خیرخواہی
۔
جسمانی
طور پر نابینا ہونا کوئی عیب نہیں، یہ امتحان ہے۔ اصل عیب اندھے پن کی وہ قسم ہے
جس میں انسان اپنی ذات، بیوی بچوں، مفادات اور خواہشات کے علاوہ کچھ دیکھنے کی
صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔
دنیا
میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اپنے بارے میں سوچتے ہیں کہ اس کے بغیر اس
دنیا میں جینا ممکن نہیں۔ مگر ساتھ ساتھ دوسروں کی خیر خواہی کا احساس بھی ان میں
زندہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے بھلا کرنے کے لیے دوسروں کا برا نہیں کرتے۔ اپنی خواہشات کے
ساتھ دوسروں کی ضروریات کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ وہ کھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی کھلاتے
ہیں۔ وہ پہنتے ہیں اور دوسروں کو بھی پہناتے ہیں۔ وہ گاڑی اچھی رکھتے ہیں اور
دوسروں کو بھی اس میں بٹھا لیتے ہیں۔ ایسے لوگ دوسروں سے بغیر مفاد کے مسکرا کر
ملتے ہیں۔ بلا سبب ان کی خیر و عافیت معلوم کرتے ہیں۔ کسی کی مصیبت کا علم ہو تو
حتی الوسع ان کی مدد کرتے ہیں۔
دوسرے
لوگ وہ ہوتے ہیں جنھیں ہم نے اندھا کہا ہے۔ کیونکہ یہ لوگ اپنی ذات اور مفاد کے
سوا کچھ نہیں دیکھتے۔ اپنا مفاد ہو تو وہ آپ سے بڑی خوش اخلاقی سے پیش آئیں گے۔
اپنا مفاد ہو تو آپ کے آگے پیچھے پھریں گے۔ یہ نہ ہو تو ایسے اجنبی بن جائیں گے کہ
جیسے جانتے نہیں۔ آپ پر کوئی وقت آن پڑے توآپ کے سائے سے بھی دور بھاگیں گے۔
ایسے
لوگ دنیا میں بظاہر بہت کامیاب ہوتے ہیں۔ گھر، بنگلہ، گاڑی، دفتر غرض ہر چیز میں
دوسروں سے آگے۔ مگر کل روز قیامت جب جنت کی نعمتیں ملنا شروع ہوں گی تو ان کے ہاتھ
کچھ نہ آئے گا۔ لیکن وہ لوگ جن کی زندگی دوسروں کی خیر خواہی کی زندگی تھی۔ وہ
اللہ کی عطا کو سب سے بڑھ کر پانے والے ہوں گے۔ ان کا محل، ان کی سواری سب سے
اعلیٰ ہوگی۔
ایک تبصرہ شائع کریں