نبوت کابیسواں جھوٹا دعویدار:عبدالعزیز باسندی
نبوت
کا مقام کوئی عام سامقام نہیں ہے کہ جسے جو چاہے، جیسے چاہے اور جس وقت چاہے حاصل
کرلے، یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سونپی گئی
ایک ذمہ داری ہے ،جسے اس نے جس کےلیے منتخب کیا ہوتا ہے وہ اسی کے سر نبوت کا تاج سجاتا ہے،. مقام نبوت جتنا زیادہ
اہم ہے اتنا ہی زیادہ نازک بھی ہے، دنیا میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زائد
انبیاء کرام علیہم السلام آئے ہیں،سب سے آخر میں نبی آخر الزمان سیدنا محمد کریم
(ص) کو مبعوث کیا۔اور نبوت کا سلسلہ ختم کردیا، اس کے بعد بھی بہت سے نبوت کے جھوٹے دعویدار نبوت کے دعوے کرتے رہے ہیں
،نبی کریم (ص) نے اپنی حیات میں ہی یہ
اشارہ فرمایا دیا تھا کہ میرے بعد کئی دجال آئیں گے جو نبوت کے جھوٹے دعوےکریں
گے،یہ سب نبوت کے جھوٹے دعوے دار اسی
فرمان کے مصداق ٹھہرے ہیں، نبوت کے جھوٹے دعویداروں کے تعارف کے سلسلے کی ایک سیریز
آپ کے سامنے رکھ رہاہوں،تاکہ نبوت کے جھوٹے دعویداروں کے حربوں سے آپ واقفیت
حاصل کرلیں،دور حاضر میں بھی کوئی اس طرح کا لبادہ اوڑھ کر تمہارے پاس آجائے تو
تم اسے فورا پہچان لو یہ اس باطل کی مماثلت فلاں باطل سے ملتی ہے،اسی سلسلے کے تحت
آج اس وڈیو میں میں نبوت کے ایک اور
جھوٹے دعویداروں کا مختصر تعارف آپ کے سامنے رکھوں گا، تاریخ میں اسے کانام
عبدالعزیز باسندی کے نام سے جانا جاتا
ہے۔یہ صفایان کے علاقے باسند میں پیدا ہوا تھا، اس شخص نےتین سو بتیس ہجری میں نبوت کا
جھوٹادعویٰ کیا تھا، اس کے بعد اس
نے ایک بلند پہاڑی مقام کو اپنا مسکن
بنایا،اس نے لوگوں کو اپنے گرد جمع
کرنے کےلیے شعبدہ بازی کا سہارا لیا،لوگوں
کو حیرت زدہ کردینے والے شعبدے دکھائے،تاکہ
وہ عجیب وغریب حرکتوں سے لوگوں کو
ورغلا سکے اور سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کرکے اپنا کام چلاجائے ۔ چنانچہ یہ شعبدہ باز اپنی مہارتوں سے لوگوں کو حیران
اور پریشنا کرکے اپنا گرویدہ بناتا تھا، ۔ یہ پانی کے حوض میں ہاتھ ڈال کر جب باہر نکالتا تو اس کی مٹھی اشرفیوں سے بھری
ہوئی ہوتی تھی،دیکھنے والے حیران ہوجاتے کہ یہ اشرفیاں کہاں سے آگئیں۔اس قسم کی
شعبدہ بازیوں سے اس نے ہزاروں لوگوں کو گمراہی کے راستے پر ڈال
دیا۔علماء کرام اور اہل حق نے لوگوں کو بہت سمجھایا مگر بہت سے سادہ لوح یا اپنی
خواہشتا کے پجاری لوگ اس کے جال میں
پھنستے چلے گئے، جب باسندی نے دیکھا کہ علماء اور بہت سے مضبوط ایمان والے
مسلمان اس کی نبوت میں رکاوٹ بن رہے ہیں تو اس نے اہل حق پر ظلم وستم کرنا شروع کردیا۔افرادی
قوت اس نے کافی اکٹھی کر لی تھی۔اس نے اپنے پیروکاروں کے ذریعے ہزاروں مسلمان کو شہید کروایا،اس سے اندازہ لگایا
جا سکتا ہے کہ اس نے گمراہ لوگوں کی ایک بڑی کھیپ تیار کر لی تھی، کاروائی ڈالنے کا اس کا طریقہ یہ تھا کہ یہ
اپنے حواریوں کوپہاڑ سے نیچے بھیجتا وہ قریبی علاقوں مین لوٹ مار کرتے ،اور قتل
وگارت کا بازار گرم کرتے اور پھر واپس پہاڑوں کی جانب نکل جاتے۔ جب اس نے اپنے ان
اقدامات سے امن وامان کا مسٔئلہ شدید کر دیا
تو حکومت کو بھی یہ بڑا خطرہ محسوس ہونے
لگا، چنانچہ اس علاقے کے حاکم ابو علی بن
محمد بن مظفر تھے ،انہوں نے باسندی کی
سرکوبی کے لیے ایک لشکر روانہ کیا۔ باسندی حسب سابق کاروائی ڈال پہاڑوں میں جا کر
چھپ گیا تھا، ایک بلند پہاڑ پر اس نے قلعہ نما عمارت بنائی ہوئی تھی ،وہیں وہ اپنے
حواریوں سمیت چلا گیا،اور جاکر قلعہ بند
ہوگیا، لشکر اسلام نے اس کے گرد محاصرہ کر لیااورکچھ مدت کے بعد جب کھانے پینے کی
چیزیں ختم ہونے لگیں تو باسندی کے فوجیوں کی حالت دن بدن خراب ہونے لگی اور جسمانی
طاقت بھی جواب دے گئی ۔یہ صورت حال دیکھ کر لشکر اسلام نے پہاڑ پر چڑھ کر ایک
زبردست حملہ کیا اور مار مار کر دشمن کا حلیہ بگاڑ دیا۔ باسندی کے اکثر فوجی مارے
گئے اور خود باسندی بھی جہنم واصل ہوا۔یوں یہ نبوت کا جھوٹا دعویدار اپنے انجام کو پہنچا،یہ اپنی زندگی میں کہا
کرتا تھا کہ میں مرنے کے بعد جلد پھر دنیا میں آؤں گا،اس لیے میرے مرنے کے بعد
تم پھر نہ جانا بلکہ میرا انتظار کرنا،میں جلد
واپس آؤں گا،اس کے انجام تک پہنچنے کے بعد اس کے پیروکار کچھ عرصہ اس کا
انتظار کرتے رہے،لیکن جب یہ نہ آیا ، پہلے تو وہ کچھ متردد ہونے لگے ،بالاخر وہ
اسلام کی طرف آئے اور اجتماعی طور پر سب نے اسلام قبول کیا،یوں اس کے مرنے کے کچھ
عرصہ بعد اس کا فرقہ بھی اپنے انجام کو پہنچا۔حق آجائے تو باطل وہاں ٹک نہیں
سکتا، باطل کا انجام نیست ونابود
ہونا ہی ہے ، باطل اس سائے کی طرح ہوتا ہے
جو سورج کے غائب ہونے پر تو لوگوں کو گمراہ کرسکتا ہے لیکن سورج کے نکلنے کے بعد
کسی کو بھی گمراہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا کیونکہ ہر ایک کو معلوم ہوجاتا ہے کہ
اصلی کون ہے اور سایہ کس کا ہے ۔ بالکل اسی طرح حق کے سورج کے طلوع ہونے کے بعد
عبد العزیز باسندی کی نبوت کے باطل دعوی
کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچا،بہت سے گمرہ
لوگ ہدایت کی راہ پر آگئے اور بہت سے لوگ گمراہ ہونے سے بچ گئے۔
تحریر : (ڈاکٹر ایم ۔اے رحمن )
ایک تبصرہ شائع کریں