نبوت کا چھٹا جھوٹا دعویدار: حارث بن عبدالرحمن دمشقی
نبوت
کے جھوٹے دعویداروں کے تسلسل کی اگلی تحریر ہم آپ کے سامنے پیش کرنے جا رہے ہیں،آج ہم جس
کا تعارف کروانے والے ہیں وہ بہت بڑا شعبدہ باز،جنات کے علم کا ماہر اور ان سے کام
لینے والا تھا۔تاریخ میں اسے حارث کے نام سے جانا جاتا ہے،اس نے انہتر ہجری میں نبوت کا دعوی کیا تھا
۔دراصل رسول کریم (ص) کی وفات کے بعد کئی
لوگوں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا اور
کمزور عقیدہ مسلمانوں کو گمراہ کرکے انہیں
دنیا اور آخرت کے عذاب سے دوچار کرنے کا باعث بنے۔انہی میں سے ایک حارث بن عبد الرحمن بن سعید دمشقی ہے جو پہلے ابو جلاس عبدی قریشی کا غلام تھا۔آزادی حاصل کرنے کے بعد اس کے دل میں یاد
الہی کا شوق پیدا ہوا۔ چنانچہ بعض اہل
اللہ کی دیکھا دیکھی دن رات عبادت الہی میں مصروف رہنے لگا۔ اسی دوران اسے
نفس کشی اور جنات کے علم پر عبور حاصل کرنے کا ذوق ہوا،اس کے بعد اس نے اس طرف
محنت شروع کردی،معمولی سی غذا لیتا، کم سوتا، کم بولتا اور اپنے جسم کو ایسے ڈھانپے رکھتا جیسےباپردہ عورت اپنے جسم کو ڈھانپ کر رکھتی ہے۔ علامہ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب الفرقان بین اولیاء الرحمن و اولیاء الشیطان میں
اس کا ذکر کیا ہے اور انہوں نے لکھا ہے
کہ یہ شخص اپنے فن میں ماہر ہونے کے بعد انسانوں کی عقلیں اپنے شیطانی قوتوں کی مدد سے اپنے کنٹرول میں کرلیتاتھا ۔ابن تیمیہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایسا کرنا اب بھی ممکن ہے،اس کےلیے نفس کشی،چلے،مجاہدے اور ریاضتوں
کی ضرورت ہوتی ہے،اس کے بعد انسان ایسے استدراج پر عبور حاصل کر لیتا ہے۔اصل میں
انسان کے ساتھ پیدا ہونے والا شیطان جب انسان اپنے بس میں کرلے تو اس کے ذریعے ایسے شعبدے ممکن ہوتے ہیں۔دور حاضر میں
ہیپناٹائز کرنے کا طریقے اس سے مماثلث رکھتا ہے۔
یہاں
میں ایک اور حقیقت آپ کو سمجھا دوں کہ جو
شخص بھوکا رہے، کم سوئے، کم بولے اور نفس کشی اختیار کرلے یا ہیپناٹائز نگ کے
گر سیکھ لے تواس سے بعض
اوقات ایسے افعال صادر ہوجاتے ہیں
جو دوسروں سے نہیں ہوسکتے، ایسے لوگ اللہ
والوں میں سے ہوں تو ان کے ایسے فعل کو
کرامت کہتے ہیں اور اگر اہل کفر یا گمراہ ہوں تو ان کے ایسے فعل کو استدراج کہتے ہیں۔
بہر
حال یہ نبوت کا جھوٹا دعویدار شخص حارث کذاب بھی اپنی ریاضت ،مجاہدات اور نفس کشی
کی بدولت ایسے استدراج کرتاتھا۔ ایک بار
اس نے لوگوں سے کہا کہ آؤ میں تمہیں دمشق سے فرشتوں کو جاتا ہوا دکھاؤں،اس کے کہنے
کے بعد وہاں کے حاضرین نے محسوس کیا کہ
نہایت خوبصورت فرشتے انسانوں کی شکل میں گھوڑوں پر سوار جاتے ہوئے محسوس ہورہے ہیں ۔ابن تیمیہ (رح) نے لکھا ہے کہ اصل میں یہ جنات
تھے جو اس کے شیطان کے دوست تھے،جسے اس نے انسانی شکل میں دکھاکر لوگوں کو گمراہ
کرنے کی کوشش کی تھی۔
یہ انہی شیاطین اور
جنات کے ذریعے لوگوں کو موسم سرما میں گرمیوں
کے اور گرمیوں میں موسم سرما کے پھل کھلاتا تھا۔ اس کے استدارج
اور شعبدہ بازی کی شہرت دور دور تک پھیل گئی ۔شہرت کے نشے میں مخمور ہوکر
اس نے بھی بالاخر نبی ہونے کا دعویٰ کردیا تھا۔
خلق
خدا کو گمراہ ہوتے دیکھ کر دمشق کا ایک رئیس قاسم بن بخیرہ اس کے پاس آیا اوراس
سے پوچھا کہ کیاتو واقعتاً نبوت کا دعویدار
ہے ،اس نے جواب دیا کہ ہاں میں اللہ کا نبی
ہوں۔ اس پر اس دمشقی سردار نے جواب دیا کہ
: اے دشمن خدا :تو بالکل جھوٹا ہے۔ خاتم المرسلینؐ کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے
لیے بند ہوچکا ہے،تو کہاں سے نبی آگیا،اس کے وہ دمشق کا رئیس یہ ماجرا لیکر سیدھا
خلیفہ وقت عبدالمالک بن مروان کے پاس گیا اور ساری صورت حال سے آگاہ کیا۔عبدالمالک
نے حارث کو گرفتار کرکے دربار میں پیش کرنے کا حکم دیا لیکن اس دوران وہ دمشق
سے بیت المقدس کی جانب فرار ہوچکا تھا
۔وہاں پہنچ کر اس نے اعلانیہ اپنی نبوت کا
آغاز کردیا اور لوگوں کو گمراہ کرنا شروع کردیا۔ابوالقاسم رفیق دلاوری نے اپنی
کتاب (جھوٹے نبی) میں لکھا ہے کہ
خلیفہ عبدالمالک نے جب اسکو گرفتار کرنا چاہا تو وہ فرار ہوکر بیت المقدس
چلا گیا۔جہاں ایک سمجھدار بصری شخص اسکے
تعاقب میں گیا اور اسکے گروہ میں شامل ہوکر
اس کا معتمد خاص بن گیا ، پھر وہ کسی بہانے سے وہاں سے نکلا اور سیدھا خلیفہ عبدالمالک بن مروان کے پاس آیا اور اس
جھوٹے شخص اور اس کی شعبدہ بازیوں سے آگاہ کیا ۔حاکم وقت عبد الملک بن مروان نے اپنے سپاہی اسکے ساتھ بھیجے ۔ وہ بصری
شخص ان سپاہیوں کو لے کر بیت المقدس آیا
اور رات کے وقت حارث کی قیام گاہ پر پہنچا۔ یہ شخص سپاہیوں کو ایک آڑ میں کھڑا کر
کے پہلے خود گیا لیکن دربان نے دروازہ کھولنے سے انکار کیا مگر وہ شخص حارث کا معتمد خاص کا درجہ پا چکا
تھا،اس نے باتیں کرکے دربان کو قائل کیا اور
گارڈ کو دروازہ کھولنے پر رضا مند کر لیا۔ جب دروازہ کھلا تو بصری نے اپنے ساتھ سپاہیوں کو بھی آواز دیکر بلا لیا۔ یہ
دیکھ کر دربان اور دوسرے پیروکاروں کے ہوش اڑ گئے اور پریشانی کے عالم میں چیخنے چلانے لگے اور بولے۔ افسوس تم لوگ ایک
نبی اللہ کو قتل کرنا چاہتے ہو جسے خدا نے آسمان پر اٹھا لیا ہے۔
جب
وہ بصری شخص اور اس کے رفقاء اندر گئے تو
حارث وہاں نظر نہ آیا ۔ چاروں طرف نگاہ دوڑائی مگر اس کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔
حارث اس وقت خطرے کا احساس کر کے ایک طاق میں چھپ گیا تھا جو مریدوں نے اس کے
چھپنے کے لئے بنا رکھا تھا۔اس بصری
شخص سے تو کوئی بات مخفی نہیں تھی۔ اس نے
طاق میں ہاتھ ڈال کر ٹٹولنا شروع کیا تو ہاتھ حارث کے کپڑے سے چھو گیا۔ اس نے حارث
کو پکڑ کر نیچے کھینچ لیا اور اپنے سپاہیوں
کو حکم دیا کہ اسے جکڑ لو۔ انہوں نے زنجیرگردن میں ڈال کر دونوں ہاتھ اس سے باندھ دیئے اور لے کر چل پڑے ۔ جب وہ بیت المقدس میں پہنچے تو حارث نے قرآن مجید کی آیت نما کوئی منتر پڑھا تو
فورا سب کے سامنے اس کے گلے اور ہاتھ کی
زنجیریں ٹوٹ کر زمین پر جا گریں ۔ یہ دیکھ کر سپاہیوں نے زنجیر اٹھا کر پھر ہاتھ اور گلے سے باندھی ، اپنے ساتھ لےکر چل پڑے ۔ جب
دوسرے درہ پر پہنچے تو حارث نے دوبارہ وہی
منتر پڑھا تو زنجیر پھر ٹوٹ گئی ۔سپاہیوں نے پھر اسے باندھ دیا ۔ آخر دمشق
پہنچ کر حاکم وقت عبدالملک کے سامنے پیش کیا۔
خلیفہ نے دریافت کیا ۔کیا واقعی تم مدعی نبوت ہو؟حارث نے کہا ’’ ہاں لیکن یہ بات میں
اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ جو کچھ کہتا ہوں وحی الہٰی کی راہنمائی میں کہتا ہوں۔خلیفہ نے ایک قوی ہیکل محافظ کو حکم دیا
۔ اسے نیزہ مار کر ہلاک کردو۔
نیزہ
مارا گیا لیکن اس کے جسم پر اس کا کوئی
اثر نہ ہوا ۔یہ دیکھ کر حارث کے مریدوں نے یہ کہنا شروع کیا ۔انبیاء کے جسم پر ہتھیار اثر نہیں کرتے،اس لئے حارث کے
جسم پر نیزہ بے اثر رہا۔بیت المقدس سے عبد
الملک بن مروان کے پاس پہنچنے تک راستے میں حارث نے شیطانی طاقتوں کے ذریعے تین سے
زائد بار اپنی زنجیریں کھلوائیں مگر وہ بصری شخص جس نے اسے گرفتار کیا تھا اور اس
کے ساتھ جو سپاہی تھے ، وہ قطعا اس سے
مرعوب نہ ہوئے۔وہ بصری شخص تو پہلے
ہی اس کے سارے کھیل جان چکا تھا،وہ اپنے
سپاہیوں کو بھی بتا چکا تھا۔ خلیفہ کے دربار
میں جب پہلے نیزہ کے وار نے اس کے جسم پر
کوئی اثر نہیں کیا تو اس کے حواری خوش ہوگئے،کہ اسے مارا نہیں جا سکتا۔ پھر خلیفہ
عبدالمالک نے محافظ سے کہا کہ بسم اللہ پڑھ کر نیزہ مارو،یہ شیطانی طاقتوں کو
بروئے کار لا رہا ہے،بسم اللہ پڑھنے وہ زائل ہوجائیں گی چنانچہ محافظ
نے بسم اللہ پڑھ کر نیزہ مارا تو وہ حارث کے جسم کے پار ہوگیا اور یوں یہ نبوت کا جھوٹا دعویدا اپنے انجام کو پہنچ گیا۔اور
لوگ جو اس کے شعبدوں سے متاثر تھے،ان کے سامنے اس کی حقیقت کھلی،اس جھوٹے شخص کے
کردار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی جس قدر مرضی خرق عادات کام سر انجام دے وہ نبی
نہیں ہوسکتا،جو بھی نبی کریم(ص) کے بعد یہ دعوی کرے گا وہ جھوٹا ہوگا جیسے یہ شخص
ھارچ جھوٹا تھا۔اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ہدایت دے اور ،ایسے شعبدہ بازوں کے
جال سے محفوظ ومامون فرمائے ۔
تحریر : ( ڈاکٹر ایم ۔اے رحمن )
ایک تبصرہ شائع کریں