شکر
اور صبر ۔
حضرت
ایوب علیہ السلام ایک جلیل القدر پیغمبر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بے پناہ مال و
دولت سے نواز رکھا تھا۔ ان کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ جبکہ سات ہزار
بھیڑیں، تین ہزار اونٹ، ایک ہزار بیل اور پانچ سو گدھے باربرداری کے لیے ان کے پاس
تھے۔ ان کے زمانے میں ان جیسا مال و دولت والا کوئی اور نہ تھا۔
ان
نعمتوں کے باوجود حضرت ایوب بڑے نیک، پرہیز گار اور شکر گزار شخص تھے۔ اس پر شیطان
نے اپنے ایجنٹوں یعنی حسد میں مبتلا انسانوں کے ذریعے سے یہ وسوسہ انگیزی پھیلانا
شروع کر دی کہ ان کے پاس اتنا مال ہے تب ہی یہ شکر گزار ہیں۔ مصیبت زدہ ہوتے تو
خدا ہی کے منکر ہوجاتے ۔
یہ
وہ وقت تھا جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے یہ فیصلہ ہوا کہ اس عظیم پیغمبر کے ذریعے
سے دنیا کو ایک نمونہ دکھایا جائے جو قیامت تک آنے والے انسانوں کو یہ بتائے کہ
شکر گزارہونے کے لیے نعمت ایمان ہونا ہی کافی ہے۔ چنانچہ ایک ایک کر کے ان پر
مصائب آنا شروع ہوئے۔ پہلے مال مویشی گئے۔ پھر اولاد ان کی آنکھوں کے سامنے مرگئی۔
مگر اس عظیم ہستی کی زبان پر سجدے کی حالت میں ایک ہی جملہ تھا۔ رب نے دیا اور رب
نے لیا۔ رب کا نام مبارک ہو۔
مگر
بات یہیں پر نہیں رکی۔ اب معاملہ ان کی صحت وعافیت کا آ گیا۔ پورے جسم پر پھوڑے
نکل آئے۔ مگر وہ پیکر وفا اسی طرح صبر و شکر کرتا رہا۔ جب درد حد سے بڑھتا تو اللہ
سے فریاد کرتے کہ مولا شیطان نے مجھے اذیت اور تکلیف میں مبتلا کر رکھا ہے۔ جب ضبط
جواب دینے لگتا تو اللہ کی بارگاہ میں التجا کرتے کہ میں سخت تکلیف میں ہوں اور تو
سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
قرآن
مجید میں ان کی یہی دو دعائیں نقل ہوئی ہیں۔ ان میں نہ شکوہ ہے، نہ شکایت۔ کوئی بے
صبرا پن ہے نہ اللہ پر کوئی الزام۔ تسلیم و رضا کا عالم یہ ہے کہ ان دعاؤں میں
کہیں شفا اور مصائب سے نکلنے کی درخواست تک نہیں کی۔ مگر دو پہلوؤں سے معرفت کا
کمال کر دیا ہے۔ پہلی دعا میں یہ کہہ کر خدا کی غیرت کو پکارا ہے کہ تیرے دوست کو
تیرے دشمن نے تکلیف میں مبتلا کر دیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ کوئی غیرت مند اس پر خاموش
نہیں رہ سکتا کہ اس کے دوست کو کوئی تکلیف دے کجا یہ کہ تکلیف دینے والا خود اس کا
بھی دشمن ہو۔
دوسری دعا میں یہ کہہ کر خدا کی رحمت کو پکارا ہے کہ
تیرا دوست تکلیف میں ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ کوئی رحیم اس پر
کیسے خاموش رہ سکتا ہے کہ اس کا دوست تکلیف میں ہو اور وہ کچھ نہ کرے۔ چنانچہ اللہ
کی رحمت اور غیرت کو جوش آیا اور نہ صرف ان کی ساری تکالیف دور کر دی گئیں بلکہ
جتنی اولاد مری تھی، اتنی ہی دوبارہ پیدا کر دی گئی۔ جو مال مویشی گیا تھا ، اس کو
دوگنا کر کے لوٹا دیا گیا۔ اس کے بعد بھی وہ مزید ایک سوچالیس برس جیے اور اپنی
چوتھی پشت تک کو دیکھا۔
تاہم
یہ سارا معاملہ دنیا کے سامنے ایک نمونہ قائم کرنے کرنے کے لیے ہوا تھا اس لیے
مصائب کے آغاز سے اختتام تک تیرہ برس لگے۔ ایک پوری نسل ان کو بدترین مشکلات میں
شکر گزاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھ کر جوان ہوگئی۔ پھر پہلے بائبل اور پھر قرآن
مجید میں اس واقعہ کو محفوظ کر کے تاقیامت دنیا کے سامنے یہ نمونہ رکھ دیا گیا کہ
کوئی شخص ایوب علیہ السلام سے زیادہ دکھی نہیں ہو سکتا، مگر اس کے باوجود بھی
ایمان کی قوت سے شکر کرنا ممکن ہوتا ہے ۔
اس
واقعے کا آخری سبق یہ ہے کہ ان کی آزمائش کے تیرہ برس گزرگئے۔ اور ان کی نعمت والی
طویل زندگی کے ایک سو چالیس برس بھی گزرگئے۔ مگر مصائب کا صبر اور نعمتوں پر شکر
ہمیشہ کے لیے باقی رہ گیا۔ جب جنت قائم ہو گی تو ایسے صابر وشا کر لوگوں کو وہ جزا
ملے گی جو کبھی ختم نہ ہو گی۔ نہ ایوب علیہ السلام کے لیے۔ نہ کسی اور صابر و شا
کر شخص کے لیے۔
ایک تبصرہ شائع کریں