نبوت کے دوسرے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذاب کا تعارف

نبوت کے دوسرے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذاب کا تعارف


نبوت کے دوسرے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذاب کا تعارف

آج ہم نبوت کے جھوٹے  دعویداروں کے تعارف کے سلسلے کی دوسری  تحریر آپ کے سامنے رکھنے لگے ہیں،اس میں  میں آپ کو   تاریخ اسلام  میں نبوت کے جھوٹے دعویداروں  میں سے دوسرے معروف شخص مسیلمہ کذاب  کا تعارف کروایں گے۔

 

مسیلمہ کذاب کا  حقیقی نام مسیلمہ بن حبیب تھا ،  یمامہ کے قبیلے  بنو‌ حنیفہ سے اس کا تعلق  تھا۔ اس کی کنیت أبوثمامہ  تھی ۔یہ عرب میں نبی آخر الزمان  سیدنا محمد کریم (ص)  کی زندگی میں ہی نبوت کے مدعی کے طور پر سامنے آیا۔تاریخ طبری کے مطابق   ہجرت کے گیارہویں سال پیغمبر اکرمؐ کو ایک خط لکھا جس میں اس نے نبوت کا دعوی کرتے ہوئے اپنے آپ کو پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ کار رسالت میں خود کو شریک قرار دیا۔ جس پر رسول خداؐ نے انہیں مسیلمہ کذّاب کا نام دیا۔ پیغمبر اکرمؐ نے سیدنا حبیب بن زید بن عاصم کو اس کی طرف بھیجا لیکن جب سیدناحبیب   اس کے پاس پہنچے تومسیلمہ  نے پہلے اپنی نبوت کی تائید چاہی ،لیکن انہوں نے مسیلمہ کےنبوت کے جھوٹے دعوے  کی تأیید نہیں کی  ۔جس پرمسیلمہ نے انہیں شہید کروادیا ۔ اس نے ایک کتاب بھی وضع کی تھی جس کے دو حصے تھے پہلے کو فاروق اول اور دوسرے کو  فاروق ثانی  کہا جاتا تھا۔

 

یہ کذاب  شخص یمامہ کے لقب سے بھی مشہور تھا۔ اس کی خود ساختہ نبوت کا فتنہ کافی عرصے تک رہا جس کو بڑے بڑے صحابہؓ نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر جڑ سے اکھاڑ دیا جس وقت اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ،مورخین کے مطابق اس کی عمر سوسال سے بھی زیادہ ہوچکی تھی۔اس کی پیدائش نبی کریم (ص) کے والد گرامی عبداللہ سے بھی پہلے کی تھی،گویا یہ آپ  (ص) کے دادا کا ہم  عمر  تھا۔

 

تاریخ کی کتب میں مذکور ہے کہ ایک بار مسیلمہ نے دربار نبوی(ص) میں حاضر ہوکر آپ (ص) سے عرض کیا کہ مجھے اپنا جانشین مقرر فرمائیں، اس وقت آپ (ص) کے سامنے کھجور کی ٹہنی پڑی تھی۔ آپ (ص) نے اس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا! اے مسیلمہ اگر تم امرخلافت میں مجھ سے یہ شاخ  بھی مانگو تو میں دینے کو تیار نہیں۔ یہ جواب سن کر وہ مایوس لوٹ گیا۔ابن ہشام کہتے ہیں کہ یہ آپ (ص) سے  ملاقات کےلئے خود نہیں گیاتھا بلکہ  یہ اپنے کے پڑاؤ میں رک گیا تھا اور اس کا وفد نبی کریم (ص) کے پاس گیا تھا،اور اس نے یہ بات کی تھی اور آُپ اسے یہ جواب دیا تھا۔

 

لیکن بہر حال جب آپ (ص) کے دربار سے ناکام  ہوکر مسیلمہ کذاب  اپنے وفد سمیت  یمامہ واپس لوٹا تو اس نے اہل یمامہ کو جھوٹی یقین دہانی کرائی کہ رسول کریم (ص)  نے اسے اپنی نبوت میں شریک کرلیا ہے ۔ اپنی من گھڑت وحی اور الہام سنا سناکر کئی لوگوں کو اپنا ہم نوا اور معتقد بنالیا۔ جب آپ (ص) کو اطلاع ہوئی تو آپ (ص) نے اس کے ہی قبیلے کے ایک بااثر شخص نہار کو یمامہ روانہ کیا تاکہ وہ مسیلمہ کو سمجھا بجھاکر راہ راست پر لے آئے مگر یہ شخص بھی یمامہ پہنچ کر مسیلمہ کذاب کا معتقد بن گیا اور لوگوں کے سامنے اس کے شریک نبوت ہونے کی جھوٹی تصدیق کرنے لگا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسیلمہ کذاب کا حلقہ بڑھنے لگا۔ اپنے ہم نواؤں کی کثرت دیکھ کر مسیلمہ کذاب نے اپنے دماغ میں یہ بات پختہ کرلی کہ واقعی وہ حضور نبی کریم (ص) کی نبوت میں شریک ہے۔

 

چنانچہ پھر  مسیلمہ کذاب نے  نبی کریم (ص) کی خدمت میں ایک خط لکھا۔اس میں اس نے لکھا کہ : یہ خط مسیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ کے نام ہے ۔آپ کو یہ  معلوم ہونا چاہئے کہ میں امر نبوت میں آپ کا شریک کار ہوں۔ عرب کی سرزمین نصف آپ کی ہے اور نصف میری لیکن قریش کی قوم زیادتی اور ناانصافی کررہی ہے۔

 

یہ خط دو قاصدوں کے ہاتھ جب نبی کریم ،خاتم امرسلین  سیدنا رسول کریم (ص) کی خدمت اقدس میں پہنچایا گیا تو آپ (ص) نے ان قاصدوں سے پوچھا تمہارا مسیلمہ کے بارے میں کیا عقیدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھی وہ ہی کہتے ہیں جو ہمارا سچا نبی کہتا ہے۔ اس پر آنحضرت (ص) نے فرمایا کہ اگر قاصد کا قتل جائز ہوتا تو میں تم دونوں کو قتل کرادیتا۔خاتم المرسلین سید الانبیاء (ص) نے جواب میں مسیلمہ کو لکھا۔ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میں محمد رسول اللہ  مسیلمہ کذاب کو لکھ رہا ہوں۔

 

سلام اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے، اس کے بعد یہ جان لینا چاہئے کہ زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا مالک بنا دیتا ہے اور عاقبت کی کامیابی متقیوں کے لیے ہے۔

 

نبی کریم  (ص) کی حیات مبارکہ میں یہ مسئلہ کسی نہ کسی طرح چلتا رہا مگر آپ (ص) کے وفات کے بعد ہی مسیلمہ کذاب نے لوگوں کو اپنے دین اور جھوٹی نبوت کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک ایسے عامیانہ اور رندانہ مسلک کی بنیاد ڈالی جو عین انسان کے نفس امارہ کی خواہشات کے مطابق تھا، چنانچہ اس نے شراب حلال کردی، زنا کو مباح کردیا، نکاح بغیر گواہوں کے جائز کردیا، ختنہ کرنا حرام قرار پایا، ماہ رمضان کے روزے اڑادیے، فجر اور عشاء کی نماز معاف کردی، قبلہ کی طرف منہ کرنا  غیر ضروری قرار دیا، سنتیں ختم  کردیں،صرف فرض نماز رہنے دی ۔ان کے علاوہ اور بہت سی خرافات اس نے اپنی خود ساختہ شریعت میں جاری کردیں، یہ سب باتیں انسانی نفس امارہ کے عین مطابق تھیں اس لیے کم عقل لوگ اس پر ایمان لانے لگے۔ اس کا اثر یہ ہوا ہر طرف  برائی اور عیش کوشی کے شرارے بلند ہونے لگے اور اس کا پورا علاقہ فسق وفجور کا گہوارہ بن گیا ۔

 

اس نے کچھ معجزات دکھانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا بلکہ ذلیل و رسوا ہوا۔ مسیلمہ کذاب لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے شعبدہ بازی بھی کرتا تھا جس کو وہ اپنا معجزہ کہتا تھا اور وہ یہ تھا کہ اس نے ایک مرغی کے بالکل تازہ انڈے کو سِر کے میں ڈال کر نرم کیا اور پھر اس کو ایک چھوٹے منہ والی بوتل میں ڈالا ۔انڈہ ہوا لگنے سے پھر سخت ہوگیا ۔ مسیلمہ لوگوں کے سامنے وہ بوتل رکھتا اور کہتا کہ کوئی عام آدمی انڈے کو بوتل میں کسطرح ڈال سکتا ہے لوگ اس کو حیرت سے دیکھتے اور اسکے کمال کا اعتراف کرنے لگتے تھے۔

 

البدایہ والنہایہ کے مطابق،مسیلمہ نے  ایک مرتبہ ایک شخص کے باغات کی شادابی کی دعا کی تو درخت بالکل ہی  سوکھ گئے۔کنوؤں کا پانی بڑھانے کے لیے  رسول کریم (ص) کی طرح مسیلمہ نے اپنا لعاب  ڈالا تو کنویں کا پانی اور نیچے چلاگیا اور کنواں سوکھ گیا ۔بچوں کے سر پر برکت کے لیے ہاتھ پھیرا تو بچے گنجے ہوگئے۔ایک آشوب چشم پر اپنا لعاب دہن لگایا تو وہ بالکل اندھا ہوگیا۔بکری کے تھن پر ہاتھ پھیرا تو اس کا سارا دودھ خشک ہوگیا اور تھن سکڑ گئے۔لیکن اس کے باوجود خوہشات نفس کے پجاری اس کے گرد جمع ہوتے رہے۔مسیلمہ کذاب کی پذیرائی کو دیکھتے ہوئے  کئی  دوسرے  لوگوں کو بھی نبوت  کے جھوٹے دعوے کی جرأت ہونے لگی،طلیحہ اسدی بھی انہی  میں سے تھا ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایمان کی  فراست  سے  خلافت کے شروع  ہی میں ان تمام ہنگاموں کی قوت کا پورا اندازہ لگالیا تھا۔  منصب خلافت سنبھالتے ہی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا تقرر طلیحہ مدعی نبوت کے مقابلے میں کیا اور ساتھ ہی طلیحہ اسدی کے قبیلے سے سیدنا عدی بن حاتمؓ کو بھی روانہ کیاکہ ان کو سمجھاکر تباہی سے بچائیں۔ انہوں نے اپنے قبیلے کو بہت سمجھایا جس کے نتیجے میں قبیلہ طئے اور قبیلہ جدیلہ نے خلیفہ اسلام کی اطاعت قبول کرلی۔طلیحہ سیدنا خالد بن ولیدؓ کے مقابلے میں شکست کے بعد شام کی طرف بھاگ گیا جہاں کچھ عرصہ بعد دوبارہ حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔ امیر المؤمنین سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تمام فتنوں کی سرکوبی کے لیے مجموعی طور پر گیارہ لشکر ترتیب دیئے تھے، اس میں ایک دستہ سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابوجہل کی قیادت میں مسیلمہ کذاب کی سرکوبی کے لیے یمامہ کی طرف روانہ کیا اورہدایت کی کہ سیدنا شرجیل  بن حسنہ کی آمد سے پہلے حملہ نہ کرنا لیکن انہوں نے جوش جہاد میں حملہ کردیا ،لیکن کامیابی نہ مل سکی ،جب اس کی خبر خلیفہ اول کو ملی تو  انہوں نے فوراسیدنا خالد بن ولیدؓ کو اس مہم کےلئے تیاری کا حکم دیا ،آپ اس وقت تک بنی طئے کی مہم سے فارغ ہوچکے تھے۔آپ نے مسیلمہ کے خلاف معرکہ آراء ہونے کا حکم ملتے ہی تیاری شروع کردی۔سیدنا ابوبکر صدیق نے آپ کے ساتھ  مہاجرین پر سیدنا ابو حذیفہؓ اور سیدنا زید بن خطاب رضی الہ عنہ   اور انصار پر سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ اور سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کیا۔ جب سیدنا خالد رضی اللہ عنہ یمامہ پہنچے تو مسیلمہ کذاب کے لشکر کی تعداد چالیس ہزار تک پہنچ چکی تھی جبکہ مسلمانوں کا لشکر  صرف تیرہ ہزار نفوس پر مشتمل تھا۔ مسیلمہ کذاب نے جب سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کی آمد کی اطلاع سنی تو آگے بڑھ کر عقربانا نامی مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ اسی میدان میں حق وباطل کا مقابلہ ہوا۔ اس جنگ میں بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہوئے جن میں ثابت بن قیس، سیدنا زید بن خطاب رضی اللہ عنہما وغیرہ شامل ہیں۔ بیس ہزار سے زیادہ لوگ مسیلمہ کذاب کے مارے گئے جبکہ مسلمان شہداءکی تعدادبارہ سو کے لگ بھگ تھی۔ ان شہداءمیں  سات سو صحابہ کرامؓ قرآن کے حافظ تھے۔

 

مسیلمہ اس جنگ کے دوران ایک باغ میں قلعہ بند ہوکر چھپا رہا مگر لشکر اسلام نے قلعے کا دروازہ توڑ کر حملہ کردیا اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی بن حرب  رضی اللہ عنہ نے جو مسلمان ہوچکے تھے، اپنا مشہور نیزہ پوری قوت سے مسیلمہ پر پھینکا جس کی ضرب فیصلہ کن ثابت ہوئی اور مسیلمہ زمین پر گرکر تڑپنے لگا۔ قریب ہی ایک انصاری صحابیؓ کھڑے تھے، انہوں نے اس کے گرتے ہی اس پر پوری شدت سے تلوار کا وار کیا جس سے مسیلمہ کا سر کٹ کر دور جاگرا اور یوں دوسرا  وہ شخص جو نبوت کا جھوٹا دعوے دار تھا،وہ  نشان عبرت بن گیا۔

 

مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ جنگ (یمامہ) جھوٹے ’’مدعیان نبوت‘‘ کے خلاف آخری معرکہ تھا جس کے بعد دور صدیقی رضی اللہ عنہ میں کسی اور شخص کو نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے کی ہمت نہ ہوسکی۔

 

تحریر (ڈاکٹر ایم اے رحمٰن)

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران