نبوت کا بائیسواں جھوٹا دعویدار:ابو علی منصور الحاکم بامرللہ
آج
ہم نبوت کے جھوٹے دعویداروں کے تسلسل کی اگلی تحریر آپ کے سامنے پیش کرنے جا رہے ہیں،آج
جس کا تعارف آپ کے سامنے رکھیں گے وہ
،فاطمیوں کا چھٹا خلیفہ اور اسماعیلیوں کا بارہواں امام ابو علی منصور ہے،اس نے اپنا لقب الحاکم بامرللہ رکھا ہوا تھا،جب یہ فاطمی خلیفہ
بنا تو اس وقت اس کی عمر گیارہ سال تھی ،ہم آپ کو تین سو بیاسی ہجری کے بعد کاواقعہ بتارہے ہیں،اس کے
باپ کا نام عزیز تھا،جب وہ فوت ہوا تو اس
کی جگہ یہ گیارہ سال کی عمر میں اس کے تخت پر بیٹھا،اس کے دور میں حالات
بہت خراب ہوگئے،اس نے قتل وغارت گری کو بھی باہم عروج تک پہنچایا۔ اس کی کم عمری کی وجہ سے اس کے دو وزیر برجوان اورر حسن عمار اس کی مملکت کے امور
پر چھا گئے،ان دونوں میں باہمی کشمکش شروع ہوگئی ،دونوں اپنے اپنے حامیوں
کے ذریعے ایک دوسرے کے خلاف جنگیں لڑنے
لگے۔بالاخر انہی باہمی لڑائیوں کی بھینٹ
حسن عمار چڑھ گیااور برجوان ابو علی
کی ریاست پر چھاگیا۔تاریخ فاطمین مصر میں اس کی مکمل تفصیل درج ہے ، اس کے بعد برجوان نے حکم دیا کہ
دمشق اور دوسرے شہروں کے کتامی والیوں نکال دیا جائے۔ اس وجہ سے شام میں کتامی والیوں
کو نکال دیا گیا، لیکن اس کا یہ نقصان ہوا کہ شام کے مختلف شہروں میں معمولی آدمیوں
نے حکومتیں قائم کر لیں۔ برجوان نے وہاں بڑا لشکر بھیج کر خوب قتل وغارت گری کروائی
،جسے ابو علی منصور صرف دیکھتا اور سنتا
تھا،مگرکچھ کر نہیں سکتاتھا،اندر ہی
اندر کوئی چیز اسے کھائے جارہی تھی، شام کے انتظامات کے بعد برجوان نے افریقہ کے
معاملات کی طرف توجہ دی۔ وہاں کی بغاوتوں کو کچلا۔ اس طرح برجوان کا اقتدار بہت
بڑھ گیا ،وہ ابو علی منصور کو بھی خاطر میں
نہیں لاتاتھا، اور ابو علی سے بد سلوکی بھی
کرنے لگا۔ ایک دن موقع سے فائدہ اٹھا کر ابو علی
نے برجوان کوخودہی قتل کر دیا۔
برجوان کے قتل سے اس کی فوج نے ہنگامہ پیدا کیا، ابو علی نے ایک تقریر کے ذریعے ان فوجیوں
کو قائل کرکے انہیں اپنا ہمنوا بناکر اس
ہنگامے کو اپنے حق میں کر لیا۔اور ایک طاقتور خلیفہ کے طور پر ظاہر ہوا،اس نے
چونکہ اپنی کم عمری میں اپنے وزیروں کی لڑائیاں دیکھی تھی،اس وقت اس کے اعصاب بھی اتنے مضبوط نہ تھے،اس نے
اس کے ذہن پر بہت اثر ڈالا،تین سو نوے ہجری کے بعد اس سے عجیب وغریب حرکتیں سرزد
ہونے لگیں،اکثر رات کو یہ سوار ہو کر نکلتا اور رات کوہی اپنا دربار لگاتا ، اس نے
لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اپنا کاروبار بھی
رات ہی کو کریں۔ دوکانیں رات کو کھلتی تھیں اور روشنی کی جاتی تھی۔ غرض رات
دن سے بدل گئی۔ اکثر وہ باتیں جو راتوں کو در پردہ ہوا کرتی تھیں،وہ دن کی روشنی میں ہونے لگیں۔تین سال تک ایسا ہی سلسلہ برقرار
رہا،پھر ایک دن نامعلوم ذہن میں کیا آیا،ایک دم سے حکم جاری کردیا کہ اب رات کو
کچھ نہیں ہوا کرے گا۔چنانچہ پھر کچھ کھانوں پر پابندی لگادی،کچھ مچھلیوں کے کھانے
پر پابندی لگادی،الغرض ایسی بے ربط اور بے
ہنگم سی حرکتیں سر انجام دینا شروع کردیں،جس سے اس حوالے کوئی غلطی ہوئی،اسے اس نے
قتل کروانا شروع کردیا،انگوروں کو بالکل ختم کردیاگیا،شہد کو نایاب کردیاگیا،موچیوں
کو عورتوں کے جوتے بنانے سے روک دیاگیا،عورتوں
کے بارے انتہائی سخت گیر احکامات جاری کیے گئے۔ایک بار اس نے اپنی ساری رعایہ کو
جلانے کی کوشش بھی کی،یہ ایک بڑی آگ کا اہتمام کروانے لگا،تاکہ اپنے سب نافرمانوں
کو اس میں پھینک دے لیکن لوگوں نے معافی
مانگی تواس نے ارادہ ملتوی کردیا۔ س نے سورت و الضحیٰ پڑھنے پر بابندی لگادی،اسے
پڑھنے پرسخت سزا کا علان کیا ۔ تراویح کی
نماز موقوف کردی ۔ دوکانوں، مکانوں اور قبرستانوں پر صحابہ کرام کے ناموں کے ساتھ
گالیاں لکھوانا ضروری قرار دیا۔ اکثر لوگ جبراً دعوت اسمعیلیہ میں داخل کیے گئے
اور ان کی تربیت کے لیے دارالحکمۃ بنایا گیا۔ اس نے اذان میں حی علی خیر العمل کا اضافہ کیا، ماہ رمضان کے لیے اس نے حکم دیا
کہ وہ ظاہر روایت پر عمل نہیں کریں بلکہ میرے کہنے کے مطابق
روزے شروع کریں اور ختم کریں گے۔ اس طرح کے بہت سے احکامات اس نے دیے ۔ جب
حاکم نےبے جا سختی کی تو ساری رعایا میں
بے چینی پھیل گئی۔ ہشام بن عبد الملک نے اس
موقع کو غنیمت جانا اور رائے عامہ کواپنے حق میں کرنا شروع کردیا،اندلس کی
خلافت اس کے پیچھے تھی ۔جبکہ ابو علی ایسا سر پھرا بنا ہوا تھا کہ اس نے اپنے ہی بہت سے وزیر قتل کروادیے اور بہت سے گرفتار کرلیے
تھے۔بالاخر ہشام نے برقہ پر حملہ کر دیا۔
عامل برقہ نے حاکم کو اطلاع دی۔ حاکم نے ینال کی سرکردگی میں ایک فوج روانہ کی۔
ہشام نے راستے کے تمام کنوئیں بند کروادیئے تھے۔مصری فوج برقہ پہنچی تو پانی
نہ ملنے کی وجہ سے سخت نڈھال تھی ،وہ وہاں پہنچ کر پانی کےلیے ہشام کے ساتھ مل گئی
۔جو تھوڑی بہت سپاہی ینال کمانڈر کے ساتھ
تھے وہ ختم کردیئے گئے۔ اسی طرح اس نے
ابو علی کی کئی فوجوں کو شکست دی اور اسے کمزور کردیا۔ہشام کے حملے کا اثر یہ
ہوا کہ حاکم نے اپنے نظام حکومت میں اہم تبدیلیاں کیں۔ جن عہدہ داروں نے ہشام کے
ساتھ خفیہ مراسلت کی تھی۔ انہیں عہدوں سے
معزول کر دیا۔ ان عمالوں آہستہ آہستہ قتل کروا دیا ۔آخر زمانے میں ابو علی پر جنون کا دورہ پڑا اور اس کو یہ گمان
ہونے لگا کے خدا اس کے اندر حلول کر گیا ہے۔ اس نے اپنے مریدوں کو حکم دیا کہ اس
کو پوجیں ، جب اس کا نام آئے تو وہ سجدے میں جھک جائیں۔ اس کے چند داعیوں نے یہ
مذہب اختیار کر لیا اور اسے خدا ماننے لگے اور اس کی تائید میں حسن بن حیدر فرقانی
نے ایک رسالہ بھی لکھ دیا۔ جس میں ابو علی
کی الوہیت کی تائید تھی اور کہا کہ
ابو علی مجسم خدا ہے۔ اس کے ماننے والوں کی
تعداد روز بروز بڑھنے لگی۔ ابو علی نے حسن کو بلا کر بڑے انعام سے نوازا ۔ لیکن
جلد ہی بازار میں لوگوں نے اس کو قتل کر دیا۔ اس نے لوگوں کو کہا تھا کہ وہ خدا کی بجائے ابوعلی
کی عبادت کریں۔ حسن کے بعد ابوعلی
کو ایک دوسرا حمزہ نامی مقرر مل گیا۔ یہ
بھی حلول و تناسخ قائل تھا۔ اس نے اپنے پیروکاروں
کو ہدایت کی کہ خدا کی بجائے ابو علی کی عبادت کریں۔ ابو علی نے اسے بھی
بہت نوازا،لوگ اس سے بہت تنگ آگئے۔اس سے نفرت کرنے لگے اور اس کا اظہار بھی کرنے
لگے۔ اس پر ابو علی نے اپنے غلاموں کو خفیہ طور پر فسطاط بھیجا،
انہوں نے فسطاط میں لوٹ مار کی اور آگ لگادی، جس پر ترکوں اور کتامیوں نے ان کا
مقابلہ کیا اور بہت سے لوگ مارے گئے،یوں اپنی ہی ریاست کے امن وامان کوبرباد کرنے
والا یہ اس دور کا بشار الاسد ثابت ہوا۔ ابو علی اکثر گدھے پر سوار ہو کر قاہرہ کے
باہر رات کو گھوما کرتا تھا۔ ایک دن اس کے
ساتھ دو خدمت گار تھے۔ اس نے انہیں واپس بھیج دیا اور خود حلوان کے شرقی علاقہ کی
طرف چل دیا۔ جب اسے دیر ہو گئی اور وہ واپس نہ آیا، اس کے حواری
اسے تلاش کرنے لگے مگر یہ کسی کو نہیں ملا۔ البتہ اس کے گدھے کی لاش اور
اس کے خون آلودہ کپڑے ایک جگہ پڑے ہوئے
ملے، مگر اس کا پتہ نہیں چلا۔ جو لوگ اس کی محبت میں غلو رکھتے تھے، وہ یقین نہیں
کرتے تھے کہ حاکم مرا ہے۔ ان کا خیال تھا حاکم دوبارہ آئے گا،وہ دوبارہ کبھی نہ آیا،بالاخر
اس کے نام لیوا بھی ختم ہو گئے،یہ فتنہ بھی اپنے عروج کے بعد گمنامی میں
چلا گیا اور مٹ گیا۔اس شخص کو اقتدار ملا تو اقتدار نے اس کا ایسا دماغ خراب کیا
کہ یہ خود کو خدا ہی سمجھنے لگا۔بالاخر کسی
اللہ کے ماننے والے نے اس دجال کاکام تمام کیا ،اور امت کو اس فتنے سے نجات
میں کرادر ادا کیا۔
تحریر : (ڈاکٹر ایم ۔اے رحمن )
ایک تبصرہ شائع کریں