بنی اسرائیل کی غلامی اور اس سے نجات



بنی اسرائیل کی غلامی اور اس سے نجات

بنی اسرائیل مصر میں ایک لمبی مدت غلامی میں گزارنے کے بعد حضرت موسی علیہ السلام کی رہنمائی میں وہاں سے نکلے اور ارض موعود (فلسطین )کی طرف وہ پر آشوب سفر شروع کیا،جس میں درد ناک واقعات پیش آئے اور انہوں نے دلیری کے کارنامے انجام دیئے یہ مصائب سفر نبی اسرائیل کی عام تاریخ کا ایک نمونہ تھے۔ آخر کار وہ ارض موعود میں پہنچ گئے۔

 

مصر سے نکلنے پر بنی اسرائیل کی قومی اور مذہبی اس سفر میں خدا نے حضرت موسیٰ کی قوم سے وہ عہد لیا تھا جسےمذہبی نشتوں میں میثاق کہا گیا ہے. یہ واقعہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام خدا کی طرف سے دس احکام لائے جن کے اخلاق اثر کی لہریں روۓ زمین کے ہر حصے میں پہنچیں۔ حضرت موسی علیہ السلام جو مصر میں پیدا ہوئے اور حضرت اسرائیل یعقوب کی اولاد میں سے تھے .اس زمانے میں مصر کے بادشاہ فرعون نے حکم دے رکھا تھا کہ نبی اسرائیل میں جو لڑکا پیدا ہو اسے فوراً موت کے گھاٹ اتار دیا جائے. صرف لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے۔ خدا جانے کتنی معصوم ہستیاں دنیا میں قدم رکھتے ہی موت کی گود میں پہنچا دی گئی۔ حضرت موسیٰ اس لیے بچ گئے کہ پیدا ہوتے انہیں سرکنڈوں کی ایک ٹوکری میں رکھ کر دریاے نیل میں بہا دیا گیا فرعون کی بیوی نے ٹوکری دیکھی تو دریا سے نکلوائی اور بچے کو اپنے بیٹے کی طرح پالا .قدرت نے حضرت موسی علیہ السلام کے لئے شاہی دربار کی شان و شوکت میں پروان چڑھنے کا موقع پیدا کیا۔ حضرت موسی علیہ السلام جوان ہوئے تو ایک دن آپ نے دیکھا کہ ایک مصری کسی غریب کو پیٹ رہا ہے حضرت موسی علیہ السلام نے مصر کو ظلم سے روکنا چاہا لیکن وہ باز نہ آیا۔

 

اس پر آپ نے اسے ایک گھونسا رسید کیا اور وہ مصری وہیں گر گیا یہ ایک اتفاقی حادثہ تھا لیکن اس کا عام چرچا ہو گیا. حضرت موسی علیہ السلام نے یہی مناسب سمجھا کہ مصر سے نکل جائیں چنانچہ آپ بحریہ احمر کے نزدیک صحرائی علاقے میں حضرت شعیب کے پاس چلے گئے اور ایک مدت تک وہاں پر رہے تھے . حضرت حضرت موسی علیہ السلام کو بشارت ملی کہ وہ بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات دلائیں گے چنانچہ وہ اس غرض سے مصر واپس چلے گئے۔

 

مصر میں پہنچ کر انہوں نے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کی امداد سے بنی اسرائیل کو جمع کرلیا لیکن فرعون نہ تو بنی اسرائیل کو ذلت کی زندگی سے نجات دینے کے لیے تیار تھا اور نہ انہیں مصر سے جانے کی اجازت دیتا تھا .جب خدا کے حکم سے مصر میں یکے بعد دیگرے دس وبائیں نازل ہوئی تو پھر فرعون نے مجبور ہو کر اجازت دے دی. مگر بنی اسرائیل کا قافلہ روانہ ہوا تو فرعون کی نیت پھر بدل گئی اس نے لشکر لے کر بنی اسرائیل کا تعاقب کیا .اور ان کے پیچھے پیچھے بحیرہ قلزم کے کنارے پہنچ گیا .تاکہ انہیں روکے یکایک خدا کی قدرت سے ایسی ہوائیں چلیں گے پانی کے اترنے سے سمندر میں رستہ پیدا ہوگیا اور بنی اسرائیل سلامتی کے ساتھ پار اتر گئے لیکن جب فرعون کے پیچھے پیچھے چلا تو پھر موجیں آگئی اور وہ لاؤ لشکر سمیت ڈوب گیا

 .

مصر سے باہر نکل آنے پر بھی بنی اسرائیل کی آزمائش کا دور ختم نہ ہوا وہ ایک نسل تک صحرا میں سرگرداں پھرتے رہے ان کے درمیان اختلافات بھی پیدا ہوئے مگر خدا کے ساتھ جو عہد ہو چکا تھا اس کی پابندی اور حضرت موسی علیہ السلام کے لائے ہوئے احکام کی پیروی نے بے خانماں بنی اسرائیلیوں کا شیرازہ بکھرنے نہ دیا حضرت موسی علیہ السلام نے وادی اُردن کے سامنے ایک پہاڑ پر وفات پائی اس وقت تک بنی اسرائیل عرض موجود میں داخل نہ ہوئے لیکن حضرت موسی علیہ السلام اس پر مطمئن تھے کہ ان کی قوم میں مصیبتوں اور آزمائشوں کو صبر سے برداشت کرلینے اور ایمان پر قائم و استوار رہنے کی صلاحیت پیدا ہو چکی ہے انھیں خصو صیتوں کو قومی زندگی کا جوہر سمجھا جاتا ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران