سچ کیا ہے؟ اسلام میں سچائی کی اہمیت



سچ کیا ہے؟ اسلام میں سچائی کی اہمیت

سچائی کا اسلام میں ایک اہم مقام ہے۔جھوٹے پر لعنت بھجی گئی ہے۔سچے انسان کو کامیابی کی ضمانت دی گئی ہے۔حضور ﷺ کو لوگ صادق اور امین کہہ کر پکارتے تھے ۔لوگ ان کے پاس امانتں رکھواتے تھے ۔اسی طرح حضرت ابوبکرصدیق راضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کی نبوت پر یقین کیا تو انہوں نے صدیق کا لقب پایا۔

 

اسلام کی اخلاقی اقدار اور معاشرتی زمہ داریوں میں سے اہم ترین اور تمام عمدہ صفات کا منبع صدق اور سچائی ہے ۔ صدق ایمان کی علامت اور آخرت کا توشہ ہے ۔ پچ سے مراد یہ ہے کہ ہر حال میں انسان کا ظاہرو باطن ایک ہو ۔ دل اور زبان میں یکسانیت ہو ،قول و فعل میں مطابقت ہو ، غلط بیانی ، جھوٹ مکر و فریب اور دھوکہ بازی سے اجتناب ہو۔ صدق کے معنی ہیں سچ بولنا اور سچ کر دکھانا ۔ صدیق اسے کہا جاتا ہے جو ہمیشہ سچ بولے ۔ اپنی فراست اور ایمان اور دل کی پاکیزگی سے حق کی تصدیق کرے ۔ اللہ رب العزت نے صدق اور سچائی کو انبیاء اولیاء اور صلحاء کی صفت قراردیا ہے اور سچ بولنے والوں کو انبیا کا ساتھی قرار دیا ہے ۔

 

نبوت سے قبل اہل مکہ جناب رسالت ماب کو صادق اور امین کہا کرتے تھے ۔ کوہ صفا پر حضور ﷺ نے اہل مکہ کو بلا کر پوچھا کہ میں نے تم میں چالیس برس گزارے ہیں ۔ میرے۔بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ تو سب لوگوں نے بیک زبان کہا ہم نے آپ کو تجربہ سے ہمیشہ سچ پایا ہے

الله تعالی نے حضرت ابراہیم ،حضرت اسمعیل اور دیگر انبیا کوصدیق ، صادق اور سچا کہہ کر صدق و سچائی کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے ۔ حضرت ابو بکر صدیق راضی اللہ عنہ کی صداقت و سچائی ضرب المثل ہے ۔آپ نے حضور ﷺ کی نبوت اور واقعہ معراج کی تصدیق کر کے صدیق کا لقب پایا ۔ بعض صحابہ کرام جو کہ زمانہ جاہلیت میں کفر وضلالت اور کذب بیانی کے دلدادہ تھے ، کاشان نبوت میں آنے سے صدق وصفا کے پیکر بن گئے ۔ انہیں سچ بولنے کی پاداش میں سخت ترین مصیبتوں اور آزمائشوں سے گزرنا پڑا اور حق و صداقت کی اس بھٹی میں سے کندن بن کر اقوام عالم کے لئے قابل تقلید نمونہ قرار پائے ۔ قرآن حکیم صدق و سچائی کے بارے میں یوں گواہ ہے

 

اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ

ہمیشہ سچی اور سیدھی بات کیا کرو

جوبھی اپنے دامن میں دل و زبان کی سچائی کے کر نکلا اور پھر اپنے کردار و عمل سے تصدیق بھی کی وہی پرہیز گار ہیں 

سچائی کی حقیقتوں کو پانے کے بارے میں رسولﷺ کا ارشاد ہے

مومن بزدل ہوسکتا ہے، بخیل ہوسکتا ہے مگر جھوٹا نہیں ہوسکتا۔

سچائی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو ۔ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی دوزخ میں ڈالتی ہے ۔

جو مجھے اپنی زبان کی ضمانت دے دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں ۔

آدمی سچا ایماندار نہیں ہوسکتا جب تک کہ ٹھٹھا اور جھوٹ نہ چھوڑ دے اور چاہے وہ حق پر بھی ہو جھگڑا کرنا چھوڑ دے ۔

جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور چلا جاتا ہے ۔ جو شخص جھوٹی باتیں کر کے لوگوں کو ہنساتا ہے ۔ اس کے لئے سخت افسوس ہے سخت افسوس ہے ۔ بہت ہی بڑا گناہ ہے کہ تم تو اپنے بھائی سے جھوٹ بوو اور وہ تمہیں سچا جاننے۔

 

آیات و احادیث سے صدق و سچائی کی اہمیت وضرورت واضح ہوتی ہے ۔ اسلام سچ بولنے والوں اور صداقت کی خاطر قربانیاں پیش کرنے والوں کے لیے انعام و اکرم کی نوید سناتا ہے ۔ انسان کی کامیابی اور فلاح سچ بولنے ، سچ اپنانے اور سچ کر دکھانے میں ہے ۔ سچا آدمی مومن ، بہادر، مخلص ، شجاع اور پاکباز ہوتا ہے ۔ اس کے ظاہر و باطن میں مطابقت ہوئی ہے ۔ وہ باوقار زندگی بسر کرتا ہے ۔ وہ حرص و ہوا اور لالچ وخودغرضی کا بندہ نہیں ہوتا ۔ لوگ اس پر اعتماد کرتے ہیں ۔ اپنی امانتیں اس کے سپرد کرتے ہیں ۔ اس سے مشورہ لیتے ہیں ۔ اسے لائق عزت و احترام سمجھتے ہیں ۔ قرون اولی کے مسلمانوں کی کامیابی عزت و ہیبت کا راز صدق و سچائی میں تھا ۔ اگر ہم کامیابی چاہتے ہیں ، اقوام عالم کی قیادت چاہتے ہیں ، سطوت وشوکت اور رعب و دبدبہ چاہتے ہیں ، دنیا میں سکون اور آخرت میں جنت چاہتے ہیں تو پھر ہمیں حق و صداقت کی چادر اور صدق درانی کالباس اوڑھ کر سچائی کے بھلائے ہوئے سبق کو یاد کرنا پڑے گا ۔ 

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران