موت کے بعد زندگی ۔
قرآن
مجید کا ہر طالب علم طالوت اور جالوت کے اس واقعے سے واقف ہے جو سورہ بقرہ کی آیت
نمبر 246 تا 252 میں بیان ہوا ہے۔ اس واقعے میں دو جلیل القدر پیغمبروں کا ذکر بھی
ہوا ہے۔ ایک حضرت داؤد علیہ السلام کا جنھوں نے طالوت کی طرف سے لڑتے ہوئے جالوت
کو شکست دی تھی۔ جس کے بعد وہ بنی اسرائیل کی آنکھ کا تارہ بن گئے۔ بادشاہ طالوت
نے اپنی بیٹی کی ان سے شادی کر دی۔ وہ بنی اسرائیل کے اگلے حکمران بنے۔ ان کے دور
میں اور پھر ان کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں بنی اسرائیل
نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا عروج دیکھا۔ اس عظمت کی داستان قرآن مجید میں جگہ جگہ
بیان ہوئی ہے۔
طالوت
و جالوت کے اس واقعے میں ایک دوسرے نبی کا بھی تذکرہ ہوا ہے۔ قرآن میں ان کا نام
نہیں آیا۔ صرف یہ بات بیان ہوئی ہے کہ بنی اسرائیل نے ان سے ایک بادشاہ کو مقرر
کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ اس کی سربراہی میں لڑ کر وہ فلسطین کے مشرکوں کو شکست
دے سکیں۔ قدیم صحیفوں میں قرآن کا بیان کردہ یہ واقعہ تفصیلاً موجود ہے اور وہاں
ان پیغمبر کا نام حضرت سیموئیل بیان ہوا ہے۔
یہ
وہ نبی ہیں جنھوں نے حضرت داؤد سے قبل بنی اسرائیل میں ایک زبردست اخلاقی انقلاب
برپا کیا تھا۔ اس انقلاب کا ذکر چند آیات قبل اسی سورہ بقرہ کی آیت 243 میں اس طرح
بیان ہوا ہے۔
”کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو ہزاروں کی تعداد
میں تھے اور موت کے ڈر سے اپنے گھر چھوڑ کر ان سے نکل کھڑے ہوئے؟ اس پر اللہ نے ان
سے فرمایا کہ مردے ہو کر جیو۔(وہ برسوں اسی حالت میں رہے) پھر اللہ نے انھیں
دوبارہ زندگی عطا فرمائی۔ اس میں شک نہیں کہ اللہ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے،
مگر لوگوں میں زیادہ ایسے ہیں جو(اس کے) شکر گزار نہیں ہوتے۔
قرآن
نے آگے چل کر طالوت اور جالوت کے واقعے میں یہی چیز بتائی ہے کہ ایمان و اخلاق کے
لحاظ سے مردہ قوم جب زندہ ہوگئی تو اس کے نتیجے میں وہ سیاسی انقلاب برپا ہوا جس
کا ذکر حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کے حوالے سے پیچھے بیان ہوا ہے۔ بائبل کے صحیفے
سیموئل میں بنی اسرائیل کے اس اخلاقی زوال، اس کے نتیجے میں آنے والی سیاسی
مغلوبیت، پھر سیموئیل نبی کی اصلاحی دعوت اور پھر ان کی فتح و غلبہ کی بڑی تفصیل
بیان ہوئی ہے۔
قرآن
اور صحیفہ سیموئیل میں بیان کردہ ان واقعات سے جو سب سے بڑا سبق سامنے آتا ہے وہ
یہ ہے کہ خدا کے نام پر کھڑی ہوئی ایک قوم نے جب ایمان و اخلاق کے اصل دینی
مطالبات کو چھوڑ دیا تو ان پر ذلت و مسکنت مسلط کر دی گئی۔ ایسے میں وقت کے نبی نے
کسی سیاسی تبدیلی، سیاسی غلبے یا دشمنوں کو شکست دے کر ان سے اقتدار چھین لینے کو
اپنا اصل مقصد نہیں بنایا بلکہ ایمان و اخلاق کی دعوت کو اپنا نشانہ بنالیا۔ اس کے
بعد بس بیس برس لگے اور ایک نسل پر محنت کرکے صورتحال مکمل طور پر بدل گئی۔
قرآن
میں بھی یہ واقعہ اسی وقت سنایا گیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کم و بیش
پندرہ برس کی ایمان و اخلاق کی دعوتی جدوجہد کے نتیجے میں انصار و مہاجرین کی شکل
میں اعلیٰ ترین انسانوں کی ایک نسل کو تیار کرلیا تھا۔ چنانچہ اس ابتدائی مرحلے کے
بعد ہی وہ وقت آیا کہ مسلمانوں نے بدر میں مشرکین مکہ کو شکست دی۔ عرب پر اسلام کا
غلبہ ہوا اور پھر پوری متمدن دنیا پر دین حق چھا گیا۔ یہ ایک قوم کے ایمان و اخلاق
کی دعوت کو قبول کرنے کا وہ نتیجہ تھا جو تاریخ کے صفحات پر پوری طرح رقم ہے۔
بنی
اسرائیل کے جانشین مسلمان پچھلے تین سو برس سے اپنا کھویا ہوا سیاسی اقتدار بحال
کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ مسلمانوں نے غیر سیاسی میدانوں میں بھی
بھرپور جدوجہد کی۔ مگر میدان بدلنے کے باوجود یہاں ایمان و اخلاق کی اصل قرآنی
دعوت کو مقصد بنا کر کام نہیں کیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ غلبہ و اقتدار کا خواب آج
کے دن تک شرمندہ ئتعبیر نہ ہوسکا۔ یہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اگلے تین
سو برس بھی مسلمانوں نے اپنی غلطی کو نہیں سمجھا اور ایمان و اخلاق کی اس جدوجہد
کو اختیار نہیں کیا جو انبیاء کی اصل جدوجہد ہوتی ہے تو ان کی ساری کد و کاوش بے
ثمر ہی ثابت ہوگی۔ اس کے برعکس عملی طور پر مردہ ہوجانے والے بنی اسرائیل کی
داستان یہ سبق سناتی ہے کہ صرف بیس برس کی ایمان و اخلاق کی دعوت کتنے غیر معمولی
نتائج پیدا کرسکتی ہے۔
آج
ہم پر اجتماعی طور پر موت طاری ہے۔ اس موت سے نکلنے اور زندگی پانے کا ایک ہی
راستہ ہے۔ ایمان و اخلاق کی دعوت کو پوری طرح اختیار کرنا۔ یہ راستہ ہمیں خود
ہمارے پروردگار نے بتایا ہے جو قوموں کی زندگی اور موت کے فیصلے کرتا ہے۔ یہ راستہ
انبیاء علیھم السلام کا راستہ ہے۔ مگر ہم کیسے بدنصیب لوگ ہیں کہ اللہ اور اس کے نبیوں
کا بتایا ہوا راستہ چھوڑ کر دنیا کے انقلابی لیڈروں کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں
اور ختم نہ ہونے والی ذلت اور رسوائی کا شکار ہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں