ بھیجے جاتے ہیں کہ ان کی دعوت کی انتہا پر قوم کا فیصلہ اِسی دنیا میں کر دیا جائے ۔ چنانچہ وہ صاف صاف بتاتے ہیں کہ ان کی بات نہ مانی گئی تو قوم کو دنیا ہی میں صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے گا۔ ان کے کفر کی پاداش میں اللہ کا عذاب آئے گا اور ایک شخص کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا سوائے ان کے جو ایمان لائے اور عمل صالح کرتے رہے ۔ یہی بچ جانے والے پھر زمین کے حکمران بنادیے جائیں گے ۔

 

یہ حضرات اپنی قوم کو نہ صرف دعوت حق دیتے ہیں بلکہ ان کے سامنے ہر طرح کے دلائل اور معجزات بھی رکھتے ہیں ۔ وہ ان کے ہر سوال ، اعتراض ، شبہے اور الجھن کاحل پیش کرتے ہیں۔ اپنی دعوت کو ہر اس پہلو سے پیش کرتے ہیں جس سے بات سمجھی جا سکے ۔ قوم مطالبہ کر دے تو بارہا اس کی مرضی کی نشانیاں دکھا کر بھی اس کو قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہ کام دو چار دن نہیں بلکہ تمام تر مخالفت کے باوجود برسہا برس ، عشروں بلکہ حضرت نوح کے معاملے میں صدیوں تک ہوتا رہا ہے ۔ یہاں تک کہ ایک وقت آتا ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے علم کی بنیاد پر یہ فیصلہ سنادیتے ہیں کہ اب ہر شخص کو بات سمجھ میں آ گئی ہے ۔ لیکن یہ لوگ نہ صرف جان بوجھ کر سرکشی اور کفر پر اڑے ہوئے ہیں بلکہ پیغمبروں کی جان کے دشمن ہو چکے ہیں ۔ چنانچہ اس وقت اللہ کا فیصلہ آتا ہے اور ہوا، پانی، بادل، زمین ، پہاڑ غرض فطرت کی کسی بھی طاقت کو استعمال کر کے اس قوم کو ہلاک کر دیا جاتا ہے ۔ تاہم اگر رسول کے اپنے پیروکار ہی بڑی تعداد میں جمع ہوجائیں تو پھر یہ عذاب فطرت کے بجائے انسانوں کے ہاتھوں سے آتا ہے اور اہل ایمان کفار کو اپنی تلواروں سے قتل کر دیتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ اس زمین میں اقتدار کے حقدار ہوجاتے ہیں ۔

 

ایک دلیل دو پہلو

قرآن مجید میں حضرات نوح، ہود، صالح، ابراہیم، شعیب، موسیٰ اور بعض دیگر رسولوں کے قصے اسی پس منظر میں کفار مکہ کو سنائے گئے ہیں کہ جس طرح یہ لوگ اپنے کفر کی پاداش میں ہلاک ہوئے ہیں تم بھی اپنے کفر کی وجہ سے مارے جاؤ گے ۔ تیرہ برس تک کفار مکہ کو یہ قصے سنائے گئے ، مگر وہ اپنی سرکشی پر قائم رہے ۔ تاہم مکہ میں کافی لوگ ایمان بھی لے آئے تھے اور پھر اہل یثرب کے قبول اسلام کے بعد اہل ایمان کو دار الہجرت بھی میسر آ گیا تھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے مدینہ ہجرت کی۔ اس کے بعد جنگ بدر میں اہل مکہ کی اس ساری منکر قیادت کو اہل ایمان کی تلواروں کے ہاتھوں ختم کر دیا گیا جس نے اس دعوت کا انکار کیا تھا۔ جبکہ چند ہی برس میں تمام عرب میں مسلمانوں کا اقتدار قائم ہو گیا۔

 

رسولوں کے ذریعے سے برپا ہونے والی اس سزا جزا کا ایک پہلو تو یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے ان کا اللہ کا بھیجا ہوا ہونا یا رسول (لفظ رسول کا لغوی مطلب بھیجا ہوا ہونا ہی ہے) ہونا ثابت ہوجاتا ہے ۔ اسی وجہ سے ان انبیا کو رسول کہا جاتا ہے یعنی ان کا اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا ہونا ایک مسلمہ حقیقت بن کر سامنے آ جاتا ہے ۔ اس پر مزید گفتگو ہم نبوت و رسالت کے دلائل کے ضمن میں کریں گے ۔ تاہم اس کا دوسرا پہلو جو یہاں نمایاں کرنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ اس سزا وجزا کے بعد یہ آخری طور پر ثابت ہوجاتا ہے کہ آخرت کی جس سزا و جزا کی خبر یہ رسول دے رہے ہیں وہ بھی ایک سچائی ہے ۔ اگر ان کی بات دنیا میں درست ثابت ہوئی ہے تو کیسے ممکن ہے کہ آخرت میں غلط ثابت ہوجائے ۔ چنانچہ ان کی بات درست ثابت ہو گی اور یہی سزا و جزا زیادہ بڑے پیمانے پر آخرت میں برپا کی جائے گی۔ یوں رسولوں کی اقوام کے ساتھ پیش آنے والی یہ سزا و جزا آخرت کا ایک ثبوت ہے جس کا انکار کرنا ممکن نہیں ۔ جس طرح ایک تجربہ گاہ میں یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ پانی آکسیجن اورہائیڈروجن سے مل کر بنا ہے او اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا اسی طرح یہ دنیوی سزاو جزا یا دینونت (لفظی مطلب بدلہ) وہ حتمی ثبوت ہے جو رسولوں کی اقوام کے ذریعے سے فراہم کیا جا رہا ہے اور جس کے بعد آخرت کی سزا و جزا کا انکار ممکن نہیں ۔

 

آخری سزا وجزا تاریخ کی روشنی میں

جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے کہ قرآن مجید میں جن رسولوں کا ذکر آیا ہے ان کی اقوام کے ساتھ یہی معاملہ کیا گیا۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ ان اقوام کی یہ داستانیں نہ تاریخ کے صفحات پر محفوظ رہیں ہیں اور نہ آثار قدیمہ کے دستیاب ورثے ہی اس کی کوئی تفصیل بیان کرتے ہیں ۔ یہ داستانیں سابقہ انبیا کی کتب میں مرقوم تھیں یا پھر اقوام اور افراد ان کو اساطیر اور قدیم داستانوں کے طور پر بیان کیا کرتے تھے۔ ان کو جس پہلو سے قرآن مجید نے بیان کیا، اس کو نہ پیغمبروں کی امتوں نے محفوظ کیا نہ الہامی صحیفوں میں یہ اس طرح محفوظ رہ سکی۔ تاہم قرآن مجید اور آخری نبی و رسول اس معاملے میں ایک استثنا ہیں ۔ قرآن مجید نہ صرف سابقہ رسل کی داستانیں بیان کرتا ہے بلکہ خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے لیے اس قانون کی بنیاد پر صاف صاف پیش گوئیاں بھی کرتا ہے ۔ وہ کھل کر یہ بتاتا ہے کہ رسول کا انکار کرنے والے اس زمین سے نکال دیے جائیں گے۔ یہ لوگ ہلاک کر دیے جائیں گے ۔ وہ وقت بھی بتایا جاتا ہے جب یہ لوگ ہلاک کیے جائیں گے ۔ اہل ایمان کے غلبہ کی پیش گوئی بھی کی جاتی ہے ۔عرب کی سرزمین میں پیغمبر کو یہ غلبہ کیسے حاصل ہو گا اس کا ایک ایک مرحلہ بیان کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ یہ تمام پیش گوئیاں نہ صرف بعینیہٖ پوری ہوئیں بلکہ معاصر تاریخ نے ان تمام واقعات کو اس طرح ریکارڈ کر لیا کہ کوئی ان واقعات کا انکار نہیں کرسکتا۔

 

چنانچہ قرآن مجید میں محفوظ یہ داستان اور اس کی تصدیق میں کھڑی تاریخ اب قیامت تک آنے والے تمام انسانوں پر یہ حجت تمام کرتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف اللہ کے رسول تھے بلکہ جس سزا وجزا کی آپ خبر دے رہے ہیں وہ برحق ہے ۔ یہ آخرت کی سچائی کا وہ ثبوت ہے جس کا انکار تاقیامت کوئی نہیں کرسکتا۔

 

قرآنی بیانات

قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بہت تفصیل کے ساتھ رسولوں اور ان کی اقوام کے حالات اور پھر ان کے کفر کے نتیجے میں ان پر آنے والے عذاب کی تفصیل ملتی ہے ۔ مثلاً سورہ اعراف، سورہ ہود اور سورہ شعراء وغیرہ میں ایک ایک کر کے تمام اہم رسولوں کے حالات اور ان کی اقوام پر آنے والے عذاب کی تفصیل بیان  کی گئی ہے ۔ جبکہ انفرادی طور پر رسولوں کے حالات متعدد جگہ اسی پس منظر میں بیان کیے گئے ہیں ۔ ہم اختصار کے پیش نظر قرآن مجید کی ایک بہت مختصر سورت کو بیان کر رہے ہیں جس میں اجمالاً تمام اہم رسولوں کی اقوام اور ان کی سزا کا ذکر ایک ہی جگہ کر دیا گیا ہے ۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس سورت کے اختتام پر آخری نبی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین کو بھی صاف طور پر بتادیا گیا ہے کہ ان کے کفر کی پاداش میں یہی انجام ان کا مستحق ہے ۔ یہ سورہ قمر ہے جس کا ترجمہ درج ذیل ہے ۔

 

عذاب کی گھڑی سر پر آ گئی اور چاند شق ہو گیا، اور یہ کوئی سی بھی نشانی دیکھیں گے تو اس سے اعراض ہی کریں گے اور کہیں گے کہ یہ تو جادو ہے جو پہلے سے چلا آ رہا ہے ۔ اور انہوں نے جھٹلا دیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی اور ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر ہے ۔ اور ان کو ماضی کی سرگزشتیں پہنچ چکی ہیں جن میں کافی سامانِ عبرت موجود ہے، نہایت دل نشین حکمت۔ لیکن تنبیہات کیا کام دے رہی ہیں ! تو ان سے اعراض کرو اور اس دن کا انتظار کرو جس دن پکارنے والا ان کو ایک نہایت ہی نامطلوب چیز کی طرف پکارے گا۔ ان کی نگاہیں جھکی ہوں گی اور یہ نکلیں گے قبروں سے جس طرح منتشر ٹڈیاں نکلتی ہیں ، بھاگتے ہوئے پکارنے والے کی طرف۔ اس وقت کافر کہیں گے ، یہ تو بڑ ا کٹھن دن آ گیا

!

ان سے پہلے قوم نوح نے بھی جھٹلایا۔ انہوں نے ہمارے بندے کی تکذیب کر دی اور کہا کہ یہ تو خبطی ہے اور وہ جھڑک دیا گیا تو اس نے اپنے رب سے فریاد کی کہ میں مغلوب ہوں ، اب تو ان سے انتقام لے ۔ پس ہم نے آسمان کے دروازے موسلا دھار بارش سے کھول دیے اور زمین کو چشمے ہی چشمے کر دیا۔ پس پانی جاٹکا اس نشان پر جو ٹھہرا لیا گیا تھا اور ہم نے اس کو ایک تختوں اور میخوں والی پر اٹھا لیا جو چلتی رہی ہمار ی حفاظت میں ۔ یہ ہم نے بدلہ لینے کے لیے کیا اس کا جس کی ناقدری کی گئی۔ اور ہم نے اس سرگزشت کو ایک داستانِ عبرت بنا کر چھوڑا (عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے) تو ہے کوئی عبرت حاصل کرنے والا! دیکھ لو کس طرح سچا ثابت ہوا میرا عذاب اور میرا ڈرانا! اور ہم نے قرآن کو تذکیر کے لیے نہایت موزوں بنایا ہے تو ہے کوئی یاد دہانی حاصل کرنے والا

!

عاد نے بھی تکذیب کی تو دیکھو کس طرح واقع ہوا میرا عذاب اور میرا ڈراوا! ہم نے ان پر مسلط کر دی بادِ تند ایک مسلسل نحوست کے وقت میں جو لوگوں کو اکھاڑ پھینکتی گویا وہ اکھڑے ہوئے کھجوروں کے تنے ہوں ۔ تو دیکھو ، میرا عذاب اور میرا ڈراوا کس طرح پیش آ کے رہا! اور ہم نے قرآن کو تذکیر کے لیے نہایت سازگار بنایا ہے تو ہے کوئی یاددہانی حاصل کرنے والا

!

ثمود نے بھی انذار کی تکذیب کی۔ انہوں نے کہا، کیا ہم اپنے ہی اندر کے ایک بشر کی پیروی کریں گے! اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم کھلی گمراہی اور جہنم میں پڑے ! کیا ہمارے اندر سے اسی پر یاد دہانی نازل کی گئی، بلکہ وہ ایک لپاٹیا اور شیخی باز ہے ! وہ کل کو جان لیں گے کہ لپاٹیا اور شیخی باز کون ہے ! ہم ناقہ کو بھیجنے والے ہیں ان کے لیے آزمائش بنا کر تو ان پر نگاہ رکھ اور صبر کر۔ اور ان کو آگاہ کر دے کہ اب پانی ان کے درمیان تقسیم ہے ۔ باری باری پر حاضر ہونا ہے ۔ تو انہوں نے اپنے سردار سے فریاد کی پس وہ بڑھا اور اس نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں ۔ تو دیکھو، میرا عذاب اور میرا ڈراوا کس طرح واقع ہو کر رہا! ہم نے ان پر ایک ہی ڈانٹ بھیجی تو وہ باڑھ والے کی باڑھ کے چورے کی طرح ہو کر رہ گئے ۔ اور ہم نے قرآن کو یاد دہانی کے لیے نہایت موزوں بنایا ہے تو ہے کوئی یاد دہانی حاصل کرنے والا

!

قومِ لوط نے بھی تنبیہات کو جھٹلایا تو ہم نے ان پر سنگ ریزے برسانے والی ہوا مسلط کر دی۔ صرف آلِ لوط اس سے بچے ۔ ہم نے ان کو نجات دی سحر کے وقت۔ خاص اپنے فضل سے ۔ ایسا ہی صلہ ہم دیا کرتے ہیں ان کو جو شکر گزار رہتے ہیں ۔ اور اس نے ان کو ہماری پکڑ سے آگاہ کیا لیکن وہ تنبیہات میں مِین میکھ نکالتے ہی رہے ۔ اور انہوں نے اس کو اس کے مہمانوں کے بارے میں پھسلایا تو ہم نے ان کی آنکھیں اندھی کر دیں تو چکھو میرا عذاب اور میرا ڈرانا! اور ان پر آ دھمکا سویرے ایک ٹک جانے والا عذاب۔ تو چکھو میرا عذاب اور میرا ڈرانا ! اور ہم نے قرآن کو تذکیر کے لیے نہایت آراستہ کیا تو ہے کوئی یاد دہانی حاصل کرنے والا

!

اور آلِ فرعون کے پاس بھی تنبیہات آئیں ۔ انہوں نے ہماری ساری ہی نشانیوں کو جھٹلا دیا۔ تو ہم نے ان کو ایک غالب اور قوت والے کے پکڑنے کی طرح پکڑا۔

 

کیا تمہاری قوم کے کفار ان قوموں کے کفار سے کچھ بہتر ہیں یا تمہارے لیے آسمانی صحیفوں میں برأت نامہ لکھا ہوا ہے ! کیا اِن کا زعم ہے کہ ہم مقابلہ کی قوت رکھنے والی جمعیت ہیں ! یاد رکھیں کہ ان کی جمعیت عنقریب شکست کھائے گی اور یہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے ۔

 

بلکہ ان سے جو وعدہ ہے اس کے پورے ہونے کا اصلی وقت تو قیامت کا دن ہے اور قیامت کا دن بڑا ہی سخت اور بڑا ہی ک وا ہو گا

!

بے شک مجرمین گمراہی میں ہیں اور دوزخ میں پڑیں گے ۔ اس دن کو یاد رکھیں جب یہ اپنے چہروں کے بل گھسیٹے جائیں گے ! چکھو مزا دوزخ کی لپٹ کا

!

ہم نے ہر چیز ایک اندازے کے ساتھ پیدا کی اور ہمارا حکم تو بس بیک دفعہ پلک جھپکنے کی طرح پورا ہو گا اور ہم نے تمہارے ہم مشربوں کو ہلاک کر چھوڑا تو ہے کوئی ان کے انجام سے عبرت حاصل کرنے والا

!

اور جو کچھ انہوں نے کیا ہے سب رجسٹروں میں درج ہے اور ہر چھوٹی بڑی بات ان میں مرقوم ہے ۔

بے شک خدا سے ڈرتے رہنے والے باغوں اور نہروں کے عیش میں ہوں گے ۔ ایک پائدار مقامِ عزت میں ، ایک مقتدر بادشاہ کے پاس!

(سورہ قمر )

 

کفار مکہ کی اس شکست و مغلوبیت اور مسلمانوں کی فتح کو ایک ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلبے کی پیش گوئی بھی متعدد جگہوں پر کی گئی ہے ۔مثلاً سورہ بنی اسرائیل میں واضح کیا گیا کہ ان کفار نے آپ کو مکہ سے نکالنے کی کوشش کی تو وہ خود سرزمین میں رہ نہ پائیں گے :

اور بے شک یہ اس سرزمین سے تمھارے قدم اکھاڑ دینے کے درپے ہیں تا کہ یہ تم کو یہاں سے نکال چھوڑیں ۔ اور اگر ایسا ہوا تو تمھارے بعد یہ بھی ٹکنے نہ پائیں گے ۔ ہم نے تم سے پہلے اپنے جو رسول بھیجے ان کے باب میں ہماری سنت کو یاد رکھو اور تم ہماری سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے ۔    (بنی اسرائیل 17: 77-76)

 

اللہ کی نصرت کے بعد فتح مکہ اور پورے عرب کے قبول اسلام کی پیش گوئی اس طرح کی گئی ۔

جب اللہ کی مدد اور فتح آ جائے ، اور تم لوگوں کو دیکھ لو کہ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیں تو اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو اور اس سے معافی چا ہو ۔ بے شک وہ بڑا ہی معاف فرمانے والا ہے ۔

(سورہ نصر)

 

صحابہ کرام کوایمان کے صلے میں زمین پر غلبے و اقتدار کی بشارت اس طرح دی گئی۔

 

تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے عملِ صالح کیے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک میں اقتدار بخشے گا جیسا کہ ان لوگوں کو اقتدار بخشا جو ان سے پہلے گزرے اور ان کے اس دین کو متمکن کرے گا جس کو ان کے لیے پسندیدہ ٹھہرایا اور ان کی اس خوف کی حالت کے بعد اس کو امن سے بدل دے گا۔ وہ میری ہی عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہیں ٹھہرائیں گے ۔ اور جو اس کے بعد کفر کریں گے تو درحقیقت وہی لوگ نافرمان ہیں

( سورہ نور55:24)

 

کفار کی شکست اور مسلمانوں کی جنگ بدر میں فتح کی پیش گوئی ایک دوسری پیش گوئی کے ساتھ کی جاتی ہے ۔ یہ پیش گوئی روم کی ایران کی فتح کے حوالے سے تھی اور اس وقت کی گئی جب اہل روم ایران سے مکمل طور پر شکست کھا گئے ۔ قرآن مجید نے نہ صرف رومیوں کی فتح کی پیش گوئی کی بلکہ بتادیا کہ یہی وہ وقت ہو گا جبکہ نصرت الٰہی سے مسلمان کفار پر اپنی فتح کی خوشیاں منا رہے ہوں گے ۔ مسلمہ تاریخ کے مطابق یہ واقعات اسی طرح پیش آئے ۔

 

یہ الٓمّ ہے ۔ رومی پاس کے علاقے میں مغلوب ہوئے اور وہ اپنی مغلوبیت کے بعد عنقریب۔ ۔ ۔ چند سالوں میں ۔ ۔ ۔ غالب آ جائیں گے ۔ اللہ ہی کے حکم سے ہوا جو پہلے ہوا اور اللہ ہی کے حکم سے ہو گا جو بعد میں ہو گا اور اس وقت اہلِ ایمان مسرور ہوں گے ۔ اللہ کی مدد سے ۔ وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور عزیز و رحیم تو وہی ہے ۔ یہ اللہ کا حتمی وعدہ ہے اور اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ (سورہ روم30: 6-1)

 

[جاری ہے ]

 


ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران