نبوت کا اکیسواں جھوٹا دعویدار :ابو طیب احمد بن حسنین متبنی
آج
ہم نبوت کے جھوٹے دعویداروں کے حوالے سے اگلی تحریر آپ کے سامنے پیش کرنے جارہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں اپنے رسول
مبعوث فرمائے، تاکہ وہ اپنی قوم کی ہدایت اور رہنمائی کا فریضہ سر انجام د یں
اور انہیں شیطان کی چالوں سے محفوظ رہنے
کے گر سکھائیں۔ نبی کریم(ص) کو بھی رب
تعالیٰ نے قیامت تک کے انسانوں ا ور
جنوں کیلئے نمونہ حیات بنا کر بھیجا۔لیکن انسانیت کو بھٹکانے کیلئے شیطان شروع سے ہی برسرپیکار ہے اوروہ مختلف لبادوں میں معصوم اور بھولے بھالے
انسانوں کو بھٹکانے کا سامان کرتا رہتا ہے۔ تاریخ اسلام میں کئی ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے حیرت انگیز
صلاحیتوں سے دنیا کو حیران کیسا اور پھر خود نبوت کا دعوی کردیا۔ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ابو طیب احمد بن حسنین متبنی ہے ۔یہ
شخص تین سو تین ہجری میں کوفہ کے ایک محلے
میں پیدا ہوا ،اس نے جیسے ہی ہوش سنبھالا،اسے
پڑھنے لکھنے کا شوق پیدا ہوا ،اسی سلسلے میں یہ جوانی کے عالم میں ہی شام چلا گیا،اس
نے وہاں کئی علوم وفنون میں زبردست دسترس
حاصل کی۔ عربوں کی لغت پر اس نے غیر معمولی عبور حاصل کیا ۔ جب کبھی اس سے زبان
کے بارے میں کوئی سوال کیا جاتا تو نظم
ونثر میں کلام عرب کی بھرمار کر دیتا۔لوگ اس کی علمیت سے بہت متاثر ہوتے۔اور اس کی
علمیت کے گن گاتے ۔اسی چیز نے اس میں یہ رعونت پیدا کردی کہ وہ کیا کسی نبی سے کم ہے،چنانچہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ اور کہنے لگا کہ میں پہلا شخص ہوں جس نے شعر سے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔
بنو کلب وغیرہ میں سے بہت سے لوگ ا سکی تصدیق کرنے لگے اور اس کی پیروی شرع کردی ۔اس کی اس حرکت پرحمص کے
حاکم نے
اسے باز رکھنے کی کوشش کی ۔ اس نے
اسے او ر اس کے اصحاب کو گرفتار کر کے قید کردیا۔ طویل عرصہ گرفتار رہنے کے بعد اس
نے توبہ کی اور پھر اسے رہا کر دیا گیا۔ پھر وہ تین سو سیتیس
ہجری میں امیر سیف الدولہ بن حمدان کے پاس
چلا گیا۔ پھر اس کو چھوڑ کر تین سو چھیالیس
ہجری میں مصر آ گیا اور وہاں کے
مقامی حکمرانوں کی خوب تعریف کی
۔ اوران سے خوب مال اکٹھا کرلیا۔ لیکن وہ اس سے زیادہ مال چاہتا تھا،اس پر
اس نے مصری حاکم کافور کے بارے میں برے
شعر کہے اور عید قربان کی رات وہاں سے نکل گیا۔ کافور نے اس کے پیچھے مختلف جہتوں میں اونٹ بردار سپاہی روانہ کیےتاکہ وہ اسے گرفتار کرکے لائیں لیکن وہ اسے نہ پکڑ سکے،در اصل اس نے اپنے علاقے میں
اسے ٹھہرانے کا ارادہ کر لیاتھا لیکن جب اس کے اشعار کے ذریعے اس کے بلند وبانگ
دعوے اور خیالات سنے تو اسے اپنی فکر ہونے لگی
کہ کہیں یہ میرے خلاف ہی محاذ کھڑا نہ کردے،وہ علاقے کے امن وامان کےلیے
اسے خطرہ سمجھنے لگا تھا ،وہ تو بھاگ گیا لیکن اس کے پیروکار وہیں تھے۔ اس کے یوں
بھاگنے کے بعد کافور نے اس کے پیروکاروں کو قائل کرنے کےلیے ایک تقریر کی، اس نے کہا کہ جو شخص نبی کریم (ص) کی
نبوت میں خود کو حصے دار سمجھ رہاہے،اس
شخص کو یہاں اگر میں جگہ دوں گا تو وہ میرا
خیر خواہ کیسے ہو سکتا ہے،وہ تو یہاں موجودہ نظام میں بغاوت پید ا کرے گا،یوں اس
نے انہیں قائل کر لیا اور وہ توبہ تائب ہو گئے۔وفیات الاعیان میں اس کےحوالےسے لکھا ہوا ہے کہ سیف الدولہ کے
ہاں ہر رات کو علماء
کرام کی مجلس ہوا کرتی تھی۔ اورعلماء اس کی موجودگی میں گفتگو کیا کرتے تھے۔ اسی مجلس میں متنبی اور ابن خالویہ نحوی کے درمیان کسی معاملے پرجھگڑا ہو گیا، ابن خالویہ نے
متنبی پر حملہ کر دیا اور اسے زخمی کردیا۔یہ وہاں سے ناراض ہوکر مصر چلا گیا
اوروہاں اس نے حاکموں کی مدح سرائی کے ذریعے
خوب مال حاصل کیا، پھر وہاں سے بلاد
فارس چلا گیا۔ عضدالدولہ بن بویہ دیلمی کی مدح وسرائی
کر کے خوب انعام حاصل کیا، ان سب جگہوں سے
مال وغیرہ حاصل کرنے کے بعد یہ اپنے جائے پیدائش کوفہ واپس آگیا ،وہاں اپنے کئی ساتھیوں سے ملا،انہی
میں سے ایک سردار فاتک اسدی تھا، اسے متنبی کے فخر وغرور پر مبنی کلام کا
علم تھا ،اس نے اس حوالے سے اس سے بات کی ،وہ بھی
قبیلہ دار بندہ تھا،اور ادھر متنبی کے ساتھ بھی ایک جماعت تھی،دونوں کی
تکرار ہوگئی ،تکرار سے معاملہ لڑائی تک
پہنچ گیا ۔ اسی لڑائی میں متنبی،اس کا بیٹا محمد اور اس کا غلام مفلح،
نعمانیہ جگہ پر اٹھائیس رمضان کو تین سو
چون ہجری میں قتل ہوگئے۔یوں اپنے شاعرانہ
کلام کی بنا پر نبوت کا دعوی کرنے والا اپنے
انجام کو پہنچ گیا،اس کے مرنے کے بعد ا سکی جماعت تتر بتر ہوگئی،اس کے مرنے
کے بعد اس کی شاعری آج بھی زبان وبیان کو سمجھنے کے لیے پڑھی جاتی ہے۔لیکن اس کی
نبوت کی تصدیق کرنے والا کوئی باقی نہ رہا۔ناظرین۔انسان جب کسی مقام تک پہنچ جاتا
ہے تو وہاں پہنچ کر جب غرور وتکبر اسے گھیر لیتا ہے تو وہ اپنے آپ سے باہر ہوکر ایسے
دعوے کرنے لگ جاتا ہے کہ جو اس کی ذات سے
میچ نہیں ہورہے ہوتے ،وہ بہت سے لوگوں کو
گمراہ کرنے کی وجہ بن جاتا ہے۔ایسے ہی دور حاضر میں کئی لوگ بھی نبوت کے دعوے دار
بنے بیٹھے ہیں۔عنقریب ان کے فریب بھی آپ کے سامنے رکھیں جائیں گے۔
تحریر : (ڈاکٹر ایم ۔اے رحمن )
ایک تبصرہ شائع کریں