نبوت کی تیسری جھوٹی دعویدار: سجاح بنت حارث

نبوت کی تیسری  جھوٹی دعویدار: سجاح بنت حارث


نبوت کی تیسری  جھوٹی دعویدار: سجاح بنت حارث

آج ہم نبوت کے جھوٹے دعویداروں کےتعارف  کے  تسلسل   میں  تیسری تحریر آپ کے سامنے پیش کرنے جا رہے ہیں۔اس تحریر میں جس  کا تعارف پیش کرنے جارہےہیں وہ مرد نہیں  ایک عورت ہے۔جی ہاں۔نبی کریم (ص) کی وفات کے بعد ایک عورت نے بھی نبوت کا جھوٹا دعوی کیا تھا،اس کا نام سجاح بنت حارث تھا ،اور یہ قبیلہ    بنو   ہوازن کی شاخ  بنو تمیم کی سرکردہ عورت تھی،  عیسائی مذہب کی پیروکار تھی ۔یہ دریائے دجلہ اور فرات کے اس درمیانی علاقے کی رہنے والی تھی جسے الجزیرہ کہاجاتاہے، جب اس نے نبوت کا جھوٹا دعوی کیا تھا ،تب وہ  عالم شباب میں تھی اور نہایت  حسین تھی۔مؤرخین میں سے ابوالقاسم رفیق دلاوری اور  ابن اثیر بلاذری لکھتے ہیں کہ  سجاح بنت حارث فصیح  و بلیغ اور بلند حوصلہ عورت تھی، اسے تقریر اور  قوت گویائی میں  مہارت  حاصل تھی  ، فہم وفراست  ،طبعیت میں تیزی ، اور  درست بات  تک پہنچنے  میں اپنی نظیر نہیں رکھتی تھی، اس کے ساتھ  عالم شباب تھا  اور سونے پر سہاگہ ، انداز دلربائی  تھا ۔نبوت کی دعوی کرنے  تک  اس نے شادی بھی  نہیں کی تھی۔ دولت والے،جاگیروں والے اوربڑے بڑے   مال دار تاجر اس کی رفاقت کے امیدوار تھے، وہ اپنا دامن بچائے رکھتی  لیکن کسی کو  ناراض  بھی نہیں  جانے دیتی  تھی،یعنی باتوں سے دل موہنا جانتی تھی۔

 

بعض مورخین نے یہ بھی لکھا  ہے کہ سجاح  کاہنہ تھی یا نہیں ،یہ بات تو  مختلف فیہ ہے ،ہاں البتہ اپنے ناز و انداز سے جس طرح وہ  پتھروں کو بھی موم کر لیتی تھی، اس سے یہ یقینی تاثر ضرور  ابھرتا  ہے  کہ وہ ساحرہ  تھی ،وہ اپنے مذہب عیسائیت کی پیشوا بنی ہوئی تھی، یہ اس کا ظاہری روپ تھا۔ جبکہ اندرونی طور پر ا س نے  اپنے کردار میں ابلیسی اوصاف پیدا کر لیے تھے، اور وہ اس مقام پر پہنچ گئی تھی جہاں انسان میں مسحور کر لینے والے اوصاف پیدا ہو جاتے ہیں۔

 

جب مسیلمہ نے نبوت  کا جھوٹا دعوی کیا،اور پھر نبی کریم(ص) اسے انجام تک پہنچا ہوا دیکھنے سے پہلے ہی  دنیا سے کوچ فرماگئے   تو  اس حسین ساحرہ کے دماغ میں یہ بات  آئی کے مسیلمہ اپنے علاقے میں نبوت کا دعوی کر کے ایک لشکر جرار  تیار کرسکتا ہے تو وہ  کیوں نبوت کادعوی نہیں کر سکتی اور اس جیسا لشکر تیار نہیں کرسکتی،جبکہ اس کے پاس  ایسے اوصاف ہیں جو لوگوں کے دل موہ لیا کرتے تھے،اور یہ حقیقت ہے کہ  اس وقت تک اس عورت میں ایسے اوصاف کوٹ کوٹ کر بھرے جا چکے تھے۔

 

چنانچہ بالاخر ایک روز اس نے اپنے قبیلے کو اکٹھا کیا اور اعلان کیا کہ گزشتہ رات خدا نے اسے نبوت عطا کی ہے ،اس کے ساتھ ہی اس نے ایک وحی سنادی، وہ عیسائی مذہب کی عورت تھی لیکن نبوت کے اس جھوٹے دعوے کے ساتھ ہی عیسائی مذہب ترک کر دیا ،وہ حسین عورت تھی،بہت سے لوگ پہلے ہی اس کی زلفوں کے اسیر تھے، اس لیے لوگ اس سے متاثر ہو گئے۔اس کے قبیلے کے سردار بھی اس کی  رفاقت   کے امیدوار  تھے، ان سرداروں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کی، ایک سردار جو اس کے قبیلے میں  سب سے زیادہ اثر و رسوخ والا تھا ،وہ سجاح کی زلفوں کااسیر ہو گیا تھا ،اس طرح  سب سے پہلے بنو تغلب نے اس کی نبوت کو تسلیم کیا،  اس وقت کا معاشرہ قبیلوں میں تقسیم ہوتا  تھا، قبیلوں پر سرداروں کا اثر و رسوخ قائم  تھا ،ایک سردار جس طرف جاتا پورا قبیلہ اس کے پیچھے جاتا تھا ،سجاح نے سب سے پہلےمختلف قبیلوں کے سرداروں کو زیر اثر  کیا ۔اس طرح  بہت تھوڑے  عرصے میں کئی ایک قبیلوں نے اس کی نبوت کو تسلیم کر لیا۔ بہت سے ایسے لوگ جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا ،وہ بھی اسلام سے منحرف ہو کر سجاح کے پیروکار بن گئے، سجاح نے مسیلمہ کی طرح ایک لشکر تیار کرلیا اور اس نے مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کر لیا۔اس کے اپنے ایک مشیر مالک بن نمیرہ نے اسے مدینہ پر حملہ کرنے سے روک دیا، اورپہلے  ان قبیلوں سے نمٹنے کا مشورہ دیا جو اس کی نبوت کو تسلیم نہیں کر رہے تھے، اس طرح سجاح نے اچھی خاصی لڑائیاں لڑیں۔خلیفہ اوّل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے  مسیلمہ  کی سرکوبی کے لیے خالد بن ولید کو بھیجا، شرجیل بن حسنہ اور عکرمہ بن ابی جہل بھی ساتھ تھے، خالد بن ولید کو اطلاع ملی کہ ان کا مقابلہ ایک نہیں بلکہ دو لشکروں کے ساتھ ہوگا ،چنانچہ انہوں نے پیش قدمی روک لی ۔اور پہلے دشمن کے صحیح اندازے کےلئے جاسوسوں  کو آگے بھیجا۔ادھر مسیلمہ نے محسوس کیا کہ وہ خالد بن ولید(رض) سے شکست کھا جائے گا، اس نے سجاح کو پیغام بھیجا کہ وہ اسے ملنا چاہتا ہے ،وہ دراصل سجاح کو اپنے ساتھ ملانا چاہتا تھا، اور اس کا ارادہ یہ بھی تھا کہ سجاع پر حاوی ہوکر اسے اپنے زیر اثر کرلے، وہ سجاح کی نبوت کو ختم کرنا چاہتا تھا۔تاکہ اس کے لشکر کو اپنے لشکر کے ساتھ ملاکر مسلم لشکر کے خلاف صف آراء ہوسکے۔چنانچہ مسیلمہ نے سجاح کو کو ملاقات کے لئے اپنے ہاں بلا لیا۔کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ سجاح بہت ہوشیار اور حوصلہ مند عورت ہے۔ اس لیے اس نے کمال مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی قیمتی تحائف کے ساتھ راستے میں ہی سجاح بنت حارث سے ملاقات کی اور اسے اپنے جال میں پھنسا لیا ۔ دونوں نے  تین دن ایک ہی خیمہ میں گزارے ، اورتنہائی میں  دعوی نبوت پر بحث  ومباحثہ کرتے رہے،وہ خیمہ  مسیلمہ کذاب کاتھا۔اس  دوران داد وعیش کے  بھی کئی دور گزرے،بالاخر سجاح کواپنے دام میں پھنسالیا اور اس کےساتھ نکاح کرلیا۔ جب تین روز بعد سجاح شادی شدہ عورت بن کر مسیلمہ کے خیمے سے نکلی  اور اپنے معتقدین کو مسیلمہ کے برحق  نبی ہونے کا کہنے لگی  اور نکاح کی خبر سنا ئی تو بڑے بڑے سردار اس سے ناراض ہوکر الگ ہو گئے،کیونکہ وہ تو پہلے ہی اس کی زلفوں کے اسیر تھے،نا کہ اس کی نبوت کےجھوٹے دعوے کے۔اب وہ موقع بھی باقی نہ رہا تھا، چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے  سب ساتھ چھوڑ گئے۔ سجاح بنت حارث اکیلی رہ گئی ۔سجاح نے جب دیکھا کہ اس کے پاس لڑنے کی طاقت بھی نہیں رہی تو وہ بھاگ اٹھی اور بنو تغلب میں جاپہنچی، ابن اثیر اور ابن خلدون نے لکھا ہے کہ مسیلمہ سے عزت لٹوانے کے بعد سجاح بالکل ہی بجھ کے رہ گئی اور اپنے لشکر کے سامنے اتنی شرمندہ ہوئی  کہ اس کے بعد اس نے ایک خاموش اور گمنام زندگی کا آغاز کیا،پھر  نہ ہی  اس میں انداز دلربائی رہا، نہ وہ جاہ و جلال رہا جس سے وہ پہلے دل موہ لیا کرتی تھی، یہاں تک کہ امیر معاویہ  (رض) کا زمانہ آ گیا۔ان کے دور میں  ایک بار  ایسا خوفناک قحط پڑا کہ لوگ بھوک سے مرنے لگے ،سجاح کا قبیلہ بنو تغلب فاقہ کشی سے گھبراکر بصرہ جاکر آباد ہوگیا، سجاح بھی ان ہی  کے ساتھ تھی،قحط کے دنوں میں  مسلمانوں کے بلاتفریق حسن  سلوک اور اناج کی مساوی تقسیم سے متاثر ہوکر بنو تغلب کے تمام قبیلے نے اسلام قبول کرلیا، سجاح بھی مسلمان ہو گئی اور اس نے سچے دل سے اللہ کی عبادت شروع کردی، اس کے کردار میں جو ابلیسی اوصاف پیدا ہو گئے تھے۔ وہ عبادت الہی سے  صاف ہونے لگے، توبہ استغفار کرکے  مسلمان ہوگئی،پھر وہ  متقی اور عبادت گزار بن گئی ،تھوڑے ہی عرصے بعد وہ بیمار پڑی ۔سجاح پر  اللہ نے اپنا خاص   کرم یہ  کیا کہ اسے اسلام قبول کرنے کا موقع مل گیا،وہ  دینداری کی حالت میں مری اور اس کی عاقبت محفوظ ہوگئی، ۔ انتہائی دینداری، پرہیز گاری اور ایمانی کیفیت میں ان کا انتقال ہوا، بصرہ کے حاکم اور صحابی رسول(ص) سمرہ بن جندبؓ (رض)ے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔یوں نبوت کے جھوٹے سے شروع ہونے والا یہ سفر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہدایت پراختتام پذیر ہوا۔اور حالت اسلام میں وفات پاکر اللہ تعالیی کی رحمت کی مستحق ٹھہری۔دعا ہے اللہ تعالیٰ ہر گمراہ کو ہدایت سے روشناس کروائے۔

 

تحریر :( ڈاکٹر ایم ۔اے رحمن )

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران