ایمان کا امتحان ۔
سن
2001 کا ذکر ہے۔ میں کینیڈا سے امریکہ براستہ ٹرین جارہا تھا۔ سفر میں کچھ مسیحی
حضرات سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اس کی روداد میں نے اپنے سفرنامے ”کھول آنکھ زمیں
دیکھ“ میں بیان کی ہے۔ اس گفتگو میں جب مسیحی حضرات کے پاس استدلال ختم ہوگیا تو
ان میں سے ایک خاتون شیرون نے کہا کہ عقیدہ تثلیث کو عقل سے سمجھایا نہیں جاسکتا۔
یہ روحانی طور پرمحسوس کرنے کی چیز ہے اور میرا دل اسے سچ مانتا ہے۔ اس کے جواب
میں جو کچھ میں نے عرض کیا وہ سفرنامے میں پڑھا جاسکتا ہے، مگر یہ جملہ روحانیت
اور ایمان کا نہیں تعصب کا بیان ہے۔
حقیقت
یہ ہے کہ اس دنیا میں بیشتر لوگ اپنے ماحول، ذوق، خواہشات اور پیدائشی اثرات کے
تحت ایک نقطہ نظر کو قبول کرلیتے ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ اس نقطہ نظر سے ان کا ایک
متعصبانہ تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ وہ اس نقطہ نظر کے خلاف پہاڑ جیسے استدلال کو بھی
نظر انداز کر دیتے ہیں اور اس کے حق میں رائی بھی مل جائے تو اسے پربت بنا کر قبول
کرلیتے ہیں۔ پھر ساری زندگی پورے اعتماد سے اس نقطہ نظر کے تحت جیتے، اس کے لیے
لڑتے اور اسے پھیلاتے رہتے ہیں۔
دوسری
طرف جس ایمان پر جنت کا وعدہ ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنے نقطہ نظر پر سوال پیدا
ہوجانے کے بعد خاموش نہ بیٹھا رہے بلکہ جس استدلال سے یہ سوال اٹھا ہے اسے سمجھنے
کی کوشش کرے۔ اگر وہ سچا ہے تو اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ مگر تعصبات کے تحت
جینے والے لوگ حق کے مقابلے میں چند جذباتی جملوں اور دلیل کے مقابلے میں نکتہ
آفرینیوں پر مطمئن ہوجاتے ہیں۔
ایسے
لوگ جب قیامت کے دن اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو انھیں معلوم ہوگا کہ وہ ایمان کے
بنیادی امتحان ہی میں ناکام ہوچکے ہوں گے۔ کاش لوگ اُس وقت کے آنے سے قبل یہ جان
لیں کہ انسان کا پہلا امتحان ایمان کا ہے، عمل کا نہیں ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں