نبوت کا چوہدواں جھوٹا دعویدار:علی بن محمد خارجی

نبوت کا چوہدواں جھوٹا دعویدار:علی بن محمد خارجی


نبوت کا چوہدواں جھوٹا دعویدار:علی بن محمد خارجی

آج ہم آپ کے سامنے نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی سیریز  کے  چوہدویں  جھوٹے دعویدار کا تعارف کروانے جا رہے ہیں۔ناظرین عرب کی سرزمین کو یہ شرف  حاصل ہے کہ یہاں اللہ کے آخری نبی  تشریف لائے۔ اور یہیں سے ساری دنیا میں ہدایت  کا اجالا پھیلا۔ اسی سرزمین پر اللہ کے فرشتے، جبرئیل اس کا آخری  پیغام لے کر آتے تھے اور یہیں اللہ کی کتاب قرآن کریم کا نزول ہوامگر اسی کے ساتھ ایک دوسرا پہلو بھی ہے کہ اسی سرزمین پر اللہ کے دشمنوں اور دنیا کے سب سے بڑے بڑے جھوٹوں کا ظہور بھی ہوا ،جن کے جھوٹے ہونے کی گواہی خود رسول اکرم(ص)نے دی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دنیا میں احمقوں کی کمی نہیں، دعویٰ کسی کا خواہ کتنا ہی لایعنی ہو مگر اس کے کچھ نہ کچھ حامی ضرور نکل آتے ہیں۔ایسے   ہی  نبوت کے جھوٹے دعوایداروں میں  سے ایک  علی بن محمد خارجی ہے۔ابو القاسم رفیق دلاوری نے اپنی کتاب جھوٹے نبی میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔یہ قبیلہ عبد القیس  اور خوارج کے ایک ذیلی فرقے سے تعلق رکھتا تھا،یہ رے  شہر کے مضافات میں پیدا ہوا۔شروع میں اس نے اپنا ذریعہ معاش یہ بنایا تھا کہ اصحاب اقتدار کی مدح سرائی میں کلام لکھا کرتا اور  انعامات وصول کرتا۔فقط یہی  اس  کاذریعہ  معاش تھا۔یہ میں آپ کو مستنصر عباسی کے دور  کا واقعہ بتارہاہوں  ،اسی دوران اس نے اصحاب اقتدار میں  کافی اثرو رسوخ  حاصل کر لیا،پھر اس کے دل میں فرقہ واریت  یا گروہ بندی کے خیالات پیدا ہوئے، چنانچہ اپنے اسی اثرو رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے دو انچاس ہجری میں    یہ شخص بغداد سے بحرین چلاگیا اور وہاں اپنی نبوت کا دعویٰ کردیا، لوگوں کو اپنی پیری کا درس دینے لگا۔ اس نے اپنا ایک آسمانی صحیفہ بھی بنارکھا تھا جس کی بعض سورتوں کے نام سبحان، کہف اور ص تھے،اور کہتا تھا کہ خدا نے میری نبوت وامامت کی  بہت سی نشانیاں ظاہر کی ہیں۔ بحرین کے اکثر قبائل نے اس کی نبوت کو تسلیم کرلیا۔ بعض عمائدین اس کی فوج کے افسر مقرر ہوئے۔ بہبود زنگی کو  اس نے امیر البحر مقرر کیا ۔ پانچ  سال اس نے  بحرین میں گزارے،اس  کے بعد دوسو چون ہجری  میں پھر اپنے مریدوں کو کہنے لگا کہ خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں بحرین سے بصرہ کی جانب سفر کروں اور وہاں لوگوں کو ہدایت کی طرف لاوں، چنانچہ  چند مریدوں  کے  ساتھ بصرہ پہنچ گیا ،وہاں حکومت  مخالف دو قبیلوں میں باہمی  فساد چل رہاتھا،اس نے ایک قبیلے کو ساتھ ملانے کی کوشش  کی،اور وہاں حاکم وقت محمد بن رجا کیخلاف سرگرمیاں شروع کردیں،یہ راز فاش ہوگیا۔ محمد بن رجا نےچند سپاہیوں کو اس کی گرفتاری پر معمور کیا، گرفتاری کی کوشش کی مگر یہ بھاگ کر بغداد آگیا لیکن اس کی بیوی  اور بچے گرفتار ہوگئے۔ ایک سال یہ بغداد میں رہا،لیکن وہاں سے بصرہ کے حکومت مخالف  قبیلوں سے رابطے میں رہا ۔بالاخر ان دونوں قبیلوں نے محمد بن رجا کو بصرہ سے نکال دیا ،اور اپنے قیدیوں کو آزاد کر والیا۔چنانچہ اس کے بعد   ان دونوں قبیلوں نے اسے بالاتفاق گورنر نامزد کر دیا۔ محمد بن رجا کیخلاف  کامیاب بغاوت کے بعد دو سو پچپن میں  یہ دوبارہ بصرہ پہنچ گیا اور اعلان کردیا کہ جو زنگی غلام میری پناہ میں آجائیں گے ان کو آزاد کردیا جائےگا ۔ اسی طرح اس نے غلاموں کی ایک کثیر جماعت اپنی ہم نوا بنالی، اس جماعت کو ایک لشکر میں تبدیل کرکے اس  نبوت کے جھوٹے دعویدار   نے  اپنے ارد گرد   ڈاکے مارنے شروع کردیے۔زنگیوں کے سردار  بڑے پریشان ہوئے، مسلسل نوسال تک علی بن محمد ان زنگی غلاموں کی وجہ سے ناقابل شکست رہا۔اس نے اپنے غلاموں کے ساتھ مل کر خوب لوٹ مار کی،اس دوران اس  خطے میں فاقہ کشی اور جنگی تباہی ا وربربادی  کی وجہ سے یہ صورت حال ہوگئی   کہ انسان نے انسان کو کھان شروع کردیا۔ آخر کار خلیفہ نے اپنے بھتیجے ابو العباس کو لشکر دے کر اس  کے مقابلے کے لیے بھیجا۔ ابو العباس نے کئی محاذوں پر علی بن محمد خارجی  اور ا سکے حامیوں   کو شکست سے دوچار کیا۔ جب اس نبوت کے جھوٹے دعویدار کو مسلسل  شکستوں کی اطلاعات ملنے لگیں  تو اس نے ساری فوجوں کو یکجا  کیا اور پھر انہیں   حملے کا حکم دیا ،اس کی اس جمعیت کی خبر ابو العباس کے والد یعنی  موفق کے جاسوسوں نے اسے بھی پہنچا دی  ،اس نے خلیفہ سے درخواست کرکے   خود ایک  لشکر  تیار کیا اور اپنے بیٹے کے لشکر کے ساتھ آملا۔اب دونوں  کی جمعیت نے  مل کر  علی بن محمد خارجی کے لشکر کے ساتھ آمنے سامنے جنگ کا فیصلہ کیا،چنانچہ  ان دونوں نے مل  کر  علی اور اس کے  حامیوں کو عبرت ناک سبق سکھایا، ور ان کے مرکز منصورہ شہر پر قبضہ کرلیا۔  موفق نے اپنے بیٹے ابوالعباس کے ساتھ مل کر نبوت کے اس جھوٹے دعویدار  کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے ان کی  پناہ گاہ  کے قریب پہنچ گئے، جہاں کذاب علی بن محمد خارجی خود بھی  موجود تھا، آخر کارستائیس محرم دو سو ستر ہجری  کو طویل ترین جنگ کے بعد موفق نے شہر پر مکمل قبضہ کرلیا،نبوت کے جھوٹے دعویدار علی کے بڑے بڑے سردار  گرفتار کرلیے مگر کذاب پھر بھی ہاتھ نہیں آیا، وہ اپنے  چند افسروں  کے ساتھ   شہر سفیانی کی طرف بھاگ گیا ۔لیکن اسلامی لشکر کہاں رکنے والا تھا،اس نے اس کا  تعاقب کیا اور  کذاب علی بن محمد خارجی کا کام تمام کردیا۔یوں نبوت کے اس جھوٹے دعویدار کا یہ فتنہ  اپنے انجام کو پہنچا۔جو بھی فتنہ پیدا ہوا،اس کی ایسے ہی سر کوبی کی گئی،ہردورکے فتنوں کا دائرہ بہت وسیع رہا  ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ ہر دور میں اس دور کی ضروریات کے مطابق لوگ پیدا کر کے انہیں کام پر لگا دیتاہے، جو دین کے حوالے سے جنم لینے والے فتنوں کا کھوج لگاتے ہیں، ان کی نشان دہی کرتے ہیں، لوگوں کو ان سے متعارف کراتے ہیں اور ان سے بچنے کے اسباب اور طریقہ کار کے بارے میں راہ نمائی کرتے ہیں۔ناظرین ۔تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ   ماضی میں بہت سے فتنے سر اٹھاتے رہے ہیں جنہوں اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ ان فتنوں میں ایک بڑا فتنہ عقیدۂ ختم نبوت سے انکار اور نبوت کے ٹائٹل کے ساتھ نئے مذہبی گروہ متعارف کرانے کا فتنہ  رہاہے جس نے دورِ حاضر میں بھی  مختلف حوالوں سے عالمِ اسلام میں اپنا جال پھیلا رکھا ہے، سیدنا رسول کریم (ص) کا واضح ارشاد   موجود ہے کہ وہ آخری نبی ہیں اور ان کے بعد قیامت تک کسی اور کو نبوت کا منصب نہیں ملے گا، اور قیامت تک کا زمانہ ان کی نبوت کا زمانہ ہے ،اس لیے کوئی اور نیا نبی اس منصب پر فائز نہیں ہوگا جس کی ایک وجہ علامہ اقبالؒ نے یہ بیان کی ہے کہ نبوت کا منصب چونکہ دین میں آخری اتھارٹی ہوتا ہے اور اس کے بدلنے سے مرکز وفاداری اور اتھارٹی دونوں تبدیل ہو جاتے ہیں، اس لیے قیامت تک سیدنا رسول کریم (ص) کا دور نبوت جاری رہنے کا منطقی تقاضہ یہ ہے کہ کوئی اور نبی نہ آئے اور سیدنا رسول کریم (ص)کی حتمی اتھارٹی اور امت کے مرکز وفاداری میں کوئی شریک پیدا نہ ہو۔ مگر اس کے باوجود ہر دور میں نبوت کے جھوٹے دعویدار سامنے آتے رہے ہیں جنہیں امت مسلمہ نے قبول نہیں کیا اور وہ اپنے الگ گروہوں کے ساتھ کچھ وقت گزار کر تاریخ کا حصہ بن جاتے رہے ہیں۔

تحریر  : (ڈاکٹر ایم ۔اے رحمن )

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران