مضامین قرآن (19) دلائل توحید
دلائل
توحید
مضامین
قرآن کا خلاصہ
ہم
اس کتاب میں قرآن مجید کے مضامین کو ایک سائنٹفک ترتیب سے زیر بحث لا رہے ہیں۔ ہم
نے ابتدا میں یہ بات بیان کی تھی کہ بنیادی طور پر تین ہی اصل مضامین ہیں جو قرآن
مجید میں زیر بحث آئے ہیں۔ یہ تین بنیادی مضامین درج ذیل ہیں
:
1۔دعوت دین اور اس کے رد و قبول کے نتائج
2۔دعوت کے دلائل
3۔مطالبات
ہم
نے دعوت کے دلائل سے اپنی گفتگو کا آغاز کیا تھا اور اب تک ہم قرآن مجید میں بیان
کیے گئے وجود باری تعالیٰ کے دلائل اور آخرت کے دلائل پر تفصیل سے گفتگو کر چکے
ہیں۔ اب ہم اللہ کی توفیق سے توحید کے دلائل پر گفتگو شروع کر رہے ہیں ۔
توحید:
دین کی بنیادی دعوت
توحید
کی دین اسلام اور قرآن مجید میں کیا اہمیت ہے اس پرتفصیل سے تو اسی وقت بات ہو گی
جب ہم دعوت دین کے موضوع پر کلام کر کے یہ بتائیں گے کہ وہ کیا بنیادی دعوت ہے جو
قرآن مجید اپنے مخاطبین اور ہر دور کے انسانوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ تاہم توحید
کے دلائل پر گفتگو کرنے سے قبل اس بات کی ضرورت ہے کہ یہ واضح کیا جائے کہ توحید
دین کا بنیادی عقیدہ اور ایک اللہ کی عبادت تمام انبیا ، رسل اور صالحین کی دعوت
رہی ہے۔ انسان اور جن اس دنیا میں اسی مقصد کے لیے بھیجے گئے ہیں کہ وہ ایک اللہ
کی عبادت کریں۔ یہی ان کا مقصد تخلیق ہے۔ یہ عبادت صرف ذکر و تسبیح، رکوع و سجود
ہی سے عبارت نہیں بلکہ نہاں خانہ دل میں رب کی محبت اوراس کے خوف سے شروع ہوتی اور
خارج کے ہر گوشے اور حیات انسان کے ہر شعے میں اس کی اطاعت کے ساتھ اس کی پوری
زندگی کا احاطہ کر لیتی ہے۔ تنہا ایک ہی رب کی عبادت کی یہ وہ سیدھی شاہراہ اور
صراط مستقیم ہے جو انسان کو زندگی کے ہر پیچ و خم اور اخروی زندگی کے ہر موڑ سے
باسلامت گزار کر جنت الفردوس کی ابدی بادشاہی کی منزل تک پہنچا دیتی ہے ۔
توحید
کی یہی وہ سیدھی راہ ہے جس سے ہٹانے کا عہد روز ازل ابلیس ملعون نے کیا تھا۔ یہی
اس کا مشن تھا جس کے لیے اس نے پروردگار عالم سے یہ کہہ کر مہلت مانگی تھی کہ تو
ان میں سے اکثر کو اپنا شکر گزار نہ پائے گا۔ اس ناشکرے پن سے اس کی مراد یہ تھی
کہ انسان اس دنیا کی آزمائش میں اترنے کے بعد اپنے خالق و مالک کو بھول جائے گا۔
وہ اس کے در سے منہ موڑ کر اور اس کی بندگی کو چھوڑ کر شیاطین، بتوں، انبیا و
صالحین، درختوں، پتھروں، چاند، سورج، ستاروں، جانوروں اور اپنے جیسے انسانوں کو
پوجتا رہے گا۔ توحید کی سیدھی شاہراہ کو چھوڑ کر شرک کی پگڈنڈیوں میں بھٹک جائے
گا۔ اور انھی میں بھٹکتے بھٹکتے آخر کار جہنم کے گڑھے میں جا گرے گا۔
چنانچہ
شیطان کے اس چیلنج کے جواب میں بندوں کی مدد کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں اور
ہر قوم میں ابنیاء کو مبعوث کیا۔ یہی انبیا کی بعثت کا اصل مقصد ہے۔ نبی اگر آتے
ہیں تو اس لیے کہ اللہ کی بندگی کی دعوت دیں۔ کتابیں اگر ان انبیاء پراترتی ہیں تو
اس لیے کہ اللہ کی بندگی اور اطاعت کا طریقہ لوگوں کو بتائیں۔ فرشتے اگر ان کتابوں
میں مذکور ہیں تو اس لیے کہ لوگ جان لیں کہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور کچھ نہیں۔
آخرت اگر دین کا عقیدہ ہے تو اس لیے کہ یہ خدا سے ملاقات اور اس کے حضور پیشی کا
دن ہے۔ غرض دین کا ہر عقیدہ جس بنیاد اور ہر جز جس کل کے گرد گھومتا ہے وہ یہی
عقیدہ توحید ہے ۔
دلائل
کی اہمیت
دلائل
توحید کا مطالعہ کرتے وقت یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ جس طرح غیر مسلموں کو خدا کو
ماننے، ایک ماننے، تنہا اس کی عبادت کرنے، اس کی بات کو سب سے اہم سمجھنے سے انکار
ہے، ٹھیک اسی طرح اسلام کے نام لیوا بھی خدا کی ذات، صفات اور اختیارات کے حوالے
سے ہر طرح کی کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جس طرح وہ غیر اللہ کے نام کی مالا جپتے
ہیں ، ہم بھی غیر اللہ کی عظمت کے احساس میں جیتے ہیں ۔ ہم چونکہ پیدائشی مسلمان
ہیں ، اس لیے غیر اللہ کو خدائے واحد کے بالمقابل لاتے ہوئے کچھ نہ کچھ تاویل سے
کام لیتے ہیں ۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے پورے دل، پوری جان، پورے شعور اور
پورے ارادے کے ساتھ خدا کو ایسے نہ پوجا جیسے اس کی پرستش کا حق تھا۔ اس کی بندگی
ایسے نہ کی جیسے اس کی عبادت کا حق تھا۔ اس کی بات ایسے نہ مانی جیسے اس کی اطاعت
کا حق تھا اور اس کلام سے اس طرح نہ جڑے جیسے کہ جڑنے کا حق تھا۔ چنانچہ قرآن مجید
میں مذکور توحید کے یہ دلائل صرف غیر مسلموں کے لیے ہی مفید نہیں بلکہ ہم مسلمانوں
کو بھی یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ کیسا عظیم خدا ہے جس کی ناشکری اور ناقدری کے ہم
مرتکب ہورہے ہیں ۔
قرآن
مجید میں توحید کی پانچ دلیلیں بیان ہوئی ہیں ۔ ہم ذیل میں ان کا خلاصہ نقل کر رہے
ہیں ۔ پھر ایک ایک کر کے ان پر تفصیل سے بات کریں گے ۔
1۔دلیل ربوبیت
یہ
دلیل بتاتی ہے کہ اس دنیا میں انسان کے لیے جو سامان زندگی بہترین طریقے پر میسر کیے
گئے ہیں وہ زبان حال سے گواہ ہیں کہ اس درجہ متنوع کائنات میں ہم آہنگی پیدا کر کے
زمین سے آسمان تک انسان کی ربوبیت کا اہتمام کرنے والی ایک ہی ہستی ہے اور وہی ہے
جو انسان کے جذبہ پرستش اور بندگی کی تنہا حقدار ہے ۔
2۔دلیل قدرت
اس
دنیا میں قدرت کاملہ صرف ایک ہی ہستی کو حاصل ہے جو کسی کی محتاج نہیں اور سب اس
کے محتاج ہیں۔ ہر نفع و ضرر اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے وہی مستحق عبادت ہے۔ اس کے
علاوہ جن کی پوجا کی جاتی ہے وہ کوئی قدرت نہیں رکھتے ۔ وہ بے جان بت ہیں ، کمزور
اور محتاج انسان ہیں یا پھر وہ فرشتے ہیں جو خود کوئی قدرت اور طاقت نہیں رکھتے ۔
3۔دلیل فطرت
انسان
کی فطرت اندر سے گواہی دیتی ہے کہ اس کا رب ایک ہی ہے۔ ربوبیت کا یہ اقرار روز ازل
سے اس کی فطرت کے اندر ودیعت کر دیا گیا ہے۔ خواہشات اور تعصبات کی بنا پر اس فطرت
پر پردہ پڑ جاتا ہے ، مگر مصیبت میں یہ پردہ پھٹ جاتا ہے اور انسان ہر طرف سے
مایوس ہوکر ایک ہی رب کو پکارتا ہے ۔ یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک خدا ہی اصل
معبود ہے ۔
4۔نظم کائنات کی دلیل
انسان
جس کائنات میں کھڑا ہے وہ بالکل متضاد اور متنوع عناصر کا مرکب ہے۔مگر مشاہدہ ہے
کہ زمین و آسمان، خشکی وپانی، ہوا اور آگ جیسے متضاد عناصر ملتے ہیں اور بقائے
زندگی کا وہ سامان فراہم کرتے ہیں جو ایک خالق کے بغیر ممکن نہیں ۔ اگر ان کے خالق
الگ الگ ہوتے تو اپنی مرضی سے ان متضاد عناصر کو کنٹرول کرتے اور یوں زمین میں
فساد برپا ہوجاتا۔ مگر یہ دھرتی فساد سے نہیں بلکہ زندگی کے حسن سے عبارت ہے ۔ یہ
ایک خالق کے وجود کا جیتا جاگتا ثبوت ہے جو تنہا ہماری عبادت کا مستحق ہے ۔
5۔انسانی علم و روایت کی دلیل
انسان
کا سفر توحید کی سیدھی شاہراہ سے شروع ہوا۔ انسان اس راہ سے بھٹک کر بارہا شرک کی
تاریک راہوں میں نکل گیا لیکن توحید کی سیدھی راہ اپنی جگہ باقی رہی۔ ایک خدا کے
سوا کتنے معبود بنے اور وہ کون تھے اس بارے میں بہت اختلاف ہے ، مگر ایک خدا موجود
ہے اور وہی عبادت کا مستحق ہے ، یہ انسانی علم کی وہ وراثت ہے جس میں کبھی اختلاف
نہیں ہوا۔ یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اصل تعلیم ابتدا ہی سے توحید کی تھی۔ باقی سب
انحرافات تھے۔ مزید یہ کہ توحید کے حق میں تو آسمانی صحائف میں بہت کچھ پایا جاتا
ہے ، مگر شرک کے حق میں ان میں ایک دلیل بھی موجود نہیں ہے۔ حتیٰ کی حضرت عیسی
جنہیں سب سے زیادہ بڑے پیمانے پر اللہ کا شریک بنایا گیا ان کی تعلیم بھی شرک کے
بیان سے بالکل خالی ہے۔ یہی معاملہ انفس و آفاق اور فطرت انسانی کا ہے جس میں شرک
کے حق میں کوئی چیز نہیں پائی جاتی ۔
یہ
توحید کے وہ پانچ دلائل ہیں جو قرآن پاک میں بار بار مختلف پہلوؤں سے دہرائے گئے
ہیں ۔ اس کے بعد انشاء اللہ ان میں سے ایک ایک کو لے کر اس پرتفصیلی گفتگو کریں گے
۔
[جاری ہے ]
ایک تبصرہ شائع کریں