معاشرے کا شیرازہ بکھرنے کے عمل کو کیسے روکے
قرآن
دکھاتا ہے کہ فرد کا عمل برراہ راست معاشرے پر اثر ڈالتا ہے لہذا اصلاح معاشرہ صرف
سخت قوانین سے ممکن نہیں بلکہ اکثریت کی اصلاح ہونی چاہیے۔
«اصلاح» و «فساد» دو متضاد چیزیں ہیں اور خدا کا قانون یہ ہے کہ
اصلاح فساد پر غلبہ حاصل کرلے۔ ہر نیک عمل دیگر تمام حقایق سے ہم آہنگ اور اثر
انداز اور فاسد عمل خلاف فطرت وقانون عالم ہستی ہے۔
تاہم
گناہ و فساد کا کیا مطلب ہے اور ان میں کیا فرق ہے؟
گناه
ایسا عمل ہے جو بندہ خدا کے حکم کے خلاف عمل کرتا ہے یا کسی امر جو لازم ہے اس پر
عمل نہیں کرتا یا ترک کرتا ہے اور فساد ایسی حالت ہے جس سے معاشرے کے نارمل حالت
کو تباہ کیا جاتا ہے، جس سے معاشرے کی آزادی، عدالت اور سکون برباد ہوتا ہے۔
اس
بنیاد پر گناہ فرد کی تباہی اور رویہ اور فساد معاشرے کی تباہی شمار کی جاتی ہے جس
میں برراہ راست رابطہ موجود ہے۔
ظَهَرَ
الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ
لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ؛ خشکی اور تری میں
لوگوں کے اعمال کے سبب سے فساد پھیل گیا ہے تاکہ اللہ انہیں ان کے بعض اعمال کا
مزہ چکھائے تاکہ وہ باز آجائیں۔ (روم، ۴۱)
اس
آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہ و فساد میں برراہ راست رابطہ موجود ہے، گناہ اور
قانون شکنی ایک زہریلے کھانے کی مانند ہے جو انسانی نظام صحت کو تباہ کرتا ہے۔ جیسے
جھوٹ اعتماد کو ختم کرتا ہے اور امانت میں خیانت اجتماعی رابطے کو تباہ کرتی ہے
اور ظلم دیگر مظالم کی بنیاد بنتا ہے وغیرہ ۔۔۔
اسلامی
روایات میں تمام گناہوں کے خاص اثرات ہوتے ہیں جو ہمارے لیے پوشیدہ ہیں مثلا روایت
میں کہا گیا ہے کہ قطع رحمی یعنی رشتہ داروں سے رابطہ منقطع کرنا عمر کو کم کرتا
ہے یا یتیم کا مال کھانا قلب کو تاریک کرتا ہے، امام صادق(ع) فرماتے ہیں: «جو
گناہوں کی وجہ سے دنیا سے چلے جاتے ہیں، ان سے زیادہ ہے جو اجل یا وقت مقررہ ختم
ہونے پر جاتے ہیں». رسول گرامی فرماتے ہیں: «زنا کے چھ عقوبت ہیں؛ تین دنیا میں
اور تین آخرت میں
ایک
اور حدیث رسول گرامی سے منقول ہے کہ: «میرے بعد جب معاشرے میں زنا کا عمل بڑھ جاتا
ہے تو ناگہانی اموات میں اضافہ ہوگا، جب کم فروشی ہوگی تو خشک سالی آئے گی اور جب
زکوۃ ادا نہیں کریں گے تو ظلم و دشمنی میں ایک دوسرے کی معاونت کریں گے اور جب پیمان
شکنی کی جایےگی تو دشمن ان پر مسلط ہوگا اور جب امر بالمعروف اور نہی از منکر ترک
کریں گے اور نیکو کاروں کی پیروی نہیں کریں گے تو خدا برے افراد کو ان پر مسلط کرے
گا۔ ».
یہ
الہی سنت یا قانون ہے کہ اگر افراد معاشرہ اصلاح کی طرف نہیں جائیں گے تو جہان ہستی
قدرتی طور پر انکو نابودی کی طرف لے جائے گی۔
باطل
کو نظام عالم میں دوام حاصل نہیں اور اصلاح کو غلبہ حاصل ہوگی: «واللّهُ لا یَهدِی
القَومَ الظّلِمین؛ خدا ستم کاروں کو ہدایت نہیں کرتا»(سورہ مائده، 51)
ایک تبصرہ شائع کریں