پہلا جھوٹا مدعی نبوت اسود عنسی
ہم آپ کے سامنے جھوٹے مدعیان نبوت کے تعارف پر
مشتمل سلسلہ وار ایک سیریز پیش کرنے جارہےہیں ،آج اس سلسلے کی پہلی تحریر آپ کے سامنے ہے جس میں آپ کو اس جھوٹے نبی کے بارے میں بتایا جائے گا جس نے
سب سے پہلے نبوت کا جھوٹا دعوی کیا تھا۔ یہ دعویٰ نبوت
نبی آخر الزماں سیدنا رسول کریم
(ص) کے زمانہ میں ہی کر دیا گیا تھا،یہ سب
سے پہلا جھوٹا مدعی نبوت شخص اسود عنسی تھا ۔اس کا نام عیہلہ
بن کعب بن عوف عنسی تھا۔بخاری شریف میں تین
ہزار چھے سو اکیس نمبر پر نبی کریم(ص) پر آپ (ص)
کا ایک فرمان درج ہے
کہ آپ (ص)نے فرمایا:
میں
سویا ہوا تھا کہ خواب میں اپنے
ہاتھوں پہ میں نے سونے کے دو کنگن دیکھے۔ مجھے اس خواب سے بہت پریشانی ہوئی، پھر
خواب میں ہی وحی کے ذریعہ مجھے بتلایا گیا کہ میں ان پر پھونک دوں ۔ چنانچہ جب میں نے ان کڑوں پر پھونکاتو وہ دونوں اڑ گئے۔ میں نے اس سے یہ
تعبیر لی کہ میرے بعد جھوٹے نبی ہوں گے۔راوی کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک اسود عنسی
اور دوسرا یمامہ کا مسیلمہ کذاب تھا۔
اس
روایت سے بھی اشارہ ملا کہ جھوٹا مدعی
نبوت جو کڑے کی شکل میں آپ کو نظر آیا
اور آپ کی پھونک سے سب سے پہلے اڑا ،وہ اسود عنسی تھا،میں جھوٹے مدعیان نبوت کے سلسلے میں
آج اسی کا تعارف پیش کر رہاہوں ۔
اس
کذاب کا تعلق یمن سے تھا۔ یہ خاتم الانبیاء سید المرسلین سیدنا رسول کریم (ص) کی حیات
مبارکہ میں دعویٰ نبوت کرنے والا پہلا شخص تھا۔ یہ شخص مزاجا نرم اور شیریں
گفتگو کرنے والا تھا لیکن کالی رنگت کا تھا اسی وجہ اسے اسود کہا گیا یعنی
کالا۔ اسود عنسی نے یمن کے علاقہ کہف حنان میں سات سو جنگجوو ٔں کے ساتھ نبوت کا
دعوی کیاا ور وہاں اپنی حکومت قائم کرلی۔ارباب
سیر کے نزدیک اسود عنسی شعبدہ بازی اور
کہانت میں زبردست مہارت رکھتا تھا ۔ اس زمانے میں یہ دو چیزیں سادہ لوح لوگوں کو متاثر کرنے کےلئے کافی ہوتی
تھیں ۔ اسی وجہ سے لوگوں کی خاصی تعداد اس
کی معتقد بن گئی۔ اسود عنسی کو ذوالحمار کے لقب سے بھی جانا جاتا تھا،ذوالحمار کا
مطلب ہے گدھے والا۔اس حوالے سے مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس کے پاس ایک سدھایا ہوا گدھا
تھا ،یہ جب اس کو کہتا خدا کو سجدہ کرو تو وہ فوراً سربسجود ہوجاتا، اسی طرح جب اس
گدھے کو بیٹھنے کو کہتا تو بیٹھ جاتا ۔ کھڑے ہونے کو کہتا تو کھڑا ہوجاتا، لوگ اس
سے بھی بہت متاثر ہوتے کہ گدھا بھی اس کا حکم مانتا ہے۔نجران کے لوگوں کوجب اس کے
دعویٰ نبوت کا علم ہوا تو انہوں نے اسے امتحان کی غرض سے اپنے ہاں مدعو کیا۔ اس نے
وہاں بھی اپنی شعبدے بازی دکھائی، لوگوں کو متاثر کیا اور چکنی چپڑی باتوں سے اہل
نجران کے بہت سے لوگوں کو اپنا ہم نوا
بنالیا ۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنی طاقت بڑھانا شروع کردی۔اس نے فساد برپا کیا اور
آگے بڑھ کر صنعا پر قبضہ کرلیا ۔اس کا
فتنہ زور پکڑ گیا ۔وہاں ارتداد کی لہر تیز
ہوئی تو وہاں کے مسلمانوں کو دوسرے علاقے کی طرف سمٹنا پڑا ۔ سب سے پہلے اس نے نجران پر ہی فوج
کشی کرکے عمرو بن حزم اور خالد بن سعید کو وہاں سے بےدخل کیا اور پھر بتدریج پورے یمن
پر قبضہ کرلیا۔ عمرو بن حزم اور خالد بن سعید نے مدینہ منورہ پہنچ کر سارا قصہ سیدنا
نبی کریم (ص) سے عرض کیا جس پر آپ (ص) نے یمن کے بعض سرداروں اور اہل نجران کو
اسود کے خلاف جہاد کا حکم نامہ تحریر فرمایا اور یوں یہ لوگ باہم ربط اسود کے خلاف
متحد ہوگئے۔اور اسے ختم کردیا۔
اس
حوالے سے تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ فارس کے ایک باشندے باذان کوکسرٰی نے یمن کا
حاکم بنایا تھا ، اسے اللہ تعالیٰ نے آخری عمر میں اسلام قبول کرنے کی توفیق دی۔ یہ
مسلمان ہوا تو آپ (ص) نے اسے یمن کی حکومت پر برقرار رکھا۔اس کی وفات کے
بعد آپ(ص) نے یمن کو دو حصوں میں تقسیم کردیا،ایک حصہ باذان کے بیٹے شہر بن باذان کو دیا اور
کچھ حصے پر سیدناابو موسی اشعری رضی اللہ
عنہ کو اور سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمادیا ۔ باذان کے بیٹے کے علاقے میں اسود عنسی نے خروج کیا اور
شہر بن باذان کو قتل کردیا اور شہر کی بیوی کو اپنی کنیز بنالیا۔
کتب
تاریخ میں شہر کی بیوی کا نام
مرزبانہ مذکور ہے۔ وہ اسود عنسی
کی کنیز نہیں بننا چاہتی تھی،مرزبانہ
کے چچا زاد بھائی اور نبی کریم (ص) کے صحابی سیدنا فیروز دیلمی (رض) کو اس کا معلوم ہوا،انہوں نے اس سے خفیہ رابطہ کرکے اسود کے قتل کےلئے منصوبہ تیار کر لیا،یہاں میں
یہ بھی بتاتا چلوں کہ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ سیدنا فیروز دیلمیؓ شاہ حبشہ کے
بھانجے تھے جنہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد اشاعت دین کے لئے بے پناہ خدمات انجام
دیں ۔ نبی کریم(ص) کے جانثاروں میں سے
تھے ۔ بہر حال وہ مرزبانہ
کو اسود سے نجات دلانے اور انتقام لینے کے لیے مواقع ڈھونڈنے لگے۔ اسی
دوران آپ (ص) کا حکم نامہ بھی انہیں موصول ہوگیا،جس میں لشکر کشی کی بجائے فدائی
حملے کے ذریعے صرف ہدف کو نشانہ بنانے کی تلقین تھی،اور خون خرابے سے بچنے کے
حوالےسے تلقین کی گئی تھی ۔اس لئےیمن کے مسلمان اسود کے خلاف لشکر کشی کے بجائے
گھر میں گھس کر فدایانہ حملے کے ذریعے
اسود عنسی کذاب کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے تاکہ خون خرابے کے بغیر
ہی یہ مہم سر کر لی جائے اور نبی کریم(ص) کی ہدایات پر عمل یقینی بنایا جائے۔ اسی
منصوبہ بندی کے تحت نبی کریم (ص) کے جانثار فیروز نے
اپنی تایا زاد بہن اور شہر بن باذان کی
بیوی مرزبانہ کے ذریعے اسود تک
رسائی حاصل کرلی۔ جب منصوبہ کے مطابق
مقررہ رات آئی تو مرزبانہ نے اسود کو شراب
کثیر مقدار میں پلادی۔ جس سے وہ مدہوش ہوگیا۔ مرزبانہ کی مدد سے فیروز اپنے ساتھیوں کے ہمراہ محل میں
داخل ہوا اور کذاب اسود کے کمرے میں گھس کر اس کی گردن توڑ کر مار ڈالا۔ اسود عنسی
کے گلے سے خرخر کی آواز سن کر پہرے دار آگے بڑھے مگر مرزبانہ نے یہ کہہ کر انہیں
روک دیا کہ خبردار آگے مت جانا تمہارے نبی پر وحی کا نزول ہورہا ہے۔ فیروز نے محل
سے باہر نکل کر اس کذاب کی موت کی خبر سنائی تو سب پر سکتہ طاری ہوگیا۔ اسود کے
قتل کے بعد جب مسلمانوں کا غلبہ ہوگیا تو اسود کے پیروکار صنعا اور نجران کے درمیان
صحرا نوردی اور بادیہ پیمائی کی نذر ہوگئے اور یوں یمن ونجران ارتداد کے وجود سے
پاک ہوگیا ۔ آپ (ص) کے احکامات دوبارہ بحال کردیے گئے۔ اسود عنسی پہلا کذاب تھا
جو سیدنا رسول کریم(ص) کے حکم پر آپ (ص) کی
حیات مبارکہ میں اپنے انجام کو پہنچا۔ سیدنا جبرئیل علیہ السلام نے آپ (ص)کو اس بات کی خبر
دی تو آپ (ص)نے صحابہ کرام کو ان الفاظ میں
خوش خبری سنائی۔ (فاز فیروز)کہ فیروز کام یاب ہو گیا۔ لیکن جب قاصد یہ
خبر لے کر مدینہ پہنچا تو اس وقت رسول
رحمت سیدنا رسول کریم (ص) وفات پاچکے تھے ۔
سیدنا ابو بکر صدیق جب خلیفہ بنے تو انہیں پہلی
خوشخبری یہی ملی تھی کہ اسود عنسی کا قتل
ہو گیا اور خلافت اسلامیہ کو جھوٹے نبوت
کے ایک فتنے سے نجات مل گئی ہے۔یوں یہ معاملہ اپنے انجام کو پہنچا اور تاریخ میں درج
ہوگیا کہ
ہر چھوٹے مدعی نبوت کےلئے نبی کریم(ص) کی وہی ہدایات ہیں جو اسود عنسی کےلئے تھیں۔
تحریر (ڈاکٹر ایم اے رحمن)
ایک تبصرہ شائع کریں