زندگی کی تلاش

زندگی کی تلاش


زندگی کی تلاش

6 اگست 1996 کو ناسا کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے اعلان کیا کہ انہیں ایک الکا میں زندگی کے کچھ آثار ملے ہیں۔ یہ چٹان، جو اصل میں مریخ سے تعلق رکھتی تھی، اس بات کا ثبوت بن گئی کہ مریخ پر زندگی پائی جاتی ہے۔ یہ اتنی بڑی خبر تھی کہ دنیا بھر کے میڈیا کی شہ سرخی بن گئی اور اگلے روز امریکی صدر بل کلنٹن نے اس پر خصوصی بیان دیا۔ تاہم مزید تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔

 

اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کائنات میں زندگی کتنی نایاب ہے۔ اس کائنات میں لامحدود خلا ہے۔ عظیم ستارے اور وسیع سیارے ہیں۔ بلیک ہولز سے لے کر دومکیت تک مختلف گیسیں اور عناصر یہاں پائے جاتے ہیں۔ لیکن اس لامحدود کائنات میں زندگی صرف اسی سیارے پر پائی جاتی ہے۔

 

زمین پر یہ زندگی بہت متنوع شکل میں پائی جاتی ہے۔ بیکٹیریا سے لے کر شیر اور ہاتھی تک زندگی کی بے شمار اقسام ہیں۔ لیکن انسان اس زمین پر زندگی کی سب سے شاندار مثال ہے۔ انسانی زندگی صرف زندگی نہیں ہے بلکہ یہ شعور، اختیار، ارادہ، عقل، سوچ، غور و فکر، ضمیر اور جمالیات کا مجموعہ ہے جس میں زندگی اپنا کمال ظاہر کرتی ہے۔

 

لیکن اس زندگی کے ساتھ موت آتی ہے۔ چند دہائیوں کے بعد یہ انسانی زندگی برباد ہو جاتی ہے۔ ایسے میں انسانی ضمیر چیخ اٹھتا ہے کہ زندگی کا یہ کمال اتنا بے توقیر نہیں ہو سکتا کہ موت سے اس کی تصویر ہمیشہ کے لیے مٹ جائے۔ اس لیے قرآن پکارتا ہے کہ یہ زندگی خدا کا تحفہ ہے۔ جس نے یہ زندگی ایمان اور اخلاق کے نبوی نمونے کے مطابق گزاری ہے، اسے کل جنت میں ہمیشہ کی زندگی دی جائے گی۔ اس سے بڑی خبر دنیا میں کوئی نہیں۔ لیکن افسوس! اس ابدی زندگی کو پانے کے بجائے، لوگ خلا میں زندگی تلاش کرتے ہیں یا اس فانی دنیا کو ابدی جنت بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران