تعلق


 

تعلق

انسانی زندگی میں سب سےزیادہ پیش آنے والا معاملہ تعلق ہوتا ہے . ازل سے ابد تک ، گود سے لحد تک، بچپنے سے لڑکپن اور جوانی سے بڑھاپے تک اس کا دورانیہ چلتا ہی رہتا ہے . ان دیکھے احساسات کی مالا ،  انجانے خوف کی کہانی ، زندگی تیاگنے کا کارن ، دنیا لٹادینے کی داستان ، رشتوں کو روند دینے کی آپ بیتی ، اور نیک نامی کا سائبان ، سب اسی ایک لفظ سے ہی تو شروع ہوتے ہیں .
 
تعلق کی اتنی قسمیں ہیں جتنے انسانی احساسات ، یہ پاک بھی ہوتا ہے اور ناپاک بھی ، محترم بھی اور نا معتبر بھی ، جائز بھی اور نا جائز بھی ، جھوٹا بھی اور سچا بھی ، دل کے لئے بھی اور دکھاوے کے لئے بھی ، دین کے لئے بھی دنیا کے لئے بھی ، خالق کے لئے بھی اور مخلوق کے لئے بھی ، رونے کے لئے بھی ، ہنسنے کے لئے بھی
 
ان کا وقفہ طویل بھی ہوتا ہے اور مختصر بھی . ماں کی گود سے شروع ہونے والا تعلق قبر کے بعد حشر تک قائم رہتا ہے ، مالی منفعت کی خاطر بنایا گیا تعلق خسارے کی پہلی چوٹ پر ٹوٹ جاتا ہے .
 
تعلق یک طرفہ بھی ہوتا ہے اور دو طرفہ بھی ، سیانے یک طرفہ تعلق کو محبّت اور دو طرفہ کو بزنس کہتے ہیں
کچھ لوگ تعلق کے بیوپاری بھی ہوتے ہیں اور جوڑنے توڑنے کا کام کرتے ہیں . تو کچھ لوگ تمام عمر اسی انتظار میں رہتے ہیں کہ کوئی آکے ان سے بھی تعلق جوڑے . کسی کا مرتبہ ایسا بلند کہ ایک دنیا تعلق جوڑنا چاہے اور کوئی مفلوک الحال ایسا کہ تعلق والے بھی لا تعلق ہو جایئں .
 
تعلق کسوٹی بھی تو ہوتا ہے ، رشتوں کی ، جذبات کی ، جو اچھے برے وقت میں اپنی مضبوطی کو ناپتا ہے . تعلق کسی کو بنا ڈالتا ہے تو کسی کو برباد کر دیتا ہے اور کوئی زندگی بھر کسی در پہ بیٹھا تعلق کی بھیک مانگتا رہتا ہے
 
ہم زندگی بھر سوکھے ہوئے تالاب پر بیٹھے ہوئے ہنس کی طرح تعلق نبھاتے نبھاتے مر جاتے ہیں ، کہانی ختم ہو نہ ہو کردار ختم ہو جاتے ہیں . اور تعلق ٹرانسفر بھی تو ہو جاتے ہیں . اس کا عشق اس کے گھر ، اس کے خواب اسکی جنّت اور ایک کی لگن دوسرے کی کامیابی
 
انسان جب تعلق بنانا چاہے تو کچھ نہ کچھ کر کے بنا ہی لیتا ہے اور پھر عمر اس تعلق کو پختہ کرنے میں گزار دیتا ہے . ان تمام تعلقات میں جو سب سے اہم تعلق تھا وہ بھول جاتا ہے ، اسے کمزور کر چھوڑتا ہے ، وہ یک طرفہ رہ جاتا ہے ، ادھورہ چھوٹ جاتا ہے ،، ایسا تعلق جو اس کے وجود میں آنے سے پہلے شروع ہوا تھا ، جسکی گواہی الست بربکم ، قالو بلیٰ سے دی تھی . خدا بندے کو نہیں بھولتا ، بندہ ہی خدا کو بھول جاتا ہے . کوئی وقت کوئی گھڑی مخلوق سے بچا کر اپنے خالق سے بھی بات کرنی چاہئے ، اس تعلق پر بھی غور کرنا چاہیے ، کبھی رات بستر پر چادر اوڑھ کر موبائل کے نائٹ پیکجز کی طرح اپنے رب سے بھی گفتگو کرنی چاہیے ، جو ہمیشہ سنتا ہے اور انتظار میں رہتا ہے
 
دنیا کے تعلقات بندے کو کمزور کر دیتے ہیں ، چلنے پھرنے کی سکت تک چھین لیتے ہیں . ایسے میں مالک سے کنیکٹ ہونا ہی پڑتا ہے . یہ ایک تعلق سب سے سچا ہے . الله دھتکارتا نہیں ہے ، دھتکارے ہوؤں کو سہارا دیتا ہے ، دلاسہ دیتا ہے ، وعدے کرتا ہے ، بشارت دیتا ہے ، اپنی پہچان دیتا ہے ، اپنی نسبت دیتا ہے
 
نیکی الله سے ایک تعلق ہی تو ہے ، اور گناہ بھی . اسی کی تو نہ فرمانی کرتا ہے بندہ اور کسی کی تو نہیں . جو چاہے سزا دے ، چاہے تو معاف کردے ، چاہے تو مسکرادے اور سارے دھو ڈالے . حق اس کا ہے جو حق ہے ، آپ کیوں بولتے ہیں ؟ بندے اور مالک کے بیچ گفتگو میں کمینٹری کرنے والے “لا تعلق ” رہ جاتے ہیں ، اس ستارے کی طرح جس کا کوئی مدار نہیں ، اس لاؤڈ سپیکر کی طرح جسکی کوئی مسجد نہیں، اور اس دل کی طرح جسکا کوئی محبوب نہیں
 
یہ وہ تعلق ہے جس پر کام کرنا چاہئے . بندا رب سے دور جائے ہی کیوں ؟ رب کے آس پاس رہنا چاہئے ، جانے کب کونسا کام لے لے . اور تعلق میں شکایت نہیں ہوتی . غیروں سے گلا کرنا محبت کا شرک ہے . چلیں کوئی دل گرفتہ اپنے رب سے مخلوق کا گلا کرے تو کچھ سمجھ میں بھی آتا ہے کہ غریب آدمی روۓ بھی نہ تو کیا کرے ، مگر مالک کا  گلا مخلوق سے ، بڑی کم ظرفی کی بات ہے
 
 اور لوگوں کو اپنی خود ساختہ بنائی گئی پالیسیوں میں تولنے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ ہمارا اپنا جو
HR
 مینوئل قرآن کی صورت میں آیا ہے اس سے کب کب انحراف کیا ؟
 
غیر مسلم ہی سہی ، کافر ہی سہی ، معذور ہی سہی ، بد صورت ہی سہی ، ہے تو اسی کا بندا ، کیا پتہ کب کسی کا کیا تعلق ہو ؟
 
ظلم کرنے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہئے کہ مظلوم کی جس دن رسائی آپ سے زیادہ طاقتور تک پہنچ گئی وہ آپ کا کیا کرے گا . اگر وہ جا نماز پر بیٹھ گیا تو کہاں سے ملے گی پناہ ؟
 
ایسے بندے کو کبھی کچھ نہیں کہنا چاہیے جس کا الله کے سوا کوئی نہ ہو
 
ہمارے معاشرے میں عجیب لوگ ہیں . الله کے نام پر الله کی مخلوق سے الله کے لئے نفرت کرتے ہیں ، اگر الله نے کہہ دیا کے وہ تو اس سے محبت کرتا ہے تو کیا ہوگا ؟
 
تعلقات کی اس پر فریب دنیا سے متعلق رہ کر اس سے تعلق کا دعویٰ تو وہ کرے جسکی آنکھوں کے حلقے اسکی بن بادل برسات کی گواہی دیں ، جسکی کمر بستر کی گرمی کو ترسے اور جسکا دل صرف ایک تعلق کی فکر میں گھل جائے . باقی میرے جیسے بندوں کو تو ڈرنا ہی چاہئے ، کسی دن کوئی تعلق والا زبان کے نیچے آگیا تو آہوں کے حصار ،میں دعائیں راکھ کر دے گا


ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران