حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی کشتی



حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی کشتی

حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے دنیا میں کوئی انسان موجود نہیں تھا۔اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو بنا کر اس دنیا میں بھجا تو پھر کے آنے کے بعد ان کی اولاد آئی جس دنیا آگے بڑھی اور انسان آتے گے دنیا بڑھتی گی ۔لیکن پھر ایک عرصہ بعد لوگ اس خدا کو بھول بیھٹے جس خدا نے پوری دنیا کو پیدا کیا۔حقیقی خدا کو بھول کر ان لوگوں نے مٹی اور پتھر کے بہت سارے خدا بنا لیے اور ان مٹی اور پتھر کے بتوں کی پوجا شروع کر دی۔ان لوگوں نے ہر عبادت گاہ کو بتوں سے بھر دیا یہاں تک کے اپنے گھروں میں بت رکھ دئے۔وہ ان بتوں کی پوجا کرتے اور بتوں کو ہی مرادیں پوری کرنے والا مانتے اور بتوں سے مدد طلب کرتے تھے۔

 

تو اللہ نے ان کی ہدایت کے لیے اور سیدھا راستہ دیکھنے کے لیے حضرت نوح علیہ السلام کو بھجا۔اپنی قوم کو حضرت نوح علیہ اسلام نے بہت سمجھایا اور اللہ کے احسانات بتاے ۔ان کو سیدھے راستہ پر چلنے کی تلقین کی ۔بتوں کو چھوڑ کر ایک الله کی عبادت کرنے کا کہا۔

 

ہر غلط کام کرنے سے روکا۔جس راستے پر وہ تھے ان سے توبہ کرنے کا کہا۔ان کو سمجھایا کے اگر تم کی نافرمانی کو نہ چھوڑا اور  ایک اللہ کی طرف لوٹ کر نہ آئے تو تم پر اللہ کا عذاب آنے کا خطرہ ہے۔حضرت نوح علیہ السلام نے ان سے کہا کے اللہنے مجھے رسول بنا کر بھجا ہے تاکہ میں آپ سب کو سیدھے راستے پر لے آوں۔تو یہ سن کر ان لوگوں نے نوح علیہ السلام کو بہت مذاق اڑایا اور کہا تم نبی کسے بن گئے تم تو ہماری طرح گوشت کے بنے ہوے اور ہم میں پیدا ہوے ہو۔پھر نبی کیسے بن گئے تم میں ایسی کیا چیز ہے جس سے ہم تمھیں نبی تسلیم کرے۔مزید کہا کے اگر اللہ نے نبی بھیجنا ہوتا 

تو اللہفرشتوں کو نبی بنا کر بھجتا

 

حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو بتایا کہ کے ان پر اللہ کے کتنے احسان ہیں وہی سچا خدا ہے۔کہا کے یہ فضول بتوں کی پوجا کرنا چھوڑ دو یہ کچھ نہیں کر سکتے صرف اللہ اس دنیا کا خالق و مالک ہے اس کی عبادت کرو اور کہا مجھے کچھ نہیں چاہے میں تم لوگوں کی بھلائی اور کامیابی کی بات کرتا ہوں۔تمھیں نحصیت کرتا ہوں کے اللہ کو ایک مانو اور اسی سے مانگو۔حضرت نوح علیہ السلام نے ایک لمبے وقت تک یعنی ساڑھے نو سال تک کوشیش کی اور اپنی قوم کو سمجھاتے رہے کے اللہ کے بندے بن جاو بتوں کی عبادت کرنا چھوڑ دو مگر ان پر کوئی اثر نہ ہوا 

 

جب حضرت نوح علیہ السلام بولتے تو اپنی انگلیاں کانوں میں ڈال لیتے تا کہ کچھ سن نہ سکیںصرف چند لوگ تھے جو حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان لاے اور بتوں کو چھوڑ کر اللہ کی عبادت کرنا شروع کر دی۔

 

حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کی یہ سرکشی اور نافرمانی دیکھ کر اللہ کو پکارا اور کہا کے میں اس قوم کو سمجھا سمجھا کر تھک چکا ہوں اب تو ہی ان سے بدلہ لیے ۔اللہ نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کے تم ایک کشتی بناؤ اور ان لوگوں کو کشتی پر لیے جو جو مجھ پر ایمان لائے ہیں باقی سرکش لوگوں پر عذاب ضرور نازل ہو گا۔

 

ان سرکش لوگوں میں حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی تھا۔جب کشتی بن گئی تو پھر اللہپر ایمان لانے والے لوگوں کو لے کر حضرت نوح علیہ السلام کشتی پر سوار ہو گے۔تو اللہکے حکم سے زمین کے سوتے بھوٹ پڑے اور ساتھ ہی تیز بارش شروع ہو گئی زمین پر پانی بڑھنے لگا اور حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی پانی میں تیرنے لگی پانی بڑھتا جہ رہا تھا نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹا کو کشتی میں آنے کا کہا اور کہا کے اب بھی وقت ہے اللہ پر ایمان لاو تو اس عذاب سے بچ سکتے ہو مگر اس نے انکار کر دیا۔تو پھر پانی بڑھتا چلا گیا اور سارے سرکش اور نافرمان لوگ مر گئے صرف کشتی میں موجود حضرت نوح علیہ السلام اور ان لوگوں پر ایمان لانے والے اللہ کے عذاب سے محفوظ رہے تو اللہ نے حضرت نوح علیہ السلام کوحکم دیا کے کشتی سے اتر جو اور تم لوگوں پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں گی ۔اس توفان میں سب لوگر گے تھے یہے حضرت نوح علیہ السلام کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے کیوں ان کی اولاد دنیا میں ماجود ہے۔

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران