نبوت کا چوبیسواں جھوٹا دعویدار :ابو القاسم احمد بن قسی

نبوت کا چوبیسواں جھوٹا دعویدار :ابو القاسم احمد بن قسی


نبوت کا چوبیسواں جھوٹا دعویدار :ابو القاسم احمد بن قسی  

نبوت و رسالت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتی ہے،اس کے لیے خود کوئی محنت کرکے یہ مقام حاصل نہیں کر سکتا،اور جو اس مقام کا خود سے دعوی کرے گا، وہ نبی کریم (ص) کے فرمان کے مطابق دجال اور کذاب  قرار پائے گا،اللہ تعالیٰ نے کم وپیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء خود  مبعوث کیے،اور یہ سلسلہ نبی آخر الزمان  جناب محمد کریم (ص) پر ختم فرما دیا،اس کے بعد بہت  سے بد بخت  آئے ،جنہوں نے خود سے نبوت کا دعوی کر دیا ،بلکہ کئی جاہلوں نے تو خود سیدھا خدائی کے منصب پر ہی کود  فائز کرلیا،ایسے لوگوں کا تعارف بھی ہم آپ کو پچھلی تحریر میں کروا چکے ہیں۔ایسے ہی بد بختوں میں سے ایک  ابو القاسم احمد  بن قسی تھا،یہ شخص چھٹی صدی  ہجری میں بلاد مغرب میں  پید ا ہواتھا۔علامہ ذہبی نے اپنی تاریخ میں اور ابو القاسم دلاوری نے اپنی کتاب جھوٹے نبی  میں اس کا ذکر کیا ہے ،پہلے پہل یہ شخص راسخ  مسلمان تھا اور   مسلمانوں  کے مذہب اور مسلک پر کاربند تھا لیکن بعد میں شیطان کے جال میں آگیا،اور اس نے  مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح قرآنی آیات کی عجیب عجیب تاویلات بیان کرنا شروع کردیں۔  ملحدوں کی طرح قرآن کی نصوص کے مفہوم کو اپنی نفسانی اور شیطانی خواہشات کے مطابق ڈھال کر بیان کرنے لگا۔ایسا کرتے کرتے ایک دن  یہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اسے لگا کہ اب میں نبوت  کے مقام  تک  پہنچ گیا ہوں ،چنانچہ اس نے  اپنی نبوت کا دعویٰ  کردیا۔جس طرح اس سے پہلے کذابوں اور دجالوں کو پیروکار مل جاتے تھے،اسی طرح اسے بھی وافر مقدار میں دستیاب ہوگئے۔اور وہ اس کی عقیدت مندی میں ہر حد تک جانے کو تیار رہتے تھے۔اس شخص نے  بلاد مغرب میں نبوت کا دعوی کیا تھا،وہاں اس وقت یوسف بن تاشفین کی حکومت تھی،لیکن وہ عدم استحکام کا شکار تھی ،انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ  احمد بن قسی نام کا کوئی شخص نبوت کا دعویدار ہے،تو انہوں نے اسے اپنے دربار میں بلالیا،تاکہ اس  سے اس حوالے سے خود جان سکیں  ،کہ جو خبر پہنچی ہے وہ درست ہے یا نہیں ، انہوں نے  اسے بلایا اور اس سے اس کی  نبوت کے دعوے کے   حوالے سے پوچھا ، اس نے صاف لفظوں میں اپنی نبوت کا اقرار نہیں کیا،  ادھر ادھر کی  ہانک کر اور قرآنی آیات کی مختلف تاویلات  پیش کرتے ہوئے بادشاہ کو مطمئن کرکے چلا آیا،یوسف بن تاشفین کی حکومت بھی چونکہ اس وقت عدم استحکام کا شکار تھی،اس لیے  وہ بھی  کوئی نیا محاذ نہیں کھولنا چاہتے تھے۔چنانچہ اس نے وہاں سے واپس آنے کے بعد گاؤں میں ایک مسجد تعمیر کرائی اور اس میں بیٹھ کر اپنے مسلک اور مذہب کا پرچار کرنے لگا۔ جب اس کے ماننے والوں کی تعداد بہت  بڑھ گئی تو اس نے ثلب کے مقامات احیلہ اور مزیلہ پر  حملہ کیا اور اس پر  قبضہ کرلیا۔ اس پر قبضہ کرنے کے بعد اس کے اس کے سرداروں کے ساتھ  باہمی اختلافات پیدا ہوگئے ،اس کا ایک فوجی سردار ہی اس کے سامنے آگیا، اور اس کا  شدید مخالف بن  گیا، اسے دیکھ کر اس کے  دوسرے معتقدین بھی اس سے الگ ہونے لگے ،صرف الگ ہی نہیں ہوئے  بلکہ  اسے ہلاک کرنے کی تدبیریں سوچنے لگے،اس وقت تک  ان کے سامنے بھی اس کی حقیقت  واضح ہوچکی تھی۔ جبکہ دوسری طرف انہیں ایام میں مراکش کی حکومت پر  شاہ یوسف بن تاشقین  کی جگہ  عبدالمومن  براجمان ہوگئے  ۔اس  نبوت کے متردد شخص نے سو چا  کہ  اس نے نئی نئی حکومت سنبھالی ہے،ا س لیے اسے اپنے دام فریب میں پھنسایا جا سکتا ہے ،چنانچہ یہ ان کے پا س گیا،انہیں اپنی حمایت کا یقین دلایا ،لیکن  عبدالمومن  اس کی باتوں کے جال میں  نہ پھنسا ،بلکہ اس نے بھی اس کی نبوت کے جھوٹے دعوے کے حوالے سے پوچھ لیا۔تو اس نے یہاں بھی اسی طرح کی ہانکنا شروع کرد یں اور  کہنے لگا کہ  جس طرح صبح صادق بھی ہوتی ہے اور کاذب بھی اسی طرح نبوت بھی دو طرح کی یعنی صادق اور کاذب۔ میں نبی ہوں مگر کاذب ہوں۔یہ سن کر  عبدالمومن نے اسے  قیدکردیا۔اور قید میں ہی اس کی موت ہوئی ،اس کی قید کے ساتھ ہی اس کی نبوت کا جھوٹا دعوی اپنے انجام کو پہنچا۔ اور  اس کے ساتھ   اس کی خانہ ساز نبوت  دم توڑ گئی۔معتقدین پہلے ہی متردد ہوچکے تھے،اس لیے  اس کے نام لیوا بھی ختم ہوگئے،مزید لوگ اس کی گمراہیوں سے بچ گئے۔

 

عقیدہ ختم نبوت  اسلام کی  روح  ہے اور اس پر پختہ ایمان  اسلام کی بنیاد ہے۔ ختم نبوت  میں کسی قسم کا  شک  دینی عمارت  کو منہدم کرنے کے مترادف ہے،اس لیے   ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کا بنیادی  عقیدہ ہے، اس کے بغیر کسی کا بھی ایمان مسلمانوں کے نزدیک معتبر نہیں ہوسکتا۔عقیدہ ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ سیدنا محمد کریم (ص)اللہ تعالی کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ کو  مبعوث فرماکر انبیا  اور رسول بھیجنے کا سلسلہ ختم فرکردیا ہے۔ اب آپ (ص) کے بعد کوئی نبی اور رسول  مبعوث نہیں ہوگا۔اسی  ایمان پر ہمارا خاتمہ دربار الہی میں ہمیں  سرخرو کرے گا۔

(تحریر : ڈاکٹر ایم ۔اے رحمن )

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران