مضامین قرآن: سورۃ فاتحہ ۔
سورۃ
فاتحہ
”مضامین قرآن“ دراصل قرآن مجید کے مطالعے کا ایک منفرد طریقہ
ہے۔ اس طریقے میں ہم انشاء اللہ قرآن مجید کا مطالعہ ان مضامین کی بنیاد پر کریں
گے جو آیات قرانی میں موضوع بحث بنائے جاتے ہیں۔ اس طریقے کا فائدہ یہ ہے کہ قاری
بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ زیر مطالعہ سورت یا آیات میں اللہ تعالیٰ کس بات کو بیان
کررہے ہیں۔ آیات کا مضمون یا موضوع دراصل وہ بنیادی خیال ہوتا ہے جو پیش کیا جارہا
ہوتا ہے۔ یہ بنیادی خیال اگر واضح رہے تو کلام الہی کے پیغام کو سمجھنا اور اس کا
مفہوم ذہن میں رکھنا نسبتاًآسان ہوجاتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ قرآن کریم کے مضامین ایک
منطقی ربط رکھتے ہیں۔ یہ قرآن مجید کا کمال ہے کہ اس کے بیان کردہ مضامین الل ٹپ
نہیں ہیں بلکہ معنوی اور منطقی طور پر باہم مربوط ہیں۔ اس کو مثال سے یوں سمجھا
جاسکتا ہے کہ ایک میڈیل کالج کے طلبا متعدد مضامین پڑھتے ہیں، لیکن ہر مضمون
میڈیکل یا جسم انسانی سے کسی نہ کسی پہلو سے متعلق ہوتاہے۔ یہی معاملہ قرآن مجید
کا ہے کہ اس کے تمام مضامین بظاہر کتنے بھی گندھے ہوئے محسوس ہوں، وہ ایک منطقی
طریقے پر آخرت میں انسانی نجات کے بنیادی مضمون سے بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔
نجات کا مضمون دعوت سے شروع ہوتا ہے۔ پھر دعوت کے ذیل
میں خدا کی ذات، صفات و سنن اوراس کے پیغمبر، فرشتے، کلام زیر بحث آتے ہیں۔ پھر
دعوت کے دلائل اور اسے ماننے اور نہ ماننے کے نتائج یا سزا جزاکا بیان ہوتا ہے۔ جو
لوگ دعوت کو مان لیتے ہیں ان کے سامنے مطالبات رکھے جاتے ہیں۔ یہ قانونی اوراخلاقی
نوعیت کے مطالبات ہوتے ہیں۔ ساتھ میں مطلوب و غیر مطلوب شخصی رویے بھی زیر بحث
آجاتے ہیں۔ یہی وہ مطالبات ہیں جن کے پورا کرنے یا نہ کرنے پر قیامت کے دن انسانی
نجات کا انحصار ہوگا۔
یہ ایک پیراگراف میں کل مضامین کا خلاصہ بھی ہے اور ان
کے درمیان منطقی تعلق کی تفصیل بھی۔ مضامین قرآن سے قبل اس کی وضاحت اس لیے ضروری
تھی کہ یہ تمام مضامین منطقی طور پر باہم جڑے ہونے اور ایک نظم سے بندھے ہونے کے
باوجود آپس میں اس طرح گندھے ہوئے ہوتے ہیں کہ ایک قاری پر ان کا ربط واضح نہیں
ہوپاتا۔ لیکن یہ پس منظر ذہن میں رہے تو فہم قرآن کے حوالے سے ذہن میں کوئی الجھن
باقی نہیں رہتی۔ اس تفصیل کے بعد ہم اللہ کا نام لے کر قرآن مجید کا مطالعہ شروع
کرتے ہیں۔
سورۃ فاتحہ
قرآن مجید کی یہ پہلی سورت ہے جسے قرآن مجید کے
ابتدائیے کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کا ترجمہ ہے:
’’اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے جس کی شفقت ابدی ہے۔‘‘
’’شکر اللہ ہی کے لیے ہے، عالم کا پروردگار، سراسر رحمت،
جس کی شفقت ابدی ہے، جو روز جزا کا مالک ہے۔ (پروردگار)، ہم تیری ہی عبادت کرتے
ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں۔ ہمیں سیدھی راہ کی ہدایت بخش دے، ان لوگوں کی راہ
جن پر تو نے عنایت فرمائی ہے، جو نہ مغضوب ہوئے ہیں، نہ راہ سے بھٹکے ہیں۔ ‘‘
(الفاتحہ1۔آیت1-6)
یہ سورت دعا کے اسلوب میں نازل ہوئی ہے اور اس میں بنیادی طور پر دو مضامین بیان کیے گئے ہیں۔یعنی توحید اور عبادت رب۔ ان دونوں مضامین کا تعلق قرآن کی دعوت سے ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔
توحید
سورت کا پہلا مضمون توحید ہے۔ توحید اس دین کی
بنیادی دعوت ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کے آغاز پر سورت کی ابتدائی آیات میں اللہ
تعالیٰ کی اعلیٰ ہستی کا تعارف اس کی ان بنیادی صفات کے حوالے سے کرایا گیا ہے جن
سے وہ انسانوں کے ساتھ متعلق ہے۔ یہ صفات ربوبیت، رحمت اور دینونت ہیں۔ ربوبیت کا
مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان اور تمام مخلوق کے پروردگار ہیں۔ لیکن اس پروردگاری
کا استحقاق انہوں نے کسی جبر سے حاصل نہیں کیا بلکہ ان کی ہستی اتنی مہربان، شفقت
اور رحمت والی ہے کہ اس لطف و عنایت کی بنا پر وہ ہدیہ شکر و تحسین کے مستحق ہیں۔
تیسری صفت دینونت ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی احسان فراموش ان کی اس شفقت کا غلط
مطلب نہ لے اور ان سے بےخوف ہو کر نافرمانی اور معصیت کی زندگی نہ گزارے کیونکہ
عنقریب سب لوگوں کو جمع کرکے ان کے اچھے اعمال پر جزا اور برے اعمال پر سزا دیں گے۔
عبادت رب
دین کی بنیادی دعوت اگر توحید ہے تو اس کا بنیادی
مطالبہ تنہا ایک اللہ کی عبادت ہے جو نجات کی بنیادی شرط ہے۔ چنانچہ اگلی آیت دعا
کے اسلوب میں یہی حقیقت بیان کرتی ہے کہ اللہ ہی عبادت کے لائق ہیں اور مستحق ہیں
کہ ان ہی سے مدد مانگی جائے۔ یہ دونوں جملے کمال بلاغت کے ساتھ شرک کی تمام اقسام
کی نفی کردیتے ہیں۔ اس لیے کہ ایک انسان کے پاس کسی کو دینے کے لیے سب سے بڑی چیز
عبادت ہے اور لینے کے لیے سب سے بڑی چیز مدد ہے۔ سوجب دونوں ہی خالص اللہ کے لیے
ہوگئیں تو غیر اللہ سے لینے اور اسے دینے کے لیے کچھ نہیں بچا۔
تاہم عبادت کا دائرہ صرف پرستش تک محدود نہیں بلکہ آخر
کار یہ انسان کی پوری عملی اور اجتماعی زندگی سے متعلق ہوجاتی ہے اس لیے بندے کی
یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ زندگی کے سفر میں وہ اُس صراط مستقیم پر چلے جہاں ہر قدم
وہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں اٹھائے۔ کیونکہ یہی وہ صراط مستقیم ہے جس پر چلنے
والے پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا انعام پا رہا ہے۔ جبکہ اس سے ہٹنے والے یا تو جان
بوجھ کر سرکشی کرکے اللہ تعالیٰ کے غضب کا شکار ہوگئے ہیں یا پھرخود ساختہ تاویلات
کرکے اس راہ سے بھٹک گئے ہیں۔
یہی وہ دعا ہے جس کے جواب میں پورا قرآن مجید نازل ہوا
ہے۔ خاص قرآن کریم کی ابتدائی سورتیں اس قانون اور شریعت کو واضح کرتی ہیں جو اللہ
تعالیٰ کا پہلا اور بنیادی مطالبہ ہے۔ لیکن قرآن مجید کے اصول کے مطابق ان قانونی
مطالبات کو ایک فہرست یا قانونی نکات کی شکل میں نمبر وار بیان نہیں کیا گیا بلکہ
جگہ جگہ مطلوب و غیر مطلوب اخلاقی رویے، دعوت، اس کے دلائل، نتائج کا بھی بیان ہے۔
انشاءاللہ ہم ہر مقام پر یہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ بیان کردہ مضمون کس
بنیادی کیٹیگری سے متعلق ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں