مضامین قرآن (67) اخلاقی طورپرمطلوب و غیر مطلوب رویے : ظلم ۔

mazameene-quran-67


مضامین قرآن (67) اخلاقی طورپرمطلوب و غیر مطلوب رویے : ظلم ۔

ظلم : عدل و انصاف کا متضاد رویہ

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ظلم عدل و انصاف کا متضاد رویہ ہے۔ یہ بات ایک درجہ میں ٹھیک ہے۔ ہم اس سے پہلے یہ دیکھ چکے ہیں کہ قرآن مجید نے عدل، قسط اور حق وغیرہ کی اصطلاحات کو استعمال کرکے اس اخلاقی وصف کو بیان کیا ہے جس میں انسان اپنے قول و فعل سے حق اور انصاف کا مظاہرہ کرتا ہے۔ قرآن مجید میں ظلم کا لفظ اس رویے کے متضاد رویے کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے جو ناانصافی، زیادتی، خلاف عدل جھوٹی گواہی اور کسی کی جان، مال، آبرو کو نقصان پہنچانے پر مبنی ہوتا ہے۔

 

اس حوالے سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ ظلم کا یہ مفہوم زیادہ تر انسانوں کے حقوق کے پس منظر میں مراد لیا گیا ہے۔ یہ بات اس پہلو سے بالکل قابل فہم ہے کہ انسانوں کے ساتھ جب بھی ظلم ہوگا تو ناانصافی پر مبنی رویہ اور جان، مال، آبرو کا نقصان ہی وجود میں آئے گا۔ خدا کی ہستی ظاہر ہے کہ ایسے ہر عجز سے پاک ہے کہ اسے کوئی نقصان پہنچا سکے۔ چنانچہ ظلم کا لفظ جب خالق کے حقوق کے پس منظر میں استعمال ہوتا ہے تو پھر قرآن مجید ظلم کی اصطلاح کو بہت جامع اور وسیع تر مفہوم میں استعمال کرتا ہے جس کا جائزہ آگے لیا جائے گا۔

 

اس ضمن کی تیسری اہم بات یہ ہے کہ جس طرح عدل کو بیان کرنے کے لیے قرآن مجید نے دیگر الفاظ یعنی قسط اور حق وغیرہ کو استعمال کیا تھا، اسی طرح ظلم کو بیان کرنے کے لیے بھی ظلم کے علاوہ کئی اور الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جیسے بغی، تعدی اور طغیان وغیرہ۔ ظلم کی طرح یہ الفاظ بھی انھی دو مفاہیم کے بیان کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ یعنی ایک طرف یہ خلق کے حقوق کی پامالی جیسے ناپ تول میں ڈنڈی مارنے، ظلم و زیادتی کرکے لوگوں کی جان، مال اور آبرو کو نقصان پہنچانے جیسے مفاہیم کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور دوسری طرف یہ خدا کے حقوق کی پامالی پر مبنی ایک ناحق اور غیرمطلوب رویے کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔

 

اس ضمن کی چوتھی اہم بات یہ ہے کہ عدل اور ظلم مل کر ادائے حقوق کے ایک مکمل تصور کو واضح کرتے ہیں جس میں خالق اور مخلوق کے معاملے میں درست رویے کی ایک مکمل تصویر سامنے آجاتی ہے۔ البتہ ادائے حقوق کے اس تصور میں جب مخلوق کے حقوق اور خاص کر ان کے اطلاقی اور عملی پہلوؤں پر توجہ دلانا مقصود ہوتا ہے تو قرآن مجید زیادہ تر عدل یا اس کے ہم معنی الفاظ کو بیان کرتا ہے گرچہ اس کے متضاد کے طور پر ظلم یا اس کے ہم معنی الفاظ کو بھی بیان کیا جاتا ہے۔ لیکن خالق کے حقوق کی پامالی کے ضمن میں قرآن مجید میں زیادہ تر ظلم اور اس کے ہم معنی الفاظ کو استعمال کیا گیا ہے۔

 

ظلم : خدا کے حقوق کی پامالی

قرآن مجید نے ظلم اور اس طرح کے دیگر ہم معنی الفاظ کو اصلاً خدا کے حوالے سے اور اس کے حقوق کی پامالی کے ضمن میں استعمال کیا ہے۔ قرآن مجید نے شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے کہ خدا کو ایک ماننا خدا کا حق ہے اور ایک انسان شرک کرکے خدا کے اس بنیادی حق کی پامالی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ اللہ تعالیٰ کی ناشکری، اس کے مقابلے میں سرکشی، ضد و ہٹ دھرمی کے رویوں کو بھی بیان کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ نیز آیات الٰہی کی تکذیب، ان سے اعراض، خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرنے، خدا کی نشانیوں سے انکار، اپنی طرف سے خدا پر جھوٹ گھڑنے اور افتری علی اللہ جیسے سنگین جرائم کو بیان کرنے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے یہی اسلوب اختیار کیا ہے۔

 

تاہم قرآن مجید میں ظلم اور دیگر ہم معنی اصطلاحات کا سب سے زیادہ استعمال خدا کی نافرمانی کرنے اور اس کی حدود کو پامال کرنے کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ جس طرح کفر و شرک، سرکشی و تکذیب حق، آیات الٰہی سے اعراض و افتری علی اللہ میں سے ہر چیز خدا کے حقوق کی پامالی ہے، اسی طرح خدا کی نافرمانی کرنا، اس کی شریعت اور حدود سے تجاوز کرنا اور اس کے احکام کو چھوڑ کر اپنی مرضی کے فیصلے کرنا بھی خدا کے حقوق کی سخت پامالی ہے۔ قرآن مجید نے اس رویے کو ظلم نفس یعنی اپنے اوپر ظلم کرنے سے تعبیر کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص خدا کی نافرمانی کرتا اور اس کی حدود کو پامال کرتا ہے تو باعتبار نتیجہ وہ اللہ تعالیٰ کا کوئی نقصان نہیں کرتا کیونکہ اللہ تعالیٰ اس بات سے بلند ہیں کہ انھیں کسی کی اطاعت یا سرکشی سے کوئی فرق پڑے۔ دوسری طرف یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت اور فرمانبرداری اور حدود کی پاسداری کا جو راستہ مقرر کیا ہے، اس کا نفع دنیا اور آخرت دونوں میں انسانوں ہی کے لیے ہے۔ جس وقت وہ ان حدود کو پامال کرتے اور رب کی نافرمانی کرتے ہیں وہ دنیا و آخرت دونوں میں اپنے لیے ہی خرابی پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔

 

ظالموں کا انجام

قرآن مجید نے ظلم پر مبنی اس رویے کا جو انجام بیان کیا ہے وہ دنیا و آخرت دونوں کے پہلو سے انتہائی سخت اور عبرتناک ہے۔ گرچہ اللہ تعالیٰ کے متعلق قرآن نے بار بار یہ بات دہرائی ہے کہ وہ بندوں پر ذرہ برابر بھی ظلم کرنے والے نہیں ہیں، مگر یہ ظلم اپنی ذات میں اتنا بڑا جرم ہے کہ ایک ظالم کا آخری ٹھکانہ جہنم ہی بنے گا۔ اللہ تعالیٰ نے جہنم کی وعید اصلاً ظلم و سرکشی پر مبنی اسی رویے پر دی ہے۔ قرآن مجید مختلف اسالیب سے یہ بات بار بار واضح کرتا ہے کہ جہنم کا بدترین ٹھکانہ اور اس کے دردناک عذاب دراصل ظالموں کے لیے ہی ہیں۔

 

یہ تو آخرت کا معاملہ ہے، مگر دنیا کے حوالے سے بھی اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقوں سے ظلم پر مبنی اس رویے کی شناعت کو واضح کیا ہے۔ جن قوموں پر خدا کا عذاب آیا اور ان کی جڑ کاٹ دی گئی اللہ تعالیٰ نے ان کو ظالم قرار دیا ہے۔ قرآن مجید یہ واضح کرتا ہے کہ ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتے۔ وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتے۔ وہ بار بار تنبیہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ظالموں سے ہرگز بے خبر نہیں ہیں بلکہ اللہ کا علم ان کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس وعید کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو اس کے ظلم کے باوجود ڈھیل مل رہی ہے تو اسے ہرگز نچنت نہیں ہونا چاہیے۔ اس دنیا میں امہال کا ایک قانون جاری ہے اور جیسے ہی مہلت کا یہ وقت ختم ہوگا ظالم خدا کے غضب کا شکار ہوجائیں گے۔ اور اس وقت یہ ظالم خدا کے مقابلے میں اپنا کوئی مددگار نہیں پائیں گے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ ظالم خدا کی لعنت کا شکار ہو کر ہمیشہ کے لیے اس کی رحمت سے دور ہوجائیں گے۔

 

قرآنی بیانات

یہ ظالم جو کچھ کر رہے ہیں، تم خدا کو اُس سے ہرگز غافل نہ سمجھو۔ وہ اِنھیں صرف اُس دن کے لیے ٹال رہا ہے جس میں نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔“، (ابراہیم42:14)

 

اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کریں گے اور اُس کی ٹھہرائی ہوئی حدوں سے آگے بڑھیں گے، اُنھیں وہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور اُن کے لیے رسوا کر دینے والی سزا ہے۔“،(النساء14:4)

 

ایمان والو، اللہ کچھ ایسے شکار کے ذریعے سے تمھیں ضرور آزمائش میں ڈالے گا جو تمھارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوگا تاکہ اللہ دیکھ لے کہ (تم میں سے) کون بن دیکھے اُس سے ڈرتا ہے (اور کون نہیں ڈرتا)۔ پھر جس نے اِس تنبیہ کے بعد بھی اللہ کے مقرر کیے ہوئے حدود سے تجاوز کیا، اُس کے لیے ایک درد ناک سزا ہے۔“،(المائدہ94:5)

 

تباہی ہے اُن کے لیے ایک دردناک دن کے عذاب کی جنھوں نے (خدا کے شریک ٹھہرا کر) اپنی جان پر ظلم کیا ہے۔“،(الزخرف65:43)

 

اور حقیقت یہ ہے کہ ظالموں کو اللہ کبھی ہدایت نہیں دیتا۔“،(البقرہ258:2)

 

اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والوں کا (اللہ کے ہاں) کوئی مددگار نہ ہوگا۔“،(البقرہ270:2)

 

اورحقیقت یہ ہے کہ ظالموں کو اللہ ہرگز دوست نہیں رکھتا۔“،(ال عمران57:3)

 

اور اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والوں کے لیے کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔“،(ال عمران151:3)

 

جس دن اپنی جان پر ظلم کرنے والوں کو اُن کی معذرت کچھ بھی نفع نہ دے گی اور اُن پر لعنت پڑے گی اور اُن کے لیے بہت برا ٹھکانا ہو گا۔“، (الغافر52:40)

 

(اپنے دائرہئ اختیار میں) تم بھی میزان میں خلل نہ ڈالو“،(الرحمان55:8)

 

سو اُن سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھیں یا اُس کی آیتوں کو جھٹلا دیں۔“، (الاعراف33:7)

 

بے شک، اللہ (اِس میں) عدل اور احسان اور قرابت مندوں کو دیتے رہنے کی ہدایت کرتا ہے اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے روکتا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاددہانی حاصل کرو۔“،(النحل90:16)

 

بے شک، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔“،(الشوری40:42)

 

اُن لوگوں سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جن کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی گواہی ہو اور وہ اُسے چھپائیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ اُن چیزوں سے بے خبر نہیں ہے جو تم کر رہے ہو۔“،(البقرہ140:2)

 

الزام تو اُنھی پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے اور زمین میں بغیر کسی حق کے سرکشی کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے۔“،(الشوری42:42)

 

اور تیرا پروردگار اپنے بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں ہے۔“، (فصلت46:41)

 

جو مظلومانہ قتل کیا جائے، اُس کے ولی کو ہم نے اختیار دے دیا ہے۔ سو وہ قتل میں حد سے تجاوز نہ کرے، اِس لیے کہ اُس کی مدد کی گئی ہے۔“،(اسراء33:17)

 

نہ تم کسی پر ظلم کرو گے، نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔“،(البقرہ279:2)

 

داؤد نے کہا: اِس نے تمھاری دنبی کو اپنی دنبیوں میں ملانے کا مطالبہ کر کے یقیناً تم پر ظلم کیا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ معاملے کے اکثر شریک اِسی طرح ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں۔“،(ص24:38)

 

جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھرتے ہیں اور عنقریب وہ دوزخ کی بھڑکتی آگ میں پڑیں گے۔“، (النساء10:4)

 

اور اللہ کی راہ میں اُن لوگوں سے لڑو جو (حج کی راہ روکنے کے لیے) تم سے لڑیں اور (اِس میں) کوئی زیادتی نہ کرو۔ بے شک، اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“،(البقرہ190:2)

 

ماہِ حرام کا بدلہ ماہِ حرام ہے اور اِسی طرح دوسری حرمتوں میں بھی بدلے ہیں۔ لہٰذا جو تم پر زیادتی کریں، اُن کو اپنے اوپر اِس زیادتی کے برابر ہی جواب دو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اور جان لو کہ اللہ اُن کے ساتھ ہے جو اُس کے حدود کی پابندی کرتے ہیں۔“،(البقرہ194:2)

 

پھر جب وہ اُنھیں نجات دے دیتا ہے تو فوراً ہی بغیر کسی حق کے زمین میں سرکشی کرنے لگتے ہیں۔ لوگو، تمھاری سرکشی کا وبال تمھی پر آنے والا ہے۔ دنیا کی زندگی کا نفع اٹھا لو، پھر تم کو پلٹ کر ہمارے ہی پاس آنا ہے، اُس وقت ہم تمھیں بتا دیں گے جو کچھ تم کر رہے تھے۔“، (یونس23:10)

 

جو اللہ کے حدود سے آگے بڑھتے ہیں، وہی ظالم ہیں۔“،(البقرہ229:2)

 

جو اللہ کی حدوں سے تجاوز کریں گے، وہ یاد رکھیں کہ اُنھوں نے اپنی ہی جان پر ظلم ڈھایا ہے۔“،(طلاق1:65)

 

اور تمھیں ہر چیز میں سے، جو تم نے مانگی، عطا فرمایا۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو نہیں گن سکتے۔ (اِس پر بھی خدا کے شریک ٹھہراتے ہو)؟ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور بڑا ناشکرا ہے۔“،(ابراہیم34:14)

 

اور جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں، وہی ظالم ہیں۔“،(المائدہ45:5)

 

ثمود کو ہم نے اونٹنی (اِسی طرح کی) ایک آنکھیں کھول دینے والی نشانی کے طور پر دی تھی، لیکن اُنھوں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اُس کی تکذیب کر دی۔“،(اسراء59:17)


یاد کرو، جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھاکہ بیٹا، اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہرانا۔ حقیقت یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔“،(لقمان31:31)


اُس وقت ہر شخص کے پاس جس نے ظلم کا ارتکاب کیا ہے، اگر وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے تو (اپنے آپ کو بچانے کے لیے) وہ اُس کو فدیے میں دینا چاہے گا۔ (اُس وقت) یہ دل ہی دل میں پچھتائیں گے، جب عذاب کو (اپنی آنکھوں سے) دیکھ لیں گے اور اِن کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور اِن پر کوئی ظلم نہ ہوگا۔“(یونس54:10)

 

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران