تئیسواں جھوٹا کذاب اور دجال : حسن بن صباح

تئیسواں جھوٹا کذاب اور دجال : حسن بن صباح


  تئیسواں جھوٹا کذاب اور دجال : حسن بن صباح

آج ہم کذابوں اور جھوٹے دجالوں کی فہرست  کے تئیسواں  شخص کےتعارف کو آپ کے سامنے رکھنے جا رہے ہیں،جس کانام حسن بن صباح ہے۔یہ شخص دس سو پچاس عیسوی  بمطابق  چار سو تیس ہجری  میں ایران کے شہر مشہد میں پیدا ہوا۔ لیکن  اس نے اس زمانے کے رواج کے مطابق اپنے آپ کو ایک عرب الحمیری خاندان سے منسوب کیا تھا۔  اسے  اپنے نسب کا بیان پسند نہیں تھا۔ وہ اپنے مریدوں سے کہا کرتا تھا مجھے اپنے امام کا مخلص غلام کہلانا  زیادہ پسند ہے ۔سات سال کی عمر سے ہی اسے حصول علم شوق تھا۔ اٹھارہ سال کی عمر تک اس نے ریاضی، نجوم اور سحر  اور دیگر کئی علوم میں مہارت حاصل کرلی تھی۔ اس وقت تک اس کا مذہب اپنے باپ کی طرح اثنا عشری تھا ۔پھر حسن بن صباح کی  ملاقاتیں فاطمی  مبلغوں ناصر خسرو، حجت خراسان اور پھر امیر حزاب ہوئیں۔ اس نے ان کے اثرات قبول کیے۔ امیر حزاب سے اس کے کئی مباحثے ہوئے۔ اس سے حسن بن صباح کے اعتقاد میں لغرش پیدا ہو گئی۔ وہ اسمعیلی مذہب کی طرف  مائل ہو گیا ،ان کے مبلغین  سے ملا ۔ اس  کے بعد دس سو اکہتر میں  اس نے مصر  میں مستنصر کی بیعت کر لی ۔ وہاں فاطمی خلیفہ المستنصر نے اسکی قابلیت سے متاثر ہو کر اسے اپنے خاص داعی بنا لیا، خلیفہ مستنصر نے  اسے  انعام و اکرام سے نوازا ۔ اس نے وہاں اپنے مضبوط تعلقات بنالیے،لیکن کچھ اعلی حکومتی لوگوں سے اختلاف کی وجہ سے اسے وہاں سے نکلنا پڑا، یہ وہ  وقت  تھا کہ  جب  قرامطہ کی قوت عراق ا ور شام میں ٹوٹ چکی تھی۔ لیکن یہ لوگ وہاں سے نکل کر ایران  اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں پھیل چکے تھے ،انہوں نے اپنی تحریک کو خفیہ طور پر جاری رکھا ہوا تھا۔ اس طرح کا ماحول حسن بن صباح کے لیے بہت ساز گار ثابت ہوا ۔اس نے اپنی تحریک کو نزار کا نام دیا،اس نام نے ان کی تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ اب  سب قرامطہ  اس کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے۔ لوٹ مار کا سلسلہ پھر سے شروع ہوگیا۔ ابتدا میں حسن بن صباح   نے چھوٹے لیول پر اپنی سر گرمیاں شروع کیں لیکن جلد ہی فارس کے قلعہ پر قبضہ کر لیا۔اس کے بعد اس نے اصفہان کے  ایک اور قلعے پر قبضہ کرلیا،وہاں سے اسے سیاسی ماحول سازگار نہ ہونے کی وجہ بحر قزوین کی طرف بھاگنا پڑا۔وہاں  دس سونوے عیسوی میں اس  نے کوہ البرز میں الموت نامی قلعے پر قبضہ کر لیا،اس پر قبضے کےلیے بھی اس نے بڑی چال چلی ۔ وہاں پہنچ کر پہلے اس نے  ارد گرد کے لوگوں سےدوستی کی ،  ان پر اپنے زہد ا ور تقوے کا  رعب  ڈالا۔ یہ ہمیشہ ایک کمبل اوڑھے رکھتا  اور  سادہ زندگی بسر کرتا تھا۔ یہاں کے اکثر لوگ اس کے پیرو کار  بن گئے۔ اس قلعے کا مالک ایک سادہ لوح علوی تھا۔ جو  برکت کے حصول کےلیے  ہمیشہ  حسن بن صباح  کے پاس بیٹھا رہتا تھا ۔ جب حسن بن صباح نے خو دکو کچھ مستحکم کر لیا تو علوی کو زبردستی اس قلعے سے اپنے پیروکاروں کے ذریعےنکلوادیا،کچھ تھوڑا بہت مال بھی دیدیا،اسی قلعے کو اس نے اپنا مرکز بنالیا۔ اب قلعے پر حسن کا قبضہ ہو گیا۔ قلعہ الموت کو   مرکز بنا کر اس  نے اپنی تنظیم نو کی ، اور اپنے مبلغ بنالیے،بعد میں کئی دوسرے قلعے بھی اس کے قبضے میں آ گئے ۔اس کے بعد اس نے مصر کے اسماعیلیوں سے قطع تعلق  کیا اور   اپنے آپ کےلیے  شیخ الجبال  کا لقب اختیار کرلیا،اور اس کے تحت وہ سارے اختیارات کود کو تفویض کرلیے  جو  ایک نبی کے پاس ہوتے ہیں ،بلکہ اس سے بھی بڑھ کر بعض معاملات میں تو یہ خود ہی  خدا بن بیٹھا تھا،  قلعہ الموت کے پاس کے علاقے میں چھوٹی سی ریاست قائم کر لی ۔پھر اس نے   ایک جماعت منظم کی جس کے اراکین فدائی کہلاتے تھے۔ ان فدائیوں کی سرفروشی کا یہ عالم تھا کہ حسن کے حکم پر اپنے پیٹ میں چھرا تک گھونپ لیتے یا قلعہ سے کود کر جان دے دیتے تھے۔وہاں حسن بن صباح نے ایک انتہائی خو بصورت باغ لگوایا اور اس میں نہایت خوبصورت لڑکیاں رکھ لیں۔بعد میں اس نے اس باغ سے جنت اور ان لڑکیوں سے حوروں کا کام لیا۔وہ فدائیوں کو حشیش پلا کر اس باغ میں پہنچا دیتا، ہوش میں آنے پر فدائی یہ سوچتے کہ وہ حقیقی جنت میں ہیں ، بعد میں لڑکیاں ان کو جام کوثر کے بہانے دوبارہ  حشیش پلا دیتیں اور عالمِ بے ہوشی میں  ہی انہیں اس  جنت سے  نکال دیا جاتا،جس کی وجہ سے وہ سارا نقشہ ان کے ذہن پر منقش ہوجاتا اور وہ دوبارہ اسی کو حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے لگتے۔ فدائیوں کا کام حسن کے حکم پر ناپسندیدہ لوگوں کو قتل کرنا تھا۔ حسن نے جب کسی کو قتل کروانا ہوتا تو کسی ایک فدائی کو دوبارہ جنت کی سیر کا وعدہ کرتا۔ اور یہ بھی یقین دلاتا کہ بفرضِ محال اگر وہ اِس مہم میں مارا بھی گیا تو بھی آخرت میں اسے ہمیشہ کیلئے جنّت مل جائے گی۔ فدائین جنّت کی خواہش  اور  حشیش کے نشے میں جانثاری اور بہادری کے بڑے بڑے کام  سر انجام دیتے تھے۔ حشیش کے استعمال کی وجہ سے فدائیوں کو حشاشین بھی کہا جاتا ہے۔ فدائیوں میں ان پڑھ جان باز نوجوان شریک کیے جاتے تھے۔ صرف ہتھیار استعمال کرنے کا فن انہیں سکھایا جاتا تھا۔ یہ سپاہی حسن کے حکم کی آنکھیں بند کرکے تعمیل کرتے تھے۔ جس کے قتل کا اشارہ ہوتا اس کے پاس بھیس بدل کر جاتے اور پہلے اس کا اعتماد جیتتے اور پھر   موقع پاتے ہی اس کا کام تمام کردیتے تھے۔ان  کا پہلا شکار سلجوقی سلطان ملک شاہ بنا  تھا، جسے انہوں نے  زہر دے کر ہلاک کیا ۔ اس کے بعد سلجوقی سلطان الپ ارسلان کا وزیر نظام الملک طوسی  بھی اسی کے فدائین کے خنجر کا شکاربنا تھا۔ اس کے  بعد نظام الملک کے دو بیٹوں کو بھی  انہوں نے قتل کیا تھا ۔ اس کے بعد انہوں  حمص اور موصل کے دو شہزادوں کوحالت نماز میں شہید کیا ۔ سلجوقی سلطان سنجر شاہ کے وزیر عبدالمظفر علی اور اس کے دادا چکر بیگ کو بھی انہوں نے ہی  قتل کیا  ۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے بہت سے صاحب اقتدار   لوگوں کو انہوں نے  پُر اسرار طریقے سے ہلاک کیا ۔ ان کا شکار بننے والوں  میں خلفاء، سلاطین،اُمراء اور علماء سبھی لوگ شامل تھے۔ مسلمان تو ایک طرف بہت سے عیسائی بھی  ان  کے ہاتھوں قتل ہوۓ۔ عیسائیوں میں سب سے اہم نام طرابلس کے حکمران ریمنڈ کا لیا جاتا ہے۔ ان کی خاصیت یہ تھی کہ یہ عام لوگوں کو کچھ نہیں کہتے تھے،یہ صرف صاحب اختیار لوگوں  کو مارا کرتے تھے،حسن بن صباح کے فدائی کھلے عام دن دہاڑے لوگوں کے سامنے اپنی وارداتیں انجام دیتے تھے۔ ان کا ہتھیار ایک زہر آلود خنجر ہوتا تھا۔ کبھی کبھار فدائین قتل کی بجائے دھمکی آمیز خط کسی کے سرہانے چھوڑ دیتے تھے۔جس سے ان کا مقصد بغیر قتل کے بھی حاصل ہو جاتا۔ دہشت انگیزی کی یہ تحریک اتنی منظم تھی کہ قرب و جوار کے تمام بادشاہ فدائین کے نام سے تھرتھر کانپتے تھے۔ صلاح الدین ایوبی پر  کئی بار انہوں نے  قاتلانہ حملے کیے لیکن وہ خوش قسمتی  سے ہر بار بچ گیا۔  حسن بن صباح نے تقریبا نوے سال  کی  طویل عمر پائی،اور قلعہ الموت میں ہی یہ فوت ہوا، اور اس کے مرنے کے بعد رکن الدین نے اس کے  گروہ  کی زمام  سنبھالی اسی طرح پھر کچھ عرصہ تک ان کی حکومت وہاں چلتی رہی ،پھر  انہوں نے  چنگیز خان کے پوتے منگول بادشاہ منگو خان پر حملےکیلئے ایک فدائی روانہ کیا گیا، جو بد قسمتی سے پکڑا گیا۔ منگو خان کو بہت غصہ آیا اور اس نے حسن بن صباح  کی قائم کردہ ریاست  کو  ختم کرنےکےلیے اپنے جھوٹے بھائی ہلاکو خان   کو  روانہ کیا۔ اس  نے ہمیشہ سے ناقابلِ تسخیر سمجھے جانے والے قلعہ الموت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ، حسن بن صباح کے جانشین اور آخری شیخ الجبال رکن الدین  کو گرفتار کر لیا، اور اسے اس کے تمام بچوں اور ہزاروں فدائیوں سمیت بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا۔ اس نے ان کی جنت اور اس کی حوریں بھی ختم کردیں۔یوں خدا وند متعال کی قدرت سے ایک فتنے کا خاتمہ ایک دوسرے فتنے  سے خاتمہ ہوگیا۔اور یہ ہمیشہ کےلیے اپنے انجام کو پہنچے اور امت مسلمہ کو ان کے شر سے پناہ ملی،ان کے پیروکار تو آج نہیں ملتے لیکن خود کش حملے کرنے کےلیے کود کش حملہ آوروں کو تیار کرنے کے لیے طریقے آج بھی وہی  اختیار کیے جاتے ہیں جو وہ کیا کرتے تھے۔

تحریر : (ڈاکٹر ایم ۔اے رحمن )

 

 

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران