اعتماد


 

اعتماد

تمثیل چوہدری کا نام پورے ملک میں پروفیشنل ٹرینرز میں سرِفہرست تھا، کوئی یونیورسٹی یا کالج شاید ہی بچا ہو ملک بھرمیں جہاں اس کے سیمینار اور ورکشاپ منعقد نہ ہوئے ہوں۔ خود اعتمادی اور پرسنل کانفیڈنس پر جو منکہ انہیں حاصل تھا باقی ٹرینرز اِس کی گرد کو بھی نہ پہنچتے تھے۔

 

ایسا لگتا تھا کہ وہ پڑھاتے وقت ورکشاپ کے طالب علموں کی زندگیوں سے، اُن کے دلوں میں چھپے جذبات سے اور ذہنوں میں گردش کرتے سوالات و شبہات سے باخوبی واقف ہیں۔ عبداللہ نے آج ان کا انٹرویو کرنے کا فیصلہ کیا جو سب کو اِنٹرویو دینے کے گُر بتاتی ہیں۔

 

تمثیل آپ کا بہت شکریہ، مجھے معلوم ہے کہ آپ کتنی مصروف ہیں اور آپ کی مارکیٹ میں کیا مانگ ہے۔ آپ نے میرے چند سوالوں کا جواب دینے کی حامی بھری، آپ کی مہربانی۔

 

ڈاکٹر عبداللہ، میں لوگوں کو اِنٹرویو دینا سکھاتی ہوں مگر خود کبھی نہیں دیتی، آپ میری ورکشاپ میں آئے، جو درد اور تڑپ آپ کی آنکھوں اور لہجے میں تھی وہ تجاہل سے ماؤرا تھی۔ کوئی تو ایسی بات تھی کہ جب آپ نے انٹرویو کرنے کی فرمائش کی تو میں منع نہ کر پائی۔ خیر چھوڑیں، وقت شروع ہوا، آپ پوچھیں۔

 

آپ اپنے طالب علموں سے کیسے اس لیول پر کنیکٹ کر پاتی ہیں جس پر کوئی دوسرا نہیں پہنچ پاتا. جو فائدہ لوگوں کو آپ کی ورکشاپ سے ہوتا ہے وہ کہیں اور سے نہیں ہوتا۔ کیا وجہ ہے؟

 

عبداللہ بہت سادی سی وجہ ہے اور وہ ہے حقیقت۔ باقی ٹرینرز چند یوٹیوب ویڈیوز دیکھ کر، چند مشہور موٹی ویشنل اِسپیکرز کی ماورائی کتابیں پڑھ کر، اِسٹیون کوی ، رابن شرما اور دپیک چوپڑا کے محاورے یاد کرکے سمجھتے ہیں کہ “واؤ” فیکٹر پیدا کر لینے سے مسائل حل ہو جاتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے۔ یہ واؤ فیکٹر، کچھ قہقہے، بہت سی تالیاں اور ایک آدھ بار اِسٹینڈنگ اویشن تو دلا سکتا ہے مگر لوگوں کی زندگیوں پر، اُن کے عمل پر کوئی دائمی اثر نہیں چھوڑ سکتا۔ میں نے زندگی کو قریب سے دیکھا ہے، اِن حقیقتوں سے گزری ہوں، اِسی معاشرے میں پل کر جوان ہوئی ہوں۔ میں حقیقت اور ڈرامے میں فرق کر سکتی ہوں اور یہی وہ وجہ ہے کہ میں اپنے کلائنٹس کے مسائل سمجھ سکتی ہوں۔

 

اعتماد کی ٹھیس کسے کہتے ہیں؟

اعتماد کی ٹھیس اُمید کی موت ہوتی ہے۔ یقین کا اُٹھ جانا ہے۔ مایوسی کی نوید ہے۔ جب بندہ اپنے آپ سے مایوس ہو جائے، اپنے آپ سے ہار جائے تو وہ دنیا سے نہیں جیت سکتا۔ اعتماد کے ٹوٹنے کی اذیت، جنسی زیادتی جتنی ہوتی ہے کہ آپ کی مرضی و منشا کے بغیر، آپ کو بے دست و پا کرکے، مجبور و مظلوم جسم پر کوئی آری سی چلتی ہے، ظالم کو مزہ آتا ہے، مگر مظلوم کو ہر وار پہ جسم کٹتا ، گلتا اور سڑتا محسوس ہوتا ہے اور سرانڈ کی یہ بُو رہتی زندگی نہیں جاتی۔ ہر رات، ہر خواب، ہر دستک، ہر چوٹ، ہر جسم، کُل کائنات آپ کو ریپسٹ لگتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سب نے مل کے آپ کی عزت لوٹی ہے سب نے مل کے آپ کو مذاق کا نشانہ بنایا ہے۔ میں دونوں اذیتوں کو سمجھتی ہوں کہ دونوں سے گزری ہوں۔ جب بچے میرے پاس آ کر روتے ہیں کہ فلاں شخص نے میری عزت خراب کر دی تو میں ہنس پڑتی ہوں کہ نہ بابا، تمہیں تو پتہ ہی نہیں ہے کہ عزت خراب ہونا کسے کہتے ہیں۔

 

عبداللہ لوگوں کو سمجھنے کے لئے  واؤ  نہیں  “آؤچ”  فیکٹر درکار ہوتا ہے۔ میں لوگوں کو بتاتی ہوں کہ ذلت کسے کہتے ہیں اور انہیں اپنی عزت کا اندازہ ہو جاتا ہے بس اتنی سی بات ہے۔ یہ بہت ذاتی بات ہے، آپ کسی کو بتانا نہیں۔ اور کوئی سوال۔

 

عبداللہ کی آنکھ کے آنسو اس کے سارے سوال دھو چکے تھے۔

اُس نے بمشکل تمام کہا، جیتی رہیں۔

تمثیل نے اِسٹیج سنبھالا اور حاظرین سے مخاطب ہوئی،

آئیے، اِس دنیا سے اپنا اعتماد واپس لیتے ہیں۔




ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران