نبوت کا جھوٹا تیرہواں دعویدار: حکیم مقنع خراسانی

نبوت کا جھوٹا تیرہواں دعویدار: حکیم مقنع خراسانی


نبوت کا جھوٹا تیرہواں دعویدار: حکیم مقنع خراسانی

آج ہم آپ کے سامنے نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی سیریز  کے  تیرہویں جھوٹے دعویدار کا تعارف کروانے جا رہے ہیں،ان سب  کے تعارف کروانے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ تاریخ میں کیسے کیسے شعبدہ باز آئے ،کسی فن میں معمولی قابلیت پائی تو کیسے اپنے آپ سے ہی  باہر ہوگئے،خودکو نبی  سے بھی  آگے یعنی  خدا ہی سمجھنے لگے،اور ان کے تعارف دوسرا مقصد یہ ہے کہ  ان  جیسی شعبدہ بازیاں دور حاضر  میں   موجود ہیں،ان کے بل بوتے پر ہر کچھ عرصے بعد کوئی نہ کوئی نبوت کا جھوٹا دعویدار کھڑا ہو جاتا ہے، بعد والے نبوت کے جھوٹے دعویدار  کے اقدامات ماضی میں کس جھوٹے دجال سے ملتے ہیں، اس تعارفی سیریز  اسے اسے    سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔آج ہم جس  نبوت کے جھوٹے دعویدار کا تعارف کروانے جا رہے ہیں ،تاریخ میں اسے  حکیم  مقتع خراسانی کے نام سے جانا جاتا ہے۔تاریخ ابن خلکان،الکامل فی التاریخ ،اور الفرق بین الفرق میں اس کے حالات کو قلمبند کیا گیا ہے،ابو القاسم رفیق دلاوری نے بھی اپنی کتاب جھوٹے نبی میں اس کا ذکر کیا ہے۔ حکیم مقنع کے نام میں اختلاف ہے۔ بعض  مورخ  اسے  ہشام یا ہاشم  اور کچھ ابن مقنع بھی لکھتے ہیں۔ ابن مقنع کی وجہ تسمیہ یہ  بتائی  جاتی ہے کہ یہ  نبوت کا جھوٹے دعویدار اس حد تک بد صورت تھا کہ لوگ اس  کی شکل سے نفرت کرتے تھے۔ یہ شخص خراسان کے ایک معمولی گاؤں میں ایک دھوبی کے گھر پیدا ہوا۔   گاؤں میں دھوبی کے پیدا ہونے کی وجہ سے اس کی  کوئی پہچان نہ تھی۔ بدشکل ایسا تھا کہ  لوگ کراہت محسوس کرتے تھے جس کی وجہ سے لوگ اس کو اپنے قریب نہیں  آنے دیتے تھے۔ لوگوں کی اس نفرت کی وجہ سے  اس کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ  وہ لوگ جو اسے قریب نہیں آنے دیتے،ایک دن ان پر اس نے   حکمرانی کرنی ہے۔ اسلام کی تعلیمات وہاں ابھی درست طریقے سے نہیں پہنچی تھیں، یہی وجہ ہے کہ  وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب  ابن مقنع نے خدائی کا دعویٰ کیا تو بہت سے لوگوں نے اس پر اعتبار کرلیا۔وہ پیدائشی طور پر خاصا بدصورت اور کالے رنگ کا مالک تھا۔چہرے پہ چیچک کے نشان تھے۔وہ جوانی میں گھر سے گیاتھا۔عرصہ دراز تک اس نے گھوم پھر کر تعلیم حاصل کی ۔دیار غیرکی خاک چھانی اورخاصا علم حاصل کیا۔پہلے پہل گاؤں میں واپس آنےکے بعداس نے خود کو پیغمبر کہناشروع کر دیا۔جب خاصےلوگ اس پر ایمان لے آئےتو وہ انہیں لےکر ماورالنہر کےعلاقے کش میں پہنچ گیا،وہ علاقہ اس کے مقاصدپر پورااترتا تھا۔وہاں اس نے ایک قلعہ تعمیر کر لیا۔ایک پہاڑی علاقہ ہونےکی وجہ سے جنگ میں اسےمضبوط دفاع حاصل تھا۔پیسہ دولت اس نےاس علاقے سےگزرنےوالےقافلوں کولوٹ کھسوٹ کرحاصل کی،وہ دوردورتک مشہور ہوگیا۔لوگ اسےدیکھنےاوراس سے بحث مباحثہ کرنےآتےتھے۔وہ اپنی بدصورتی چھپانےکےلیےسونےکاماسک یانقاب ہروقت چہرےپر چڑھائےرکھتاتھا۔  اس نے علم کیمیا اور دیگر علوم و فنون سیکھ رکھے تھے۔ وہ  کافی عرصہ  اپنے علاقے  سے  غائب رہنے کے بعد  نئے انداز میں   خلافت عباسیہ  میں ظاہر ہوا تھا،جب یہ ظاہر ہوا،تب عباسی خلیفہ مہدی کی  حکومت تھی۔حکیم مقنع کا عقیدہ تھا کہ خدا تعالیٰ نے آدم کوپیدا کرکے اس کے جسم میں خود حلول کیا، اس کے بعد اس نے سیدنا  نوح میں حلول کیا، پھرابومسلم خراسانی میں  اور اب  ہاشم  یعنی  مجھ میں،یہ ابو مسلم خراسانی کی زندگی میں اس کا بھی دست بازو رہاتھا،  یہ   کہتا تھا کہ میرے اندر خدا کی روح ہے، یعنی مجھ میں خدانے حلول کیا ہے، اس کا یہ عقیدہ درحقیقت وہی تھا جوعلاقۂ راوند کے لوگوں کا تھا ۔جنھوں نے منصو رکے زمانہ میں ہاشمیہ کے اندر فساد برپا کیا، یہ سب لوگ ابومسلم خرسانی کی جماعت کے لوگ تھے ۔ ابومسلم  کی  دعوت وتبلیغ کا انداز  بہت عجیب تھا۔ وہ جس حیثیت اور جس قسم کے لوگ دیکھتا تھا، اُنھیں  وہ اپنی دعوت کا رنگ ان  کے  مطابق تبدیل کرکے اُن کے سامنے پیش کرتا تھا،  آپ اس وقت کے جتنے بھی گمراہ فرقے دیکھیں  گے،سب کے سب   دعوتِ اہلِ بیت کومختلف سانچوں میں ڈھالتے نظر آئیں گے،یہ بھی ویسا ہی کرتا تھا ،حکیم  مقنع کے ظہور پربہت سے خراسانی اُس کی پیروی کرنے لگے تھے  اور اس کے آگےسجدہ  نشین ہوتے تھے حکیم مقنع نے قلعہ بسام میں قیام کیا، اہلِ بخارا، اہلِ صغد اور اس وقت کے  بعض  ترکوں نے عباسیوں کے خلاف اس کی حمایت  کی  ۔اس نے ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں کوقتل کرنا شروع کردیا، اُس طرف کے عباسی   گورنروں  ابوالنعمان، جنید اور لیث بن نصر بن سیار نے  اس کامقابلہ کیا، لیث کا بھائی محمد بن نصر اور بھتیجا حسان بن تمیم اس لڑائی میں  قتل ہوگئے، مہدی کوجب یہ خبر پہنچی تواس نے جبرئیل بن یحییٰ کوان لوگوں کی مدد کے لیے روانہ کیا، جبرئیل کے بھائی کوبخارا  اورصغد کے باغیوں کی سرکوبی پرمامور کیا،  سب سے پہلے اہلِ بخارا اورصغد پرحملہ کیا گیا، چار مہینے کی جنگ کے بعد بخارا وغیرہ کے قلعوں کومسلمانوں نے فتح کیا، سات سوباغی مارے گئے، باقی مقنع کی طرف بھاگ گئے، مہدی نے ایک کمانڈر  ابوعون کوچند روز کے بعد جنگ مقنع کے لیے روانہ کیا تھا؛ مگران سرداروں سے مقنع مغلوب نہ ہوسکا ۔اس کے بعد معاذ بن مسلم کوروانہ کیا گیا ، معاذ بن مسلم کے مقدمۃ الجیش کا افسر سعید حریشی تھا، پھرعقبہ بن مسلم کوبھی اس لشکر میں شریک ہونے کا حکم دیا گیا، ان سرداروں نے مقنع کی فوج پرسخت حملہ کرکے اس کومیدان سے بھگادیا اور مقنع کا قلعہ بسام میں محاصرہ کرلیا،  دوران  جنگ  دو کمانڈروں  میں اختلافات پید اہوگئے ،  ایک  سعید نام کے کمانڈر   نے خلیفہ  مہدی کولکھ دیا کہ  اس اکیلے کو ابن مقنع  سے جنگ کیا اجازت دی جائے۔  مقنع بتیس ہزار آدمیوں کے ساتھ بسام کے قلعہ میں  محصور تھا،اس کے بعد سعید حریشی سے محصورین نے امان طلب کی، سعید نے امان دے دی، تیس ہزار آدمی قلعہ سے نکل آئے، صرف دوہزار مقنع کے ساتھ باقی رہ گئے، مقنع کوجب اپنی ناکامی کا یقین ہوگیا تواس نے آگ جلاکر پہلے  اپنے تمام اہل وعیال کو آگ میں دھکا دے کرجلادیا؛ پھر خود بھی آگ میں کود پڑا اور مرگیا، مسلمانوں نے قلعہ میں داخل ہوکر مقنع کی لاش آگ سے نکال کراس کا سرکاٹ کرمہدی کے پاس روانہ کیا۔یوں نبوت یہ جھوٹا دعویدار اپنے انجام کو پہنچا۔ناظرین آپ جس  نبوت کے جھوٹے دعویدار کے حوالے سے غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ اس نے کسی فن میں مہارت حاصل کی،اپنی اندر  اس دور کے حساب سے انفرادیت  پائی  ،اس  مہارت کی بدولت سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کیا اور کبھی نبی تو کبھی خدائی کا دعویدار بن بیٹھا،اس شخص  یعنی ابن مقنع کے بارے میں تاریخ میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ علم کیمیا کا ماہر تھا،اس نے مختلف کیمیائی عناصر کو ملا کر روشنی کا ایک ایسا نظام متعارف کروایا تھا جس سے رات کے اندھیرے میں روشنی پیدا ہوتی تھی اور تقریبا اٹھارہ میل کا علاقہ روشن ہوجاتا تھا،لیکن یہ مہارت اسے راہ راست پر لانے کی بجائے گمراہ کر گئی ،بالا خر اس کا بھی وہی انجام ہوا جو باقی  نبوت کے جھوٹے دعویداروں کا ہوا تھا۔

تحریر : (ڈاکٹر ایم ۔اے رحمن )

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران