باغ والوں کا قصہ-(قرآنی قصہ)



باغ والوں کا قصہ-(قرآنی قصہ)

کہتے ہیں کہ ایک باغ بڑا سرسبز و شاداب ہوا کرتا تھا۔ یہ باغ صنعآء (یمن) سے دو فرسخ کے فاصلے پر تھا ۔اس کا مالک بہت نیک دل انسان تھا، جب فصل کاٹنے کا دن آتا تو وہ فصل کے تین حصے کیا کرتا تھا، ایک حصہ اپنے گھر میں لے جاتا تھا، دوسرا حصہ غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کیا کرتا تھا اور تیسرا حصہ خرچے کے لئے یعنی آئندہ فصل کے لئے رکھ لیا کرتا تھا، اللہ پاک نے اسے بڑی فراوانی عطا کی تھی۔

 

لیکن اس کے مرنے کے بعد جب اس کی اولاد جس میں تین بیٹے تھے جو اس کے وارث بنے تو انہوں نے کہا کہ ہمارے والد تو نہایت بے وقوف تھے جو غریبوں اور مساکین میں اپنی پیداوار تقسیم کر دیا کرتے تھے، ہمارے تو اپنے اخراجات بمشکل پورے ہوتے ہیں، ہم اس پیداوار کی آمدنی میں سے مساکین اور سائلین کو کس طرح دیں؟

 

تب انھوں نے یہ مشورہ کیا کہ جب پھل اور کھیتی کا کاٹنے کا وقت آئے گا تو ہم صبح ہوتے ہی پھل اتار لیں گے اور پیداوار کاٹ لیں گے تاکہ مسکینوں اور غریبوں کو مانگنے کا موقعہ ہی نہ ملے۔ یہ سب مشورہ کر کے وہ بڑے اطمینان سے سو گئے۔

 

راتوں رات اس باغ پے اللہ پاک کا عذاب آ گیا اور آگ لگ گئی، اور باغ ایسا ہو گیا جیسے کوئلے کی راکھ ہوتی ہے، یعنی جس طرح کھیتی کٹنے کے بعد خشک ہو جاتی ہے، اس طرح سارا باغ اجڑ گیا، بعض نے ترجمہ یہ کیا ہے، سیاہ رات کی طرح ہوگیا، یعنی جل کر۔

 

صبح ہوتے ہی انہوں نے ایک دوسرے کو آوازیں دیں۔کہ اگر تمہیں پھل اتارنے ہیں تو اپنی کھیتی پر سویرے ہی سویرے چل پڑو۔پھر یہ سب چپکے چپکے یہ باتیں کرتے ہوئے چلے،وہ ایک دوسرے کو کہتے رہے کہ آج کوئی باغ میں آکر ہم سے کچھ نہ مانگے جس طرح ہمارے باپ کے زمانے میں آیا کرتے تھے اور وہ اپنا حصہ لے جاتے تھے۔

 

جب وہ باغ والی جگہ پہنچ گئے اور اسے دیکھا تو کہنے لگے یقیناً ہم راستہ بھول گئے لیکن پھر جب خوب غور کیا تو جان گئے کہ یہ آفت زدہ اور تباہ شدہ باغ ہمارا ہی ہے جسے اللہ نے ہمارے طرز عمل کی پاداش میں ایسا کر دیا اور واقعی یہ ہماری بد نصیبی ہے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ بلکہ ہم تو محروم کر دیئے گئے۔

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران