عمل سے شکر ادا کیسے کیا جاتا ہے ۔
ہم دلی طور پر شکر کرنے کو اور اسے زبان سے ادا کرنے کو تو جانتے ہیں لیکن عمل سے شکر ادا کرنے سے کیا مراد ہے؟ عمل سے شکر ادا کرنے کے چار درجات ہیں
:
۱۔ پہلا درجہ یہ کہ ملنے والی نعمت کے تمام
حقوق و فرائض ادا کرنا۔ یہ لازم ہے۔
۲۔ دوسرا درجہ یہ کہ حاصل شدہ نعمت کے حقوق
ادا کرتے وقت اپنے موڈ، مزاج اور طبیعت کو قابو میں رکھ کر ہر حال میں حقوق ادا
کرنا۔
۳۔ تیسرا درجہ یہ کہ نعمت سے متعلق حقوق کی
ادائیگی میں اپنی پسند و ناپسند کو ختم کر کے صرف نعمت کے مالک کی مرضی کا خیال
رکھنا۔
۴۔ چوتھا مرحلہ یہ کہ حاصل شدہ نعمت کو بلاتفریق
مخلوق میں تقسیم کرنا۔
ٓ پہلا د ر جہ- نعمت کے حقوق و فرائض ادا کرنآ
یہ عملی شکر گذاری کا پہلا درجہ ہے ٓ۔ جو بھی نعمت ملے
اس کو اس کے اصل مالک و خالق یعنی خدا کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا اس کا پہلا
حق ہے۔ چنانچہ آنکھوں کی نعمت کی پہلی شکر گزاری یہ ہے کہ اسے ان کاموں میں
استعمال کیا جائے جہاں استعمال کرنا جائز ہے۔ فحش مناظر دیکھنے میں آنکھوں کو
لگانا اس نعمت کی ناشکری اور اس کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ زبان کا شکر یہ ہے کہ
اسے لوگوں کو دکھ پہنچانے کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ اسی طرح رزق یا دولت اگر ملے
تو اس کا شکر یہی ہے کہ اسے اپنے اوپر اور اپنے بیوی بچوں اور متعلقین پر جائز
طریقے سے خرچ کیا جائے اور اسراف یا ناجائز مصارف پر خرچ کرنے سے گریز کیا جائے۔
دوسرا
درجہ۔ مزاج کو تابع رکھنا
پہلا درجہ تو یہ تھا کہ اس نعمت کو مالک کی مرضی کے
مطابق استعمال کیا جائے۔ عام حالات میں تو ایسا کرنا مشکل نہیں ہوتا اور عمومی
حالات میں نعمتیں اپنے جائز محل ہی میں استعمال ہو رہی ہوتی ہیں۔ لیکن قدم قدم پر
ایسے حالات پیش آتے ہیں جب نعمت کا حق ادا کرنا یعنی اس کو جائز طور پر استعمال
کرنا مشکل ہوتا چلا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بعض اوقات ٹی وی اسکرین پر ایسے مناظر
بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں جن کا دیکھنا جائز نہیں۔ یا بعض اوقات چیزوں کی چمک دمک
اسراف پر مجبور کر دیتی ہے۔ ایسی صورت میں اپنی طبیعت، مزاج، موڈ یا نفس کو قابو
کر کے نعمت کا حق ادا کرنا یعنی اسے مالک کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا شکر گذاری
کا دوسرا درجہ ہے۔ یعنی اس مرحلے میں معاملہ یہ ہے کہ حالات کے دباؤ اور لالچ کے
باوجود اپنے نفس اور موڈ پر قابو رکھا جائے۔ نگاہوں کو اس وقت بھی قابو رکھا جائے
جب فحش منظر پوری آب و تاب کے ساتھ سامنے ہو، مال اس وقت بھی حلال کمایا جائے جب بیوی
بچوں کے تقاضے عروج پر ہوں وغیرہ۔
تیسرا
درجہ۔ اپنی پسند و ناپسند کو ختم کر دینا
اوپر کے دو درجات تو شکر گذاری کے لیے لازمی ہیں۔ البتہ
نعمت کے استعمال میں ایک درجہ یہ بھی ہے کہ انسان مکمل طور پر اپنی پسند و ناپسند
سے دست بردار ہوجائے اور اس نعمت کو کامل طور پر مالک کی پسند کے تحت استعمال کرے۔
یہ درجہ لازم نہیں بلکہ عزیمت کا د رجہ ہے۔ اس درجے میں بعض اوقات انسان نعمتوں کے
جائز استعمال سے بھی خدا کے حکم کے تحت خود کو دور کرلیتا ہے۔ مثال کے طور پر
ابراہیم علیہ السلام کو اولاد کی نعمت ملتی ہے لیکن وہ خدا کے حکم کی تعمیل میں
اسے قربان کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ انہیں ایک خاندان کی نعمت ملتی ہے لیکن وہ
حضرت حاجرہ اور اسماعیل علیھما السلام کو مکہ میں بسا کر چلے جاتے ہیں۔ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کو پرآسائش زندگی میسر تھی لیکن آپ خدا کے حکم کی تعمیل میں
دولت اور پرآسائش زندگی چھوڑ کر دعوت حق بلند کرتے ہیں، گالیاں سنتے، تشدد برداشت
کرتے، طعن و تشنیع کا سامنا کرتے اور بالآخر اپنا گھر بار چھوڑ کر مدینہ ہجرت
کرجاتے ہیں۔
عام
انسانوں کے لیے یہ مرحلہ اس وقت آتا ہے جب خدا کا حکم پورا کرنے میں کوئی بہت بڑی
نعمت کی قربانی دینی پڑ رہی ہو۔ مثال کے طور پر کچھ لوگ والدین کی رضامندی اور
خوشی کے لیے اپنی محبت کی قربانی دے دیتے ہیں، کچھ بہنوں کی شادی کرانے میں ساری
عمر کی کمائی داؤ پر لگا دیتے ہیں، کچھ دوسروں کو بچانے میں اپنی جان قربان کر
دیتے ہیں وغیرہ۔
چوتھا
درجہ۔ حاصل شدہ نعمت سے فیض پہنچانا
عملی شکر گذاری کا آخری درجہ یہ ہے کہ جو نعمت حاصل ہے
اس کو صرف بیوی بچوں، ماں باپ اور قریبی لوگوں تک ہی محدود نہ رکھے بلکہ اس کا فیض
دیگر لوگوں تک بھی پہنچائے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کو اگر مال کی نعمت ملی ہے تو
وہ ضرورت سے زائد مال کو خدا کے بندوں میں تقسیم کرے، علم کی نعمت سے لوگوں کو
بہرہ مند کرے، صحت ہے تو بیماروں کی مدد کرے، آسانی ہے تو مشکل میں گھرے لوگوں کو
آسانیاں فراہم کرے، آنکھیں ہیں تو نابینا کی مدد کرے۔ یہ فیض ہر شخص کے لیے ہوگا
جو اس کے رابطے میں آجائے یا مدد کی درخواست کرے۔ چنانچہ اس مرحلے پر ایک شخص
سخاوت کے دروازے کھول دیتا اور اپنی ضرورت سے زائد ہر شے کو اللہ کی راہ میں خرچ
کر دیتا ہے۔ ایک شخص علم کے فروغ کے لیے اپنی جان کھپا دیتا ہے، ایک شخص لوگوں کی
مدد کے لیے دن اور رات کی پروا نہیں کرتا۔
درجہ
بندی کی اہمیت
عام طور پر کچھ لوگ درجہ بندی کی اس ترتیب کو مدنظر نہیں
رکھتے اور وہ آخری درجے میں چھلانگ لگانا چاہتے ہیں۔ یعنی ایک شخص کو مال ملے تو
وہ اپنے بیوی بچوں کا حق بھی بعض اوقات غربا میں تقسیم کر دیتا، تبلیغ کے نام پر
بیوی بچوں کو چھوڑ کر بیابانوں میں دعوت دیتا رہتا ہے۔ یہ عمل شکر گذاری نہیں بلکہ
ناشکری ہی ہے کیونکہ اس طرح ہم ملنے والی نعمت کا بنیادی حق تو ادا نہیں کر پاتے
اور ثانوی حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
شکر
گذاری اور ناشکری کی چند مثالیں
علم کی ناشکری یہ ہے کہ تکبر کیا جائے، اس سے دوسروں کو
نقصان پہنچایا جائے، اس سے لوگوں کو حقیر ثابت کیا جائے، اس سے لوگوں پر اپنی
دھونس جمائی جائے، اس کو بلاوجہ اپنی ذات تک محدود کرلیا جائے۔
مال
کی ناشکری یہ ہے کہ تکبر کیا جائے، اسراف کیا جائے، کنجوسی کی جائے، اسے ناجائز
کاموں میں استعمال کیا جائے، اسے بالکل ہی استعمال نہ کیا جائے، اسے بے دریغ
استعمال کیا جائے، اسے صرف اپنی ذات یا اپنے بیوی بچوں تک ہی محدود رکھا جائے۔
خلاصہ
شکرگذاری اگر صرف زبان سے ہو اور عمل میں اس کا اظہار نہ
ہو تو یہ منافقت ہے۔ شکرگذاری کا پہلا درجہ یہ ہے کہ نعمت کو خدا کے بیان کردہ
جائز و ناجائز حدود میں استعمال کیا جائے، دوسرا درجہ یہ ہے کہ حق ادا کرنے میں
نفس اور طبیعت کو قابو میں رکھا جائے، تیسرا درجہ یہ ہے کہ نعمت سے دوسروں کو بھی
فیض پہنچایا جائے اور آخری درجہ یہ ہے کہ اپنی پسند و ناپسند کو ختم کر کے صرف خدا
کی پسند ہی کا خیال رکھا جائے۔
ایک تبصرہ شائع کریں