نبوت کا پانچواں جھوٹا دعویدار :مختار بن ابو عبید ثقفی
نبوت
کے جھوٹے دعویداروں کے تسلسل کی اگلی تحریر
ہم آپ کے سامنے پیش کرنے جا رہےہیں،آج میں جس کا تعارف کروانے والے ہیں،اس
کےبارے میں رائے رکھنے کے حوالے سے تاریخ میں دو گروہ پائے جاتے ہیں۔ایک کے نزدیک
وہ ہیرو جبکہ دوسرے کے نزدیک وہ کذاب اور نبوت کا جھوٹا دعویدار ہے۔ اس کا نام
مختار بن ابی عبیدہ بن مسعود ثقفی ہے۔یہ جلیل القدر صحابی سیدنا ابو عبید بن مسعود
ثقفی کا ناخلف بیٹا ثابت ہوا۔جس طرح سیدنا
نوح کا ایک بیٹا ان کا نہ بن سکا،ایسے ہی یہ
شخص بھی جلیل القدر صحابی رسول کا بیٹا ہونے کے باوجود راہ راست پر
ہونے کے بعد بھٹک گیا۔یہ شخص جاہل بھی نہیں تھا۔بلکہ اپنے وقت کا زبردست عالم دین
تھا۔اس کی تین شادیاں ہوئیں تھی اور تینوں
جلیل القدر صحابہ کرام کی بیٹیاں تھیں۔اس کی رشتہ داریاں خاندان نبوت سے بھی ملتی
تھیں،مگر اس کا ظاہر باطن سے مختلف تھا۔ یہی وجہ ہے ایک وقت گزرنے کے بعد اس کے
ذہن میں فتور پیدا ہوا اور وحی آنے کا دعوی کر دیا۔
مختار
ثقفی کی ولادت ہجرت کے پہلے سال ہوئی ۔اسے نبی کریم (ص) کے صحابی ہونے اور آپ
سے روایت بیان کرنے کا شرف حاصل نہیں ہوسکا ، ابتدا میں یہ شخص علم
وفضل ، نیکی اور تقوی کے ساتھ مشہور تھا لیکن بعد میں یہ خبث باطن کا شکار ہوا ۔یہ محض دنیا سازی کے لئے علم وتقوی کا لبادہ اوڑھے
ہوئے تھا۔ آغازمیں یہ خارجی مذہب رکھتا
تھا،خوارج وہ تھے جو سیدنا علی (رض) کو اور اپنے علاوہ ہر ایک کو کافر کہتے اور
سمجھتے تھے۔اس وقت یہ شخص اہل بیت نبوت سے
سخت عناد رکھتا تھا لیکن سیدنا حسینؓ کی شہادت کے بعد مسلمان نہایت رنجیدہ اور غم
وغصہ میں تھے جس کا اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ ایک منصوبہ بندی کے تحت اہل بیت کی
محبت کا دم بھرنا شروع کیا ۔ایسے جذباتی
ماحول میں اس نے اعلان کیا کہ میرا مشن قاتلان حسینؓ سے انتقام لینا ہے۔اس بات پر
اس کی تحریک کو اتنا فروغ حاصل ہوا کہ آہستہ آہستہ اس نے ایک بہت بڑا لشکر تیار
کرلیا ۔ بصرہ اور حجاز مقدس کے سوا ان
تمام ممالک پر قبضہ کرلیا جو سیدنا ابن زبیرؓ کے زیرنگیں تھے۔ کوفہ اور دوسرے
شہروں پر اپنی عملداری کو مستحکم کرنے کے بعد مختار نے اپنے مشن کے مطابق ان لوگوں
کو قتل کرنا شروع کیا جو سیدنا حسینؓ اور
آپؓ کے ساتھیوں کے قتل وغارت گری میں شریک تھے
۔در اصل وہ اپنی حکومت کا تخت مضبوط کرنے کی تگ ودو میں لگا ہواتھا،لیکن
نام سیدنا حسین (رض) کا استعمال کر رہاتھا۔مختار بن عبید ثقفی نے سیدنا حسین
کے قاتلین کے بارے میں بڑا شاندار کارنامہ انجام دیا لیکن آخر میں وہ دعویٔ
نبوت کر کے مرتد ہو گیا ۔ کہنے لگا کہ میرے پاس جبریل امین آتا ہے اور مجھ پر
خدائے تعالیٰ کی طرف سے وحی لاتا ہے میں بطور نبی مبعوث ہوا ہوں ۔علامہ جلال الدین سیوطی تاریخ الخلفاء میں لکھتے ہیں کہ سیدنا عبد ﷲ بن زبیر کے دور میں
مختار ثقفی نے دعویٰ نبوت کیا تھا، آپ کو
جب اس کے دعویٔ نبوت کی خبر ملی تو آپ نے اس کی سر کوبی کیلئے لشکر روانہ فرمایا
جو مختار پر غالب ہوا۔
اس
کے دعوی نبوت کی وجہ بھی بعض مورخین نے لکھی ہے کہ جب مختار نے قاتلین حسینؓ کو تہس نہس کرکےانہیں قتل کردیا،اس دوران ہر طرف اس بات پر خوشی کا اظہار ہورہاتھااور
مختار ثقفی کو بڑی عزت کی نظروں سے دیکھا
جارہا تھا ،اس کی شہرت کو چار چاند لگ چکے تھے۔اسی دوران کچھ
کمزور عقیدہ لوگوں نے مختار کی حاشیہ نشینی اور قربت حاصل کر نے کےلیے ایسی چاپلوسی شروع کر دی کہ جس نے اسے پہاڑ پر
چڑھا دیا۔بعض خوشامد یوں نے تو یہ بھی
کہنا شروع کیا کہ اتنا بڑا عظیم کام
جو اعلیٰ حضرت مختار کی ذات سے قدسی
صفات کے ساتھ ظہور میں آیا ہے ۔ نبی یا
وحی کے بغیر کسی بشر سے ممکن ہی نہیں۔ اس
خوشامد نے بالاخر اس کا دماغ مزید خراب کردیا،اس کے دل ا
ور دماغ میں انانیت ، عظمت ا وربزرگی کے
جراثیم پیدا ہونے لگ پڑے۔ جو دن بدن بڑھتے گئے اور آخر کار اس نے جرأت کی
اور نبوت کا جھوٹا دعویٰ کردیا ۔اپنے تمام مکاتیب اور خطوط پر مختار نے
اپنے نام کے آگے رسول اللہ بھی لکھنا شروع کردیا وہ یہ بھی کہتا تھا خدائے برتر کی
ذات نے میرے جسم میں حلول کیا ہے۔اس شخص کا تعلق بنو ثقیف سے تھا، ترمذی شریف میں
دوہزار دو سو بیس نمبر پر عبد اللہ بن عمر سے
نبی کریم کا فرمان منقول ہے
کہ آپ (ص) نے فرمایا:بنو ثقیف میں ایک
جھوٹا اور ایک ہلاک کرنے والا ہو گا ۔
امام
ترمذی (رح) اس حدیث کو نقل کرنے کےبعدفرماتے ہیں : کہا جاتا ہے کذاب اور جھوٹے شخص
سے مراد مختار بن ابی عبید ثقفی اور ہلاک کرنے والےسے مراد حجاج بن یوسف ہے ۔
اسی
طرح ایک مرتبہ کسی نے سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ سے کہا کہ مختار کہتا ہے کہ مجھ پر
وحی آتی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ سچ
کہتا ہے ایسی وحی کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی سورت اعراف کی آیت
نمبر ایک سو اکیس میں دی ہے:کہ شیاطین
اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک اور
اعتراضات القا کرتے ہیں
وَإِنَّ
الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ ‘‘
مختار
ثقفی کی کامیابیوں پر نظر دوڑائیں تواس نے
جتنی بھی کامیابیاں حاصل کی تھیں وہ سب
کمانڈر ابراہیم بن اشتر کی بدولت
حاصل کی تھیں ، وہ ایک زبردست سپہ سالار تھا۔اس
کی علیحدگی کے بعد اس کا زوال شروع ہوگیا۔ابراہیم کی علیحدگی کے بارے میں
علامہ عبدالقادر بغدادی اپنی کتاب الفرق بین الفرق میں لکھتے ہیں کہ:
جب
ابراہیم اشتر کو اس بات کا علم ہوا کہ
مختار نے علیٰ الاعلان نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو وہ اس سے الگ ہوگیا اور اس نے اپنی خود مختاری کا اعلان کردیا،اس کے بعد وہ بلاد جزیرہ پر قبضہ جماکر وہیں بیٹھ گیا
۔ابراہیم بن اشتر کی رفاقت سے محروم ہونے کے بعد مختارکی قوت مدافعت بہت کم ہوگئی۔
اس بات سے حاکم وقت مصعب بن زبیرؓ نے فائدہ اٹھایا اور کوفہ پر حملہ کردیا ۔حرورا
کے مقام پر شکست کھانے کے بعد مختار قصر امارت میں محصور ہوگیا اور مصعب ابن زبیرؓ
نے چار مہینے تک قصر امارت کا محاصرہ کیے رکھا ۔ ضروریات زندگی کی رسد بالکل کاٹ دی۔
جب محاصرہ کی سختی ناقابل برداشت ہوگئی تو مختار نے اپنے لشکر کو باہر نکل کر لڑنے
کی ترغیب دی۔ مگر صرف اٹھارہ آدمیوں کے سوا کوئی باہر نکلنے پر تیار نہیں ہوا۔آخر
کار مختار اپنے اٹھارہ آدمیوں کے ساتھ قصر امارت سے نکل کر مصعب کے لشکر پر حملہ
آور ہوا اور تھوڑی ہی دیر میں اپنے اٹھارہ
ساتھیوں کے ساتھ ہلاک ہوگیا ۔یوں یہ نبوت
کا جھوٹا دعویدار سر سٹھ ہجری کوماہ رمضان میں
اپنے انجام کو پہنچ گیا۔نبی کریم(ص) کے بعد کوئی کاہن ،نبوت کا دعوی
کرے یا شعبدہ باز،یاکوئی سپہ سالار اور
حاکم ۔وہ اپنے دعوے میں سچا نہیں ہو سکتا۔ہر طرح کے جھوٹے اور کذاب تاریخ میں گزر
چکے ہیں۔جب کوئی آپ کوایسے ورغلانے کی کوشش کرے تو آپ تاریخ دیکھئے۔آپ کو اس
طرح کاکردار تاریخ میں مل جائے گا۔دعا ہے
کوئی بھی نبوت کے جھوٹے دعویداروں کے ہتھے چڑھ کر اپنی دنیا اور آخرت خراب نہ
کرے۔
تحریر : ( ڈاکٹر ایم ۔اے رحمن )
ایک تبصرہ شائع کریں