اسلام میں اخوات اور بھائی چارہ



اسلام میں اخوات اور بھائی چارہ

اخوت کا مفہوم

یہ عربی زبان کا لفظ ہے یہ اخ سے نکالا ہے ۔ ان کے معنی ہیں بھائی ۔ اخوت کا معنی باہمی بھائی چارہ ، بھائی بندی اور برادری ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان ایک دوسرے کے لیے حقیقی بھائیوں جیسے پاکیزہ جذبات ہوں ۔ باہمی بھائی چارہ ، محبت اور اخوت ہو ۔ لوگ ایک دوسرے کے غمگسار مددگار اور دکھ درد بانٹنے والے ہوں ۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے کلمہ طیبہ لااله الا الله محمد رسول الله اخوت کی بنیاد اور تمام مسلمانوں کے درمیان مشترک اکائی ہے ۔ یہ کلمہ اخوت کی روح اور تمام اسلامی تعلیمات کا محور ہے ۔ جب کوئی شخص کلمہ طیبہ پڑھتا ہے تو وہ اسلامی اخوت اور برادری کا ایک رکن بن جاتا ہے ۔ اسلام عائگیر دین ہے ۔ تمام تعلیمات کی طرح اخوت بھی روئے زمین کے چپہ چپہ پر لینے والے مسلمانوں کے لئے ہمہ گیر اور آفاقی ہے ۔ تمام مسلمان ایک ہی برادری ہیں ۔ اس برادری میں شمولیت کے لئے رنگ نسل ، خاندان ، قبیلہ ، علاقہ ، زبان اور مکان کی قید نہیں ۔ مشرق سے مغرب تک ، شمال سے جنوب تک ، افریقی ، ایشیائی ، یور پی ، امریکی ، آسٹریلیوی ، گورے، کالے ۔ غریب ، امیر، حبشی اور غلام سب جسم واحد کی طرح ایک اسلای برادری کے ہی ارکان ہیں ۔حضور ﷺ نے تمام مومنوں کو باہمی اخوت ومحبت میں ایک جسم کی ماند قرار دیا کہ جسم کا اگر کوئی حصہ تکلیف میں ہو تو اس کی وجہ سے سارا جسم بے قرار اور بے چین ہو جاتا ہے ۔

 

اخوت کی اہمیت

بہت سی قومیں اور مذاہب اپنے اپنے درمیان اخوت کے دعویدار ہیں مگر ان کی اخوت کا معیار مادی وخونی رشتے اور مال و دولت ہیں ۔ وہاں روحانی مضبوطی اور اخلاقی اقدار مفقود ہیں مگر اسلام نے اپنی تعلیمات اور رسول ﷺ کے اسوہ حسنہ کی شکل میں مسلمانوں میں ایک ایسی اخوت قائم کی ہے جوخونی اور بادی رشتوں سے مضبوط ترین ہے ۔ اس کی جڑیں روحانی و اخلاقی اقدار سے منسلک ہونے کی وجہ سے گہری اور مضبوط ہیں ۔ اس اخوت میں مادی و خونی رشتوں اور مال و دولت کے اثرات کو بنیادنہیں بنایا گیا بلکہ خدا خوفی ، توحید ، اطاعت رسول ﷺ ، بے لوثی اور ایثار واخوت کی بنیاد بنایا گیا ہے ۔ رسول اکرم ﷺ نے عرب جیسی سے ربط، لڑاکا ، شتر بے مہار ، خودغرض ، غیر مہذب اور بکھری ہوئی قوم کو رشتہ اخوت میں منسلک کر کے اخوت وایثار کی عملی وعلمی تعلیم کے بندھن سے مضبوط کر کے ایک ایک عظیم متحدہ قوت بنایا کہ جس کی عظمت ، باہمی اخوت اور اتحاد کے چرچے چار دانگ عالم میں پھیل گئے ۔ جس کا نام سنتے ہی اہل روم و ایران لرز جاتے تھے ۔ آپ ﷺ نے ان کی ایسی تربیت فرمائی کہ آپس میں لڑنے بھڑنے والی قوم معلم اخوت و اتحاد بن گئی ۔ باہمی اخوت و محبت کی وجہ سے تھوڑے عرصہ میں اس وقت کی سب سے بڑی ، مہذب اور منظم سلطنت قائم ہوگئی ۔

 

اخوت اور اسوه حسنہ

اخوت اسلامی اخلاق کا سرچشمہ ہے ۔ معلم اخلاق حضرت محمّد ﷺ نے اخلاق کی تعلیم میں اخوت کو علمی و عملیحثیت سے ہمیشہ سر فہرست رکھا ہے ۔ آپ ﷺ کے پاکیزہ طرز عمل میں اخوت ایک ایسی عملی حقیقت ہے کہ جسے اپنانے سے تمام صحابہ آپ ﷺ کے گرد پروانوں کی طرح منڈلاتے نظر آتے ہیں ۔ آپ ﷺ اپنے صحاب پرفدا نظر آتے ہیں اور صحابہ کرام آپ پر جان و مال قربان کر کے صدقے صدقے ہوتے جارہے ہیں ۔ آپ ﷺ اپنے اصحاب کے درمیان گھل مل کر بیٹھتے تھے کبھی اونچی جگہ پر نمایاں ہو کر میں بیٹھتے بعض دفعہ تو باہر سے آنے والوں کو پوچھنا پڑتا ہے کہ تم میں سے محمد ﷺ کون ہیں ۔

 

اخوت ایک ایسی زبردست قوت ہے کہ جس کی برکات و فیوض کے طفیل یہ دنیا قائم ہے ۔ اخوت کی خیر و برکت کی بدولت انسانوں میں انسانیت ، ہمدردی ، امن و سکون اور شرم و حیاء موجود ہے ۔ اگر یہ جذبہ ناپید ہو جائے تو طنبوره عالم دنگا فساد اور جنگ و جدل کی آماجگاہ بن جائے ۔ آج امت مسلم منصب امامت اور عظمت سے اس لئے محروم ہے کہ اسلای اخوت و اتحاد کا فقدان ہے ۔ اخوت ، منافقت اور نفرت میں بدل گئی ہے ۔ مسلمانوں میں باہمی اعتماد کا نام ونشان نہیں ہے ۔ اگر ہم رعب ، دبدبہ اور عظمت رفتہ چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے اندر صحابه کرام والی اخوت و محبت اور اتحاد و ایثار پیدا کرنا پڑے گا ۔ اگر ہم ہی کر لیں تو

 

فضائے بدر پیدا کر کہ فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

 

آپ۔ﷺ کا یہ معمول تھا کہ سفر میں صحابہ کو آگے رکھتے اور خود پیچھے ہو لیتے ۔کام تقسیم فرما اپنے اپنے حصے کا کام خود کرتے جنگل سے لکڑیاں لے آتے ۔ اگر سواریاں کم ہوتیں تو باری باری تین تین سب لوگ پیدل چلتے ۔ آپ ﷺ اپنی باری پر تین میل پیدل چلتے ۔ ساتھی کو اونٹ پر بٹھاتے اور اونٹ کی نکیل پکڑ کر آگے چلتے ۔ جب آپ ﷺ مکہ سے مدینہ پہنچے تو اوٹنی پر سوار تھے ۔ ابو بکر صدیق راضی اللہ عنہ کو آگے بڑھایا تھا اور خود ان کے پیچھے بیٹھے ۔ اہل مدینہ شناسانہ ہونے کی وجہ سے ابو بکر صدیق راضی اللہ عنہ کو رسول اللہ سمجھے تو ابو بکر صدیق راضی اللہ عنہ کو بار بار وضاحت کرنا پڑی کہ اللہ کے رسول ﷺ میرے پیچھے تشریف فرما ہیں ۔ گھر کے کام کاج میں گھر والوں کا ہاتھ بٹاتے ۔ گھر کی صفائی کرتے ، کپڑے دھوتے ، پانی بھرنے اور بکریوں کا دودھ نکال لیتے ۔ دوسروں کو زروجواہر ، سونا اور چاندی عطا فرمایا مگر اپنے گھروں میں چٹائی ، بوریا ، چار پائی ، موٹے نمدے کا بستر اور معمولی سامان رکھا ۔ دوستوں کی خبر گیری فرماتے ، بیماروں کی عیادت کرتے ، مصیبت زدوں کا ہاتھ بٹاتے ، مرنے والوں کی تجہیز وتکفین اور نماز جنازہ میں شرکت فرماتے غریبوں مسکینوں ، تیموں اور غمزدوں سے غمخواری کرتے ۔ دشمنوں کی بیمار پرسی فرماتے اور ان کی تکالیف پر آنسو بہاتے ۔

 

حاتم طائی کی بیٹی قید کر کے لائی گئی تو اس کا سرننگا تھا ۔ آپﷺ نے دیکھتے ہی اپنی چادر مبارک اس پر ڈال کر اس کے سر کو ڈھانپ دیا ۔ لوگوں نے کہا یا رسول الله تو کافر باپ کی کافر بیٹی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا بیٹی ، بیٹی ہے چاہے اپنی ہو یا کسی اور کی ۔ ایک دفعہ صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ اتنے میں کسی یہودی کا جنازہ گزرا آپ ﷺ کھڑے ہو گئے ۔ ورثاء سے تعزیت فرمائی اور چند قدم ساتھ چلے گئے ۔ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ یہ دشمن اسلام کا جنازه ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ ” موت دشمنوں پربھی آتی ہے ، اپنوں پر بھی آتی ہے ۔ “

 

الغرض اخوت و بھائی چارہ کی ایسی بے نظیر معجزانہ مثالیں قائم کیں کہ دنیا آج تک ان کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے اور یہی وہ عمل ہے کہ جس سے آج تک دنیا روشنی حاصل کر رہی ہے ۔

 

اخوت اور نبوی تعلیمات

جس پر آشوب دور میں حضور ﷺ کو مبعوث کیا گیا اس دور میں باہمی اخوت ومحبت نام کی کوئی چز قطعا نہیں تھی ۔نفرت و حقارت اور عداوت دوشمنی کا طوفان بدتمیزی بپا تھا ۔ آپ ﷺ مجسمہ اخوت اور محبّت بن کر تشریف لائے ۔حضور ﷺ نے ایک دوسرے کے خون کے پیاسوں کو باہم شیر و شکر کر دیا ، عداوت کو اخوت اور نفرت کو محبّت میں بدل دیا ۔ مدتوں سے باہم برسر پیکار قبیلوں کو ایک امام کے مقتدی بنا کر ایک صف میں لا کھڑا کیا ۔ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کومخاطب کر کے آپ ﷺ نے فرمایا

 

مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں

تم اہل ایمان کو باہم محبت و مہربانی اور دلی شفقت میں ایک جسم کی مانند پاؤ گے ۔ اگرجسم کا ایک عضو بیمار ہو تو سارا جسم بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس ظلم کرتا ہے نہ اسے جھٹلاتا ہے نہ اس کا ساتھ چھوڑتا ہے اور اسے حقیر جانتا ہے۔

تمام مسلمان آپس میں ایک عمارت کی مانند ہیں جس کا ایک حصہ دوسرے کو مظبوط کرتا ہے ۔

کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے بھی وہی کچھ نہ چاہے جو وہ اپنے لئے چاہتا ہے ۔

اسلام ایک الگ ملت ہے اور کفر ایک الگ ملت ۔

ہر مسلمان کو الله تعالی ، مسلمانوں ، مسلمان حکام اور مسلمان عوام کے لیے مخلص اور خیر خواہ ہونا چاہئے ۔

 

اسلامی اخوت کے تقاضے

اسلام صرف باتوں یا تلقین کا نظام نہیں بلکہ یہ ایک عملی اور انقلابی نظام ہے جو اپنے ماننے والوں سے اسلامی تعلیمات کو عملی جامہ پہنانے اور انہیں اپنے اوپر لاگو کرنے کا تقاضا کرتا ہے ۔یہی اس نظام کی انفرادیت ہے اور اسی سبب سے یہی یہ مکمل ، آفاقی اور عالمگیر ہے ۔ اخوت کا ظہار بھی صرف زبان سے کافی نہیں کہ طرز عمل اور برتاو سے اس کا اظہار ضروری ہے چناچہ اسلامی اخوات اس امر کا تقاضا کرتی ہے کے

مسلمان ایک دوسرے کے خیرخواه ، مددگار ، غمگسار اور شکرگزار ہوں ۔

مسلمان ایک دوسرے سے محبت کرنے والے ، سہارا بنے والے اور مصیبت میں کام آنے والے ہوں۔

کوئی مسلمان اپنے آپ کو دوسرے سے بہتر فضل اور اشرف نہ سمجھے

ہر مسلمان اپنے اوپر دوسروں کوترجیح دینے والا اور ہر کسی سے مساوی سلوک کرنے والا ہو ۔

تمام مسلمان آپس میں شفقت و رحم کرنے والے ہوں اور اپنوں کے مقابلہ میں کافروں پر سختی برتنے والے ہوں ۔

کوئی مسلمان کسی کو حقارت و نفرت سے دیکھنے والا نہ ہو۔

تمام مسلمان ایک دوسرے کی غیبت ، حسد ، گلہ شکوہ ، بدخوئی ، گالی گلوچ ، چوری اور بے عزتی کرنے والے نہ ہوں۔

کوئی مسلمان بے ایمانی ، رشوت ، بددیانتی ، لڑائی ، دنگا فساد ، بلیک مارکیٹنگ ، بے حیائی ، زنا ، ظلم ، جھوٹ اور دھوکہ کرنے والا نہ ہو ۔

تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کی جانوں کا محافظ اور الله تعالی کا شکر ادا کرنے والا ہونا چاہے ۔

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران