اسلام میں مساوات کی اہمیت

اسلام میں مساوات کی اہمیت


اسلام میں مساوات کی اہمیت

مساوات کا مفہوم

مساوات عربی زبان کا لفظ ہے اس کا مادہ " سوی " اور " تسوية ہے ۔ اس کا معنی برابری ، دوستی ، صاف اور کھلا میدان ہے ۔ مساوات کے معنی ہیں برابر کرنا یا برابر ہو وغیرہ ۔ اسلام کے نقطہ نگاہ سے مساوات کا مفہوم یہ ہے کہ شرعی ، اخلاقی ، دینی ، اقتصادی ، سیاسی معاشرتی اور قانونی اعتبار سے تمام انسانوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں ۔ حسب و نسب ، امیر وغریب ، شاہ و گدا ، آ قا غلام اور ذات پات کے امتیاز کی کوئی اہمیت نہیں ۔ سماجی تقریبات ،دینی عبادات ، نشست و برخواست ، ذرائع معاشیات ، مسجد کی صفوں اور قبرستان کی قبروں میں سب انسانوں کی حیثیت برابر ہے البتہ عالم اور جاہل برابر نہیں ہیں ۔ خاندان ، قبائل اور قومیں صرف پہچان اور تعارف کا ذریعہ ہیں ، اللہ تعالی کے ہاں عظمت و رفعت کی علامت ہرگز نہیں ۔ البتہ الله کے نزدیک ان سب میں سے زیادہ عزت و اکرام والا صرف وہ شخص ہے جو متقی اور پرہیز گار ہو ۔

ارشاد ربانی ہے

 

 اے انسانو ! بے شک ہم نے تمہیں ایک نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہاری برادریاں اور خاندان بنائے تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو ۔ یقینا الله کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو سب سے جوزیاده متقی اور پرہیز گار ہو

 

مساوات کی اہمیت وضرورت

مساوات ، اسلامی تعلیمات کا طرہ نیاز ہے ۔ اسلام دین فطرت ہے اس کی کوئی تعلیم فطری اصولوں کے خلاف نہیں ہے اور سب انسان آدم کی اولاد ہیں۔ کے انسانی خدوخال ایک جیسے ہیں ۔ سب ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہیں ۔ سب پاؤں سے چلتے اور منہ سے کھاتے پیتے ہیں ۔ سب بولنے والے ہیں ، سب اللہ کی مخلوق ہیں ، سب کی ولادت ایک جیسی ہے ۔ جب ان تمام چیزوں میں فطری یکسانیت ہے تو پھرکوئی وجہ ہیں کہ ان کے حقوق میں کسی قسم کا امتیاز ہوا ۔ ان کی نشست و برخواست ، ان کی سماجی، سیاسی ، معاشی اور دینی حیثیت میں یکسانیت نہ ہو ۔

 

رسول اللہ ﷺ نے نہ صرف سیاسی ، معاشی اور معاشرتی مساوات کا اعلان فرمایا بلکہ اسے عملی طور پر نافذ بھی کیا ۔ آپ ﷺ نے تمام انسانوں کو برابر حیثیت میں رکھا ۔ اپنے آپ کو کسی موقع پر ان سے جدا نہ کیا اور نہ ہی ان سے برتر قرار دیا ۔ ان کے ساتھ مل کر کھایا ، پیا اور تشریف فرما رہے ۔ بیٹھنے کے لئے کوئی جدایا یا بلند جگہ نہ بنوائی کسی کو کسی کی بڑائی یا امتیاز کا احساس نہ ہونے دیا ۔ آپ ﷺ نے عملی طور یہ تعلیم دی کہ بڑاصرف اور صرف اللہ تعالی ہے ۔ باقی سب اس کے بندے اور محتاج ہیں ۔

 

آپ ﷺ نے فرمایا

 کسی عربی کوکسی عجمی اور کسی عجمی کی کسی عربی پرکوئی فضیلت نہیں

ذات کا فخر اور نسب کا غرور

اٹھ گئے اب جہاں سے یہ دستور

 

اسی برابری اور مساوات میں مسلمانوں کی ترقی کا راز ہے ۔ جب تک مسلمانوں میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہی مسلمان ترقی و کامرانی کے بلند ترین زمینوں تک چڑھتے گئے ۔ غلامی کے خاتمہ ، شرک کے انسداد، بدعت کے مٹانے اور پرستش کے قلع قمع کا راز مساوات محمّدی ﷺ کے قیام میں ہے ۔

 صفیہ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے
نوع انسان کو غلائی سے چھڑایا ہم نے

 

مساوات اور اسوہ رسول

اسلامی مساوات الله عزوجل کا قانون ہے ۔ انبیاء کی بعثت کا مقصد الله کے قانون عمل کر کے دکھانا ہوتا ہے اس لئے حضور علیہ اسلام نے حریت و مساوات پر پورا پورامل کر کے دکھایا ۔ آپ کی نظر میں امیر وغریب صغیر کبیر ، آقا غلام اور شاہ و گدا سب برابر تھے ۔ حضرت سلمان فارسی ،صہیب رومی راضی اللہ عنہ، بلال حبشی راضی اللہ عنہ ،زاہد بن حارثہ راضی اللہ عنہ وغیرہ سب غلام رہ چکے تھے مگر رسالت ماب ﷺ عوام کی بارگاہ میں روسا قریش سے ہی معزز تھے ۔ اہل شام سے بدلہ لینے کے لئے جس لشکر کو حضور ﷺ نے روانہ فرمایا تھا اس لشکر کا قائد حضرت اسامہ بن زید کو بنایا تھا ۔ ( جوغلام زادے تھے ) حضرت عمر فاروق راضی اللہ عنہ وغیرہ جیسے صحابہ کو حضرت اسامہ کی سپہ سالاری میں روانہ فرمایا تھا ۔ ایک مرتبہ حضرت سلمان راضی اللہ عنہ و بلال راضی اللہ عنہ نے ابوسفیان کودیکھ کر کہا کے تلوار نے ابھی تک اس دشمن خدا کی گردن پر پورا قبضہ نہیں پایا ہے ۔ حضرت ابوبکرراضی اللہ عنہ نے سنا تو کہا کہ سردار قرایش کی شان میں یہ الفاظ حضور ﷺ کومعلوم ہوا تو فرمایا کہ کہیں ابوبکرراضی اللہ عنہ نے ان دونوں کوناراض تو نہیں کیا اگر ان کو ناراض کیا تو خدا کو ناراض کیا ۔

 

لڑکا یا لڑکی کی شادی کے سلسلے میں ہر آدی اعلی حسب ونسب کی تلاش میں ہوتا ہے ۔ کون ہے جو اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح غلام سے کرنے کو تیار ہوگا مگر آپ ﷺ کے فرامین

 

 تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنائے گئے تھے ۔
تمام لوگ کنگھی کے دانتوں کی طرح برابر ہیں ۔

 

اپنی حقیقی . پھوپھی زاد ، ( بعد میں بیوی ) زینب بنت بش کا پہلا نکاح اپنے غلام زید بن حارثہ راضی اللہ عنہ سے کیا تھا جنہیں سب لوگوں کے سامنے عکاظ کے بازار سے خریدا گیا تھا ۔ قریش کی معزز خاتون اور حضرت ابوحذیفہ کی بھتیجی فاطمہ بنت ولید بن عتبہ کا نکاح حضرت ابوحذیفہ راضی اللہ عنہ کے غلام سالم سے کیا تھا ۔ اسامہ بن زیدراضی اللہ عنہ کی شادی ایک معزز خاندان کی زینب بنت ضطلہ سے کی ۔ حضرت بلالراضی اللہ عنہ نے شادی کی خواہش ظاہر کی تو انصار مدینہ جو اپنی بیٹیاں مدینہ سے باہر قطعا کسی جاہ و حشمت والے کے عقد میں بھی دینے کو تیار نہ ہوتے تھے خوشی خوشی اپنی بیٹیوں کا رشتہ دینے کو تیار ہو گئے ۔

 

یہ آپﷺ کی تعلیمات کا اثر تھا کو فخر و غرور ، حسب ونسب ، جاہ وحشمت کی جھوٹی عزتوں کے دلدادہ مختصر سے عرصہ میں اسلامی ، دینی اور انسانی مساوات کے عملی پیکر بن گئے ۔

 

مسجد قباء اور نبیوی کی تعمیر میں دوسرے صحابی کی طرح آپ ﷺ بھی خود گارا مٹی ، پتھر لکڑی وغیرہ

 

عام مزدوروں کی طرح اٹھا کر لاتے تھے ۔ جنگ خندق میں آپ ﷺ اپنے ہاتھوں سے خندق کھودتے تھے اور پھتر اٹھاتے تھے ۔ اس کھدائی کے دوران فاقے کا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ نے کمر سیدھی رکھنے کی غرض سے اپنے پیٹ مبارک پر ایک کی جگہ دو پھر باندھ رکھے تھے ۔ باقی صحابہ ایک ایک دن سے بھوکے تھے جب کہ حضور ﷺ تین دن سے بھوکے تھے ۔ گھر کے کام کاج کے لئے ملازم نہیں رکھتے تھے بلکہ لکڑی ، راشن ، پانی لانا اور گھر کی صفائی کرنا وغیرہ جیسے امور خود سرانجام ریتے تھے ۔ سفروحضر میں جب کوئی کام صحابہ کرام مل کر کرتے تو آپ ﷺ بھی برابر کاحصہ لیتے تھے ۔ غزوہ بدر میں تین آدمیوں کے درمیان ایک سواری تھی حضورﷺ کے دوسرے دونوں ساتھی حضرت علی اور ابوالدردا تھے ۔ آپ ﷺ کی باری آئی تو آپ ﷺ پیدل چلنے لگے ۔ دونوں صحابی بار بار مسلسل بیٹھنے پر اصرار کرتے رہے مگر آپ ﷺ نے بیٹھنا گوارہ نہ کیا ۔ جب ساتھیوں کا اصرار بڑھنے لگا تو آپ ﷺ نے فرمایا ۔ " تم مجھ سے زیادہ پیدل چل سکتے ہو اور نہ میں تم سے کم ثواب کا محتاج ہوں

قبیلہ مخدوم کی ایک عورت فاطمہ چوری کے جرم میں گرفتار ہو کر آئی تو لوگونے حضرت اسامہ بن زید راضی اللہ عنہ کے ذریعہ سفارش کرائی ۔ آپﷺ نے لوگوں کو جمع کر کے فرمایا کہ تم سے پہلے قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ جب کوئی معزز آدی چوری کرتا تو اس سے معاف کر دیا جاتا اور اگر کوئی معمولی آدمی جرم کرتا تو سزا پاتا ۔

 

یا د رکھو

خدا کی قسم اگر محمّد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو ضرور اس پر حد نافذ کر کے اس کے ہاتھ کاٹتا ۔

 

غزوہ بدر کے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ آپﷺ کے چچا حضرت عباس بھی گرفتار ہو کر آئے اور صحابہ نے رعایت کرنا چاہی ۔ آپ ﷺ عوام نے فرمایا کہ ایک درہم کی رعایت نہ کرو ۔قریش فخر و امتیاز کے اظہار کے لئے مزدلفہ میں قیام کرتے ہے لیکن آپﷺ نے اس تفریق کو کھبی پسند نہ فرمایا۔

تاریخ انسانیت کی ایک مثال پیش کرنے سے بھی قاصر ہے کہ جس سے یہ ثابت ہو کہ کسی بڑے سے بڑے رہنما یا کسی نیک دل مخلص انسان سے ایک ایسی مساوات ، حریت ، ایثار اور قربانی پیش کی ہے جس طرح محمد ﷺ نے پیش فرمائی تھی ۔ ان تمام باتوں کے علاوہ کسی مسجد میں مسلمانوں کی نماز با جماعت کا منظر دیکھیے جہاں ایک معمولی آدمی کی قیادت میں ایک صف میں امیر و غریب اور شاہ گدا انتہائی انہماک اورنظم وضبط سے تربیت اور مساوات کی بے مثال اور لازوال داستانیں رقم کررہے ہوتے ہیں ۔

 

 ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

 

مساوات اور زعماء امت

مساوات کے اعلی سے اعلی ترین نمونے پیش کرنے کے لئے اسلامی تاریخ بڑی زرخیز ہے ۔ رسول اکرمﷺ کے طرزعمل اورتعلیم وتربیت کا اثر اتنا گہرا اور مؤثر ہے کہ آپ ﷺ کے ماننے والوں کی اکثریت مساوات کے اس حسین رنگ میں بحسن و خوبی رنگی ہوئی نظر آتی ہے ۔ سیدنا ابوبکرراضی اللہ عنہ نے کئی غلاموں کوخرید کر آزاد کیا ۔ خلیفہ ہونے کے باوجود اپنے عرصہ خلافت میں ڈھائی سال تک ایک بڑھیا کے گھر کے پانی کے مٹکوں کو پانی سے خود بھرتے رہے ۔ حضرت اسامہ بن زیدراضی اللہ عنہ کی زیر قیادت جانے والے لشکر کو روانہ کرتے ہوئے حضرت اسامہراضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر کئی میل تک ساتھ ساتھ دوڑتے رہے اور حضرت اسامہراضی اللہ عنہ کو ہدایات دیتے رہے ۔ سیدنا فاروق اعظمراضی اللہ عنہ حضرت بلالراضی اللہ عنہ کو سیدنا بلال کہہ کر پکارتے تھے ۔ جب بیت المقدس فتح کرنے جارہے تھے تو بیت المقدس کے قریب پیدل چلنے کی آپ راضی اللہ عنہ کی باری تھی اور غلام کی باری سوار ہونے کی تھی ۔ فاروق اعظم اپنی باری کے مطابق ہاتھ میں اونٹ کی مہار پکڑے پیدل چلتے ہوئے بیت المقدس میں داخل ہوئے ۔

 

بنی امیہ اور بنی عباس کا دور مساوات کے واقعات سے بھرا پڑا ہے ۔ جب تک جبل الطارق دنیا میں موجود ہے ، اسلام کی مساوات کے نقوش محفوظ رہیں گے ۔ ہزاروں قریش اور دیگر اشراف ایک غلام طارق بن زیاد کی زیر قیادت سپین پر حملہ آور ہوئے اور سپین فتح ہوا ۔ مدینہ کے قلی دار القضاء میں خلیفہ مہدی پر مقدمہ دائر کرتے ہیں تو خلیفہ کو عدالت میں قلیوں کے برابر کھڑے ہو کر جوابدہی کرنی پڑتی ہے ۔ ہارون رشید کے دربار میں ایک بڑھیاولی عہد کی سرزنش کرتی نظر آتی ہے ۔ ہندوستان میں دوسرے خاندانوں کے علادہ غلاموں کے ایک خاندان نے صدیوں تک ہندوستان پر شان و شوکت اور ہیبت وصولت سے حکومت کی ۔ سلطان صلاح الدین ایوب صلیبی جنگ میں اپنے مقابلہ پر آنے والے دشمنوں اور محمود غزنوی اپنے غلاموں سے حریت و مساوات جیسی اعلی ظرفی کا ثبوت پیش کرتے نظر آتے ہیں ۔ حضور ﷺ نام کے متوالےہر جگہ اور ہر زمانے میں اپنے عزیز ترین نبی کے مساوات جیسے پیارے طریق کوعملی جامہ پہناتے نظر آتے ہیں ۔ کیا اس طرح کی کوئی مثال مسلم معاشرہ کے علاوہ کسی اور معاشرہ سے پیش کی جا سکتی ہے ؟ نہیں ہرگز نہیں

 

 اس مساوات پر ہے معشر اسلام کو ناز
نہ کہ یورپ کی مساوات کہ ظلم اکبر

 

مساوات اور دور حاضر

اسلامی مساوات کی اس بحث سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمان کی اعلی ظرفی اور وسعت قلمی کے مالک تھے ۔ یہ دعوے نہیں بلکہ حقائق ہیں ۔ صرف دعوے کرنا اور کچھ نہ کرنا یورپ والوں کا طرۂ امتیاز ہے ۔ غریبوں اور مزدوروں کے غم میں ملنے والا کیا کوئی ایسی لیڈر ہے جو اپنی بہن یا بیٹی کا نکاح مزدور سے کرنے پر تیار ہو ؟ کیا کوئی لیڈرایا ہے جو لکڑیاں اکٹھی کرتا ہوں ، بوڑھوں کے وزن اٹھاتا ہو ، کدال اٹھا کر مزدوروں کی طرح کام کرتا ہو ، دو دو دن فاقے کاٹتا ہو ۔ کیا مسلمانوں کی مسجد والا منظر کسی مندر ، گرجا اور گوردروارہ میں نظر آ سکتا ہے ؟ کیا کوئی بادشاہ وقت کی بس یا ٹرک میں عوام کے ساتھ بیٹھ کر سفر کرنا برداشت کرسکتا ہے ۔ کیا کوئی حکمران ایسا گزرا ہے جو خودتو پیدل چل رہا ہو اور اونٹ کی مہارتھانے ہوئے ہو جبکہ اس کا غلام سواری پر بیٹھا ہو ؟

 

 کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشقی باز
اے روسیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا 

 

ہوسکتا ہے کہ دور حاضر میں نئی روشنی کے دعویدار ان حقائق کو افسانے سمجھتے ہوں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک مسلمان رنگ و بو فخر و مباہات ، حسب ونسب ، غریب وامیر کے امتیازات سے بے نیاز ہے اور تربیت فکر اور مساوات کو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا ، بڑے بڑے با جبروت اور قیصر وکسری جیسے بادشاہ نام سن کر کانپتے تھے مگر آج ہم ذلیل و رسوا اور کمتر صرف اس لئے سمجھے جاتے ہیں کہ ہم نے حضور ﷺ کے اسوحسنہ کو پس پشت ڈال کر غریبوں سے روگردانی کر کے بڑی بڑی طاقتوں سے ڈرنا شروع کر دیا ہے ۔ اگر ہم آج بھی تعلیمات مصطفوی ﷺ کو ہر شعبہ حیات میں نافذ کر دیں تو ہمارا رعب اور وہی دبدبہ باآسانی آ سکتا ہے

 

 کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران