تصادم سے بچیں۔ قرآنی حکمت



تصادم سے بچیں۔ قرآنی حکمت

قرآن مجید کی پہلی سورت 610ء میں نازل ہوئی، اس وقت پیغمبر اسلام مکہ مکرمہ میں تھے۔ اس باب میں پیغمبر کو خدا کی طرف سے ایک ہدایت دی گئی کہ وہ اپنے لوگوں تک توحید (خدا کی وحدانیت) کا پیغام پہنچائے۔ اس باب کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:

 

"اے (محمدﷺ) جو کپڑا لپیٹے پڑے ہو ﴿۱﴾ اُٹھو اور ہدایت کرو ﴿۲﴾ اور اپنے پروردگار کی بڑائی کرو ﴿۳﴾ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو ﴿۴﴾ اور ناپاکی سے دور رہو ﴿۵﴾ اور (اس نیت سے) احسان نہ کرو کہ اس سے زیادہ کے طالب ہو ﴿۶﴾ اور اپنے پروردگار کے لئے صبر کرو ﴿۷﴾

" (74:7۔1)

 

اس وقت مکہ کے قصبے میں صرف ایک ملاقات کی جگہ تھی جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سامعین ملتے تھے - وہ خانہ کعبہ کا صحن تھا، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کی تھی۔ لیکن پرانے مکہ کے لوگ بت پرست تھے اور انہوں نے کعبہ کے احاطے میں تین سو ساٹھ بت رکھے تھے۔

 

بظاہر سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ان بتوں سے کعبہ کو پاک کرنا ضروری تھا۔ لیکن اس قسم کا آغاز سنگین مسائل پیدا کرنے کا پابند ہوتا۔ اس کا نتیجہ لازماً پیغمبر اور بت پرستوں کے درمیان تصادم کی صورت میں نکلتا۔

 

چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بہت ہی عملی طریقہ کا سہارا لیا۔ اس نے کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو نظر انداز کرنے کا فیصلہ کیا اور صرف سامعین کے پاس جاکر ان سے خطاب کیا اور انہیں قرآن کا پیغام پہنچایا۔ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فارمولہ یہ تھا کہ جمود کو قبول کریں اور ان مواقع سے فائدہ اٹھائیں جو سامعین کی موجودگی نے انہیں فراہم کی تھی۔

 

اس پالیسی کو غیر تصادم کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ یہ اتنا کامیاب ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مشن کو مزید تیرہ سال تک بغیر کسی تصادم کے جاری رکھنے میں کامیاب رہے۔ اس پالیسی کا اظہار قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: ’’اپنے کپڑوں کو پاک کرو‘‘ دوسرے لفظوں میں لوگوں کے دلوں کو پاک کرو اور بتوں کا مسئلہ اس وقت تک چھوڑ دو جب تک کہ حالات میں تبدیلی نہ آجائے۔

 

ہماری دنیا تنازعات اور اختلافات کی دنیا ہے۔ ایسی دنیا میں ایک بہت اہم سوال ہے کہ کہاں سے شروع کیا جائے؟ مندرجہ بالا مثال کی روشنی میں جواب یہ ہے کہ متنازعہ معاملات میں جمود کو قبول کریں اور اپنی سرگرمیوں کو غیر محاذ آرائی کی طرف موڑ دیں۔

 

تصادم کے طریقہ کار میں ایک سنگین نقصان ہوتا ہے، یعنی وقت اور توانائی کا ضیاع، جب کہ غیر محاذ آرائی کا طریقہ یہ ممکن بناتا ہے کہ آپ اپنا سارا وقت اور توانائی اپنے مقصد کے حصول کے لیے وقف کر دیں۔

 

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران