انسان کے لیے تعمیری اور مثبت افکار
فکر
کا معنی سوچ کے ہے جس کی قرآن میں بہت اہمیت ہے کیونکہ درست سوچ سے انسان غلطیوں
سے بچ جاتا ہے۔
انسان
ایک سوچنے اور سجمھنے والا مخلوق ہے اور فکر کی وجہ سے وہ دوسری مخلوقات سے منفرد
ہے تاہم انسان ہمیشہ درست اور مثبت انداز میں نہیں سوچتا اور ممکن ہے نادرست افکار
سے وہ مقصد حیات سے دور ہوجائے لہذا ضروری ہے کہ انسان درست اور مثبت سوچ پیدا کریں۔
خداوند
کریم قرآن مجید میں ان مثبت افکار کی جانب انسان کو ہدایت کرتا ہے جنمیں سے ایک
عالم ہستی کی خلقت ہے اور ایسی سوچ یا فکر نہایت تعمیری ہے، اللہ تعالی کا ارشاد
ہوتا ہے: «الَّذِینَ یَذْكُرُونَ اللَّهَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ
وَیَتَفَكَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ
هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ:
ترجمہ:
وہ جو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے یاد کرتے ہیں اور آسمان اور زمین کی
پیدائش میں فکر کرتے ہیں، (کہتے ہیں) اے ہمارے رب تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا تو
سب عیبوں سے پاک ہے سو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔.»(آلعمران/۱۹۱)
ایک
اور موثر اور مفید فکر جو قابل اہمیت ہے وہ گذشتہ اقوام کی تاریخ میں غور کرنا ہے
کہ انکا انجام کیا ہوا ہے، اس بارے میں قرآن فرماتا ہے: «أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي
الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ كَانُوا مِنْ قَبْلِهِمْ
كَانُوا هُمْ أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ فَأَخَذَهُمُ
اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ وَمَا كَانَ لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَاقٍ:
کیا
نہیں دیکھتے کہ زمین پر تم سے پہلی اقوام کا انجام کیا ہوا، وہ ان سے زیادہ طاقتور
تھے اور انکے مضبوط آثار باقی ہیں تاہم خدا نے انکو انکے گناہ کی وجہ سے عذاب میں
مبتلا کیا اور خدا کے مقابل انکا حامی کوئی نہ تھا.»(غافر/۲۱)
مثبت
اور تعمیری افکار کے مقابلے بعض افکار سے منع کیا گیا ہے کیونکہ ممکن ہے ان افکار
سے مشکلات اور فسادات جنم لیں جنمیں سے ایک شہوت رانی اور خدا کی ذات کی ساخت بارے
سوچنا ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں