نبوت کا پندروان جھوٹا دعویدار :حمدان بن اشعث

نبوت کا پندروان  جھوٹا دعویدار :حمدان بن اشعث


نبوت کا پندروان  جھوٹا دعویدار :حمدان بن اشعث

نبوت کے جھوٹے دعویداروں کے سلسلے کی اگلی تحریر آپ کے سامنے پیش کرنے جارہے ہیں،آج جس کا تعارف آپ کے سامنے رکھیں گیں ،تاریخ میں اسے حمدان بن اشعث کے نام سے جانا جاتا ہے۔تاریخ اسلام کے مشہور فرقہ قرامطہ کے بانی یہی شخص ہے۔اس فرقے نے اسلام  اور شعائر اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ۔ اس شخص کا قد چھوٹاتھا،چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ چلتا تھا،اسی  وجہ سے اسے قرمط کہا جانے  لگا،اسی  مناسبت سے اس کے پیروکاروں کو  قرامطہ  کہاجانے لگا۔تاریخ ابن خلدون،تاریخ مصر وفاطمیین  اور ابو قاسم رفیق دلاوری کی کتاب جھوٹے نبی میں اس کے حوالےسے تفصیل موجود ہے۔

 

حمدان بن اشعث پندرہ سال تک احمد بن عبد اللہ ( مستور ) کی طرف سے کوفہ  میں داعی مقررتھا ۔یہ احمد بن عبد اللہ دوسو بیالیس  ہجری   میں مرا۔  اس  کے مرنے کے بعد اس کا  بیٹا حسین اس کا  جانشین مقرر ہوا، اس نے  حمدان کو ایک خط لکھا، حمدان کی روایت کے مطابق اس خط کا مضمون  حسین کے باپ احمد کے  لکھے گئے پہلے  خطوط کے مضمون سے الگ تھا ۔ اس نے    حسین  سے اس خط  کے مضمون کے بارے میں   پوچھنے کےلیے اپنا ایک نمائندہ بھیجا۔  اور یہ معلوم کروایا کہ تم کسے امام کہتے ہو،تو حسین نے  جواب دیا کہ میرے باپ کے سوا   کوئی دوسرا امام نہیں ہو سکتا اور میں اپنے باپ کا جانشین ہوں۔ یہ سن کر  حمدان کا ایلچی  واپس آگیا اور سارے واقعے کی خبر حمدان کو دی ۔ حمدان نے اپنے تمام  مریدوں  کو جمع کرکے کہا کہ انہیں  کہا کہ انہین اب حسین  کی دعوت سے  الگ ہوجانا چاہیئے۔کیونکہ وہ گمراہ ہوگیا ہے،ہم اپنی الگ شناخت قائم کریں گے۔ان مریدوں  نے  اس کے حکم کی تعمیل کی، لیکن ان کے علاوہ کوئی اور اس میں  شامل نہ ہوا۔   ان کی دعوت کا غلبہ کوفہ میں ہونے لگا۔حسین سے الگ ہونے کے بعد حمدان نے دو سو ارسٹھ ہجری میں اپنا الگ مذہب کا دعوی کیا۔یہیں سے  قرامطہ کی دعوت  کا آغاز ہوا۔ کوفہ کے نبطی اور عرب قبیلے کثرت سے اس کے  دعوی  نبوت اور دعوت کو قبول کرنے   لگے۔ حمدان نے اپنی مدد کے لیے  اپنے مبلغوں کی ایک جماعت تیار کرلی ۔ ہر داعی ایک حلقے کا نگران مقرر ہوا۔اس طرح حمدان  اپنی قوت اور طاقت بڑھانے لگا ۔پھر اس نے اپنے مریدوں پر معمولی ٹیکس نافذ کر دیا،تاکہ  مالی مشکلات کا حل کیا جاسکے۔ان  ٹیکسز کا نام  اس نے فطرہ، ہجرہ، بلغہ، خمس اور الفہ رکھا۔ ہر ایک  ٹیکس کےلیے  قران کریم  کے مفہوم میں تحریف کرکے تائیدی آیت نکال لی ۔ الفہ کی شرح کے مطابق تمام مریدوں کو حکم دیا کہ وہ اپنا  منقولہ اور غیر منقولہ مال نگران  داعی کے خزانے میں جمع کرادیں۔ کسی کے قبضے میں کوئی مال نہ ہو۔ تاکہ مالی حیثیت سے ایک دوسرے کو کوئی فوقیت نہ رہے اور سب انسان برابر ہوں۔ ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق داعی کے خزانے سے رقم دی جائے گی۔ سب ایک سی زندگی بسر کریں گے اور عیش  وعشرت سے محفوظ رہیں گے ۔ اس طرز عمل کے لیے بھی قران کریم  کے مفہوم میں تحریف کرکے اسے   بنیا د بنایا۔ لوگوں کو  قائل کیا گیا کہ اپنے پاس مال رکھنے کی  ضرورت نہیں، کیوں کہ وہ ساری  روئے زمین کے مالک بننے والے ہیں۔ یہ زمانہ ان کے امتحان کا ا ور آزمائش کا ہے ۔اس دوران  ان کے خلوص ا ور ایمان داری کا  امتحان  ہو گا۔ انہیں صرف ا س بات کی اجازت دی گئی کہ وہ ہتھیار خرید کر گھر میں رکھیں۔اس نظام کو خوش اسلوبی سے چلایا گیا  کہ کوئی فقیر یا محتاج نہ رہا۔ سب لوگ  اپنے فرائض نہایت ذمہ داری  سے ادا کرنے لگے۔ یہاں تک عورتیں اور بچے بھی اپنی کمائی خوشی خوشی اس کےخزانے مین جمع کروانے لگے۔جب حمدان نے دیکھا کہ اس کے پیرو  کار  اس کی ہر بات  خوشی سے تسلیم کر رہے ہیں تو اس نے اپنے مریدوں کو بتدریح ایک اور طرح کی تعلیم دینی شروع کی۔ جس سے ان کا پہلے والا تقویٰ جس کی انہیں پہلے تعلیم دی گئی تھی،وہ  بالکل   ختم ہوگیا،وہ گناہوں کی دلدل  میں اترنے لگے ۔ انہیں  کہا گیا  کہ ایک خاص حد  تک پہنچنے کے بعد شریعت کے ظاہری اعمال معطل ہوجاتے ہیں۔ اب نماز اور روزے وغیرہ کی ضرورت نہیں۔ امام  جعفر صادق کی معرفت ہی  کافی ہے۔ ایسی تعلیم کا نتیجہ وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ قرامطہ کی اخلاقی حالت بگڑی اور ایسی بگڑی کہ وہ ہر قسم کی بدکاری میں مبتلا ہو گئے۔ یہ بھی ان سے کہا گیا کہ تمہارے مخالفین کا خون تمہارے لیے حلال ہے۔ جو لوگ تمہاری مخالفت نہ کریں لیکن تمہارے مذہب میں داخل نہ ہوں، ان سے بھی جزیہ وصول کیا جائے۔ ہتھیار رکھنے  کی ہدایت تو انہیں پہلے کی جاچکی تھی۔ انہوں نے ایسی خون ریزی شروع کی کہ ارد گرد کے لوگ چیخ اٹھے۔ اتنی قوت انہیں حاصل ہو گئی کہ دو سو اناسی  ہجری میں انہوں  نے ایک دارلہجرت بنایا ،اسے مضبوط فصیل سے محفوظ کرکے اس کے گرد خندق کھودلی۔ اب دوسری ریاستوں  کے حاکم ان سے خوف کھانے لگے۔یہیں سے ان کے سیاسی دور کا آغاز ہوا۔

 

دین اسلام کے مقابلے میں ایک نئے مذہب قرمطی یا قرامطہ کی بنیاد ڈالی۔ اس نے سب سے پہلے اپنے ماننے والوں پر پچاس  نمازیں فرض کیں مگر لوگوں کی شکایات پر ا نہیں کم کردیا۔ دو رکعتیں  فجر سے پہلے اور دو غروب آفتاب سے پہلے مقرر  کردیں ۔ اذان میں بھی  تبدیلی  کردی۔فرض روزوں کی تعداد صرف دو کردی ۔ ایک مہرجان  کے دن اور دوسرا ا نو روز کے دن۔ شراب حلال کردی ،غسل جنابت کو ختم کردیا ۔ تمام درندے اور پنجے والے جانور حلال کردیے ۔بیت اللہ کی بجائے قبلہ بیت المقدس کو قرار دیدیا۔ اس پر دلیل یہ  دی کہ یہ سب کچھ  عیسی ٰ بن مریم نے  مجھے آکر  بتایا ہے۔

 

جب کوفہ کے  حاکم  ہضیم  کو معلوم ہوا کہ حمدان نے دین اسلام کے مقابلے میں ایک نیا دین جاری کیا ہے ۔نبی آخر الزمان  کی  شریعت میں   اپنی طرف سے تحریف کر رہاہے۔ اس نے اس کو گرفتار کرلیا اور قصر امارت میں ہی اسے ایک کوٹھری میں بند کردیا۔اور اعلان کروادیا کہ اس پر مقدمہ ہوگا۔اگر اس پر الزامات ثابت ہوگئے تو یہ قتل کیا جائے گا۔اس کے بعد  یہ شخص وہیں پابند سلاسل کیاگیا ،لیکن وہاں ھالت قید میں اس نے     ہضیم کی ایک رحمدل لونڈی کو ورغلایا اور اس کے ذریعے وہاں سے بھاگ گیا۔بعد میں جب تفتیش کی  تو اس لونڈی نے بتادیا کہ مجھے اس پر رحم آگیا تھا،اس لیے میں نے قید خانے کی چابی چرا کر اسے نکلوادیا،مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ اتنا بڑا مجرم ہے۔لیکن حمدان نے اس فرار کو بھی اپنے حق میں استعمال کیا اور یہ مشہور کر وادیا کہ   خدائےواحد نے حمدان کو آسمانوں پر اٹھالیا ہے۔ اس کےکچھ عرصے   حمدان  ظاہر ہوگیا۔لوگوں نے   اس سے پوچھا کہ حاکم کوفہ کے  قید خانے سے کیسےنکلے تو  حمدان بڑے فخر ا ورغرور سے کہتاکہ کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔اس پر لوگوں کا اس کے بارے اعتقاد مزید بڑھ گیا۔ لیکن یہ بڑا تیز تھا،اسے ہر وقت یہ ڈر لگا رہتا کہ کہیں دوبارہ گرفتار نہ کرلیا جاوں،اور یہ اتنے سارے مرید کہیں کھو نہ جائیں۔اس لیے وہ ملک شام کی طرف بھاگ گیا۔ تاریخ کی کتب میں ہے کہ وہاں وہ   ایک نبوت کا جھوٹا دعویدار  علی بن محمد خارجی کے پاس  پہنچا اوراس کے سامنے اپنا  دعوی رکھا   کہ میں ایک مذہب کا بانی اور نہایت صائب الرائے ہوں، ایک لاکھ سپاہی اپنے لشکر میں رکھتا ہوں۔ اب اگر تم میرے ساتھ شامل ہوجاو تو ٹھیک،ورنہ ہم مناظرہ کرلیتے ہیں ۔تاکہ ہم ایک مذہب پر متفق ہوجائیں،اور ضرورت کے وقت ہم ایک دوسرے کی معاونت کر سکیں ۔لیکن  ان کا طویل مباحثہ بے نتیجہ ثابت ہوا۔جب وہاں دال نہ گل سکی تو حمدان مایوس ہوگیا کہ کوفہ کی حکومت بھی اس کے پیچھے ہے اور  یہاں بھی اسے کوئی گھاس نہیں ڈال رہا،یوں وہ مایوس ہوکر گوشہ نشین ہوگیا۔اس کے بعد وہ خود تو روپوشی میں مرا ،لیکن اس کے تیار کردہ  فسادی گروہ قرامطہ نے عالم اسلام کو  جو شدید نقصان پہنچایا وہ آج تک کوئی دوسرا نہیں پہنچا سکا۔ انہوں نے  ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو عین حج کے زمانے میں  بیت اللہ میں قتل کیا۔ حجرا اسود اکھاڑ کر اپنے دارلہجرت لے گئے اور دس برس تک لوگ ان کے خوف سے حج ادا نہ کرسکے۔تین سو چھیاسٹھ ہجری میں  قرامطہ نے اپنی سرادری کےلیے   دو افراد جعفر اور اسحاق  منتخب کیے ۔ کچھ دنوں کے بعد ان میں اختلاف ہو گیا اور اس کے دونوں سرداروں  کے اپنے خاندان میں خانہ جنگیاں شروع ہوگئیں۔ جس کی وجہ سے قرامطہ کا شیرازہ بکھرنے لگا ور  زور ٹوٹ گیا ۔بالاخر تین سو اٹھانوے ہجری  میں   ایک لڑائی  میں اصغر بن ابو الحسن ثعلبی نے  انہیں شکست دی اور اس کے بعد  ان کی ریشہ دوانیوں سے بڑی حد تک عالم اسلام محفوظ ہوگیا اور عالم اسلام کو اس عظیم فتنے سے نجات نصیب ہوئی۔

 

دین اسلام کی اصل روح عقیدہ ختم نبوت ہے اور اسی عقیدہ پر پختہ ایمان ہی اسلام کی بنیاد ہے۔ اس عقیدہ میں کسی قسم کا ریب و شک، گویا پورے دین کو منہدم کرنے کے مترادف ہے لہذا ختم نبوت کا عقیدہ بنیادی اور اساسی عقیدہ ہے اس کے بغیر کسی کا بھی عقیدئہ و ایمان مسلمانوں کے نزدیک معتبر نہیں ہوسکتا۔عقیدہ ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ م  سیدنا محمد کریم (ص)اللہ تعالی کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیا کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔اسی  ایمان پر ہمارا خاتمہ دربار الہی میں ہمیں  سرخرو کرے گا۔

تحریر : (ڈاکٹر ایم ۔اے رحمن )

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران