نبوت کا جھوٹا دعویدار چوتھا شخص : طلیحہ اسدی
آج ہم نبوت کے جھوٹے دعویداروں
کی فہرست کے چوتھے شخص کاتعارف آپ کے سامنے رکھنے جا رہے ہیں،جس کانام طلیحہ بن
خویلد اسدی ہے اور وہ خیبر کے گردو نواح میں رہنے والے قبیلے
بنو اسد کا باشندہ تھا۔ یہ شخص
پہلے مسلمان تھا لیکن نبی کریم(ص) کے
زمانے میں ہی مرتد ہوکر سمیرا نامی مقام
پر مقیم ہوگیا ۔اور وہا ں اس نےدعوی نبوت
کردیا ۔ تھوڑے ہی دنوں میں بے شمار لوگ اس کے حلقہ میں داخل ہوگئے۔طلیحہ نے اپنی شریعت کی بنیاد چند من گھڑت باتوں پر رکھی۔ اپنی نئی اور جھوٹی
شریعت لوگوں کے سامنے اس شکل میں پیش کی کہ
نماز میں صرف قیام ہے، رکوع وسجود نہیں ہیں کیونکہ اس بات سے خدا بے نیاز ہے کہ وہ تمہارے منہ کوخاک پر رگڑوائے۔ معبود برحق
کو کھڑے ہوکر ہی یاد کر لینا کافی ہے۔ کہا کرتا تھا جبریل امیں ہر وقت میری مصاحبت
میں رہتے ہیں اور وزیر کی حیثیت سے تمام کام سرانجام دینے میں مشورہ دیتے ہیں۔ طلیحہ
ایک کاہن تھا، پہلے اسلام میں داخل ہوا، پھر نبی کریم (ص) کی زندگی کے آخری ایام میں مرتد ہوکر خود مدعی نبوت بن بیٹھا،وہ قبائل
جو مدینہ پر چڑھائی مین ناکام ہوچکے تھے
،وہ اس کے دست نگر بن گئے۔ان قبائل میں عبس، ذبیان، بنو بکر اور ان کے وہ مددگار جنہوں
نے پہلے مدینہ پر چڑھائی میں حصہ لیا تھا ۔وہ اپناداغ ہزیمت دھونے کے لیے طلیحہ بن
خویلد اسدی سے جا کر ملے تھے۔ مزید یہ
بنو طے، غطفان، سلیم اور وہ بدوی
قبائل بھی جو مدینہ کے مشرق اور شمال مشرق میں آباد تھے طلیحہ کے حامی بن گئے
تھے۔ یہ سب قبائل عیینہ بن حصن فزاری کی
طرح کہتے تھے کہ حلیف قبائل یعنی اسد اور غطفان کا نبی ہمیں قریش کے نبی سے
زیادہ محبوب ہے۔ محمد (ص) وفات پا چکے ہیں لیکن طلیحہ زندہ ہے۔ان قبائل کو یہ بھی معلوم تھا کہ
ان کی سر کوبی ہوگی لیکن انہوں نے
اس کی پروا نہ کی ۔بلکہ لڑائی کی تیاریوں میں مصروف رہے۔ طلیحہ کی پیچھے وہ اس لئے چلے تھے کہ وہ اپنے اوپر مدینہ
کی حکومت کیوں تسلیم کریں؟ اپنی آزادی ہاتھ سے کیوں جانے دیں اور زکوٰۃ جو ایک
قسم کا تاوان ہے، کیوں ادا کریں؟طلیحہ پہلے سمیرا میں مقیم تھا۔ وہاں سے بزاخہ آ
گیا کیونکہ اس کے خیال میں لڑائی کے لیے بزاخہ نسبتاً زیادہ مناسب اور محفوظ جگہ
تھی۔
طلیحہ
نے نبی کریم (ص) کی زندگی میں اپنے چچا
زاد کو اپنا سفیر بناکر رسول کریم (ص) کی طرف بھیجا اور مدینہ منورہ میں اپنی نبوت پرایمان لانے کی دعوت
دی ۔اس سفیر کا نام حیال یا حبال
تھا ۔ اس نے مدینہ پہنچ کر صورت حال
معلوم کر کے آپ (ص) کو طلیحہ کی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی،آپ(ص) نے اسے
جھوٹاقراردیا۔ آپ (ص) کا جواب سن کر حیال کہنے لگا ۔کیا آپ اس شخص کو جھوٹا خیال
کرتے ہیں جس کو لاکھوں لوگ اپنا ہادی تسلیم کر چکے ہیں۔ رسول کریم(ص) اس گستاخی پر
ناراض ہوئے اور فرمایا :خدا تمہیں ہلاک
کرے اور تمہارا خاتمہ خیر پر نہ ہو۔ چنانچہ رسول خدا (ص) کی دعا قبول ہوئی حیال یا
حبال کفر کی حالت میں ہی مرا۔
بالاخر اس فتنہ کے خاتمے کےلیےرسول کریم (ص) نے اپنی
زندگی میں ہی اقدامات اٹھائے ،او ر طلیحہ اور اس کے پیروکاروں کی سرکوبی کے لیے سیدنا ضرار بن ازور (رض) کی قیادت
میں قبائل کے لوگوں پرمشتمل ایک لشکر بھیجا، اور بعد میں صحابہ کی کمک پہنچتی
رہی۔ آپ (ص) کے اس لشکر کو بھیجنے سے پہلے وہی حیال کئی بار
مدینہ منورہ سمیت کئی علاقوں پر چڑائی کرچکاتھا۔ حضور (ص) کے دور میں اس کی
سرکوبی کے لئے سیدنا ضرار بن الازورؓ
روانہ ہوئے تھے، ابھی وہ اپناکام ابھی مکمل نہ کرپائے تھے کہ آپ (ص) وفاتِ کی خبر مشہور ہوگئی، سیدنا ضرار اس مہم کو چھوڑ کر اپنے لشکر کے ہمراہ مدینہ واپس آگئے ،طلیحہ کو اس فرصت میں اپنی حالت درست کرنے اور
جمعیت کے بڑھانے کا خوب موقع ملا، غطفان اورہوازن وغیرہ کے قبائل جوذو القصہ ا
ورذو خشب میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے شکست
کھا کر بھاگ گئے تھے،وہ طلیحہ کے پاس پہنچے
اور اس کی جماعت میں شامل ہوگئے ،نجد کے مشہور چشمۂ بزاخہ پر طلیحہ نے
اپنا کیمپ قائم کیا، یہاں غطفان، ہوازن ،بنو عامر اور بنو طے وغیرہ قبائل کا بڑا لشکر تیار کرلیا ۔
بالآخر آپ (ص) کی
وفات کے بعد سیدنا ابو بکر صدیق کے دور
خلافت میں لشکر اسلام سیدنا خالد بن ولید (رض)کی قیادت میں بزاخہ نامی مقام ہر پہنچا
جہاں طلیحہ مقیم تھا۔ لشکر اسلام میں سیدنا
عدی بن حاتم (رض)بھی تھے۔ جنگ سے
پہلے سیدنا عدی نے اپنے قبیلہ بنو طے کو
دعوت اسلام دی اور اسلام میں لوٹ آنے کی پیش کش کی ۔لشکر اسلام کی ہیبت ان کے
سامنے بیان کی جس سے بنو طے سبھی دوبارہ مسلمان ہوگئے ۔اسی طرح سیدنا عدی کی دعوت سے قبیلہ جذیلہ بھی حلقہ
بگوش اسلام ہوگیا اور ان دونوں قبیلوں کے ہزاروں لوگ لشکر اسلام میں شامل ہوکر طلیحہ
کے خلاف جہاد کے لیے نکلے۔
طلیحہ
نے رسول اللہ (ص) کی وفات سے پہلے ہی
اسود عنسی اور مسیلمہ کی طرح آپ کی زندگی کے آخری دنوں ہی میں نبوت کاجھوٹا دعویٰ کر چکا تھا۔ اس نے اپنے
دونوں ساتھیوں کے برعکس عربوں کو دوبارہ بت پرستی اختیار کرنے کی دعوت نہ دی۔ کیونکہ
بت پرستی کو رسول اللہ (ص) عرب سے بالکل مٹا چکے تھے اور اب اس کے پھیلنے کا کوئی
امکان باقی نہ رہا تھا۔ توحید کی دعوت عرب کے کناروں تک پہنچ چکی تھی اور لوگوں کے
دلوں میں یہ بات راسخ ہو چکی تھی کہ بت پرستی ہذیان کی ایک قسم ہے جس سے ہر شریف
انسان کو شرمانا چاہیے۔
مدعیان
نبوت نے لوگوں میں یہ بات پھیلانی شروع کی کہ ان پر اسی طرح وحی نازل ہوتی ہے جس
طرح محمد (ص) پر نازل ہوتی تھی۔ ان کے پاس
بھی اسی طرح آسمان سے فرشتہ آتا ہے جس طرح محمد
کریم(ص) کے پاس آتا ہے۔ ان میں سے بعض نے آیات قرآنی کے مشابہ کچھ عبارتیں
بنانے کی کوشش کی اور انہیں لوگوں کے سامنے وحی آسمانی کے طور پر پیش کیا۔ اس کے
پیروکار بھی کس عجیب قسم کی ذہنیت کے مالک
تھے جنہوں نے اس نام عقول اور بے ہودہ
باتوں کو وحی الٰہی سمجھ کر قبول
کر لیا۔ اس نے جووحی لوگوں کے سامنے رکھی ،اس کی ایک عبارت آپ ہماری سکرین پر دیکھ
سکتے ہیں ۔
والحمام
والیمام، والصرد الصوام، قد صمن قبلکم باعرام لیبلغن ملکنا العراق والشام۔
تاریخ
سے معلوم ہوتاہے کہ زمانہ جاہلیت میں کاہن لوگ
شاعرانہ اور کافیانہ عبارتیں
لوگوں کے سامنے پیش کر کے ان پر اپنارعب
ڈالاکرتے تھے ۔ قریش بھی یہ کہہ کر رسول اللہ (ص) کا انکار کرتے تھے کہ یہ شخص
کاہن ہے اور جو کچھ اس پر اترتا ہے وہ اسی قسم کی ہی شاعرانہ اور کافیانہ عبارتیں ہیں جو عموماً کاہن لوگ سنایا کرتے ہیں۔
لیکن بالآخر عربوں اور تمام انسانوں پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ قرآن محمد کریم (ص) کا معجزہ ہے اور جن و انس میں سے کسی کی
طاقت نہیں کہ وہ اس کی نظیر پیش کر سکے۔
سیدنا
خالد بن ولید نے بزاخہ کے میدان میں پہنچ کر
طلیحہ کے لشکر پر حملہ کیا،
جنگ اور حملے سےپہلے ہی
لشکر اسلام کے دو بہادر سیدنا عکاشہ
اور سیدنا ثابت انصاری دشمنوں کے ہاتھ سے شہید ہوگئے تھے ، سیدنا خالد بن
ولیدؓ نے بنو طے پر عدیؓ بن حاتم کو سردار
مقرر کرکے حملہ کیا ،طلیحہ کے لشکر کی سپہ سالاری اُس کا وہی چچا زاد بھائی
کررہا تھا جو اس کی نبوت پر ایمان
لانے کی دعوت دینے نبی کریم (ص)کے پاس بھیجاگیا تھا۔اس جنگ میں طلیحہ ایک چادر
اوڑھے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے الگ ایک
طرف وحی کے انتظار میں بیٹھا تھا، لڑائی خوب زور شور سے جاری ہوئی۔
جب
مرتدین کے لشکر پر کچھ پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے تو طلیحہ کے لشکر کا ایک
سردار عیینہ بن حصن طلیحہ کے پاس آیا اور
کہا کہ جنگ کے حوالے سے کوئی وحی نازل ہوئی
یا نہیں؟ طلیحہ نے کہا ابھی نہیں ہوئی، تھوڑی دیر کے بعد عیینہ نے طلیحہ سے پوچھا تو اس نے پھر وہی جواب دیا ، پھر میدان پر جاکر لڑنے لگا اب
دم بدم مسلمان غالب آتے جارہے تھے اور مرتدین کے پاؤں اکھڑنے لگے تھے، عیینہ تیسری
مرتبہ پھر طلیحہ کے پاس گیا اور وحی کے
بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ ہاں جبرئیل
میرے پاس آیاتھا،وہ کہہ گیا ہے کہ تیرے لئے وہی ہوگا، جو تیری قسمت میں لکھاہے، عیینہ
نے یہ سن کر کہا کہ لوگو! طلیحہ جھوٹا ہے،میں تو اس کے لشکر سے نکل رہا ہوں ،یہ سنتے ہی مرتدین یک لخت بھاگ پڑے،بہت سے
مقتول،بہت سے مفرور اوربہت گرفتار ہوئے ،بہت سے اُسی وقت مسلمان ہوگئے،طلیحہ معہ
اپنی بیوی کے گھوڑے پر سوار ہوکر وہاں سے بھاگا اورملکِ شام کی طرف جاکر قبیلہ
قضاعہ میں مقیم ہوا، جب رفتہ رفتہ تمام قبائل مسلمان ہوگئے اور خود اس کا قبیلہ بھی
اسلام میں داخل ہوگیا تو طلیحہ بھی مسلمان ہوکر
سیدنا عمر فاروقؓ کے عہد خلافت میں مدینے آیا اوران کے ہاتھ پر بیعت کی
۔اور پھر اسلام قبول کرنے کے بعد ہی وفات پائی ،یوں بالاخر اپنی عاقبت سنوار گیا۔۔اللہ تعالیٰ تمام
گمراہوں کو ہدایت نصیب فرمائے۔
تحریر : (ڈاکٹر ایم ۔اے رحمن )
ایک تبصرہ شائع کریں