نبوت کا پچیسواں جھوٹا دعویدار :عبدالحق بن سبعین مرسی
اللہ
تعالیٰ نےنبی رحمت جناب محمد کریم (ص)
کونبوت ورسالت سے سرفراز فرمایا ،اور آپ پر ہی اپنی نبوت کا خاتمہ کرکے ختم نبوت
کا تاج آپ کے سر پر رکھ دیا،اب آپ کی ہدایات قیامت تک کے لیے کار آمد ہیں ،لیکن
شیطان نے
انسانوں کو گمراہ کرنے کےلیے اس میں نئے نئے طریقوں سے اس میں نقب زنی کرنے کی کوشش کی،کسی سے ایک طرح
سے ختم نبوت پر ڈاکہ ڈلوایا تو کسی سے کسی دوسرے سے دوسری طرح سے۔ہم پہلے کئی ایسے ہی نبوت کے نقب زنوں
اور جھوٹے مدعیان نبوت کے حوالے سے کئی شخصیات کا تعارف کرواچکے ہیں ، آج ہم نبوت
کے جس جھوٹے دعویدار کا تعارف آپ کے
سامنے پیش کرنے جا رہے ہیں ،تاریخ میں اسے عبد الحق سبعین مرسی
کے نام سے جانا ہے،مورخین کےہاں یہ
ابو اسحاق ابراہیم بن یوسف، ابن المار کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہ چھے سو گیارہ ہجری میں پیدا ہوا،اس نے آنکھ
کھولی تو ارد گرد علم وحکمت کا دور دورہ پایا ۔یہ جب بالغ ہوا اور شعور کی عمر کو
پہنچا تو اسے منطق ، حکمت ، الہیات اور ریاضی کے مطالعے کا
شوق پیدا ہوا، اس نے ان مضامین میں خاصی مہارت حاصل کی،اس کے بعد اس نے طب اور کیمیا
میں مہارت حاصل کی ،یہ سب کچھ حاصل کرنے
کے بعد یہ ان علوم کی تحصیل سے تصوف کی طرف چلا گیا،تصوف میں اس کا استاد ابن احلی
تھا،تصوف میں بھی اس نے کمال حاصل کیا،تصوف میں ہی اس نے ایک کتاب لابد العارف بھی
لکھی ،اس میں اس نے بہت باریک اور دقیق بحثیں کی ہیں،اہل علم ہی انہیں سمجھ سکتے ہیں۔علمی
مہارت کا حال یہ تھا کہ مورخین لکھتے ہیں کہ مشہور محدث اور اپنے وقت کے چیف جسٹس شیخ ابن دقیق العید ایک بار ا سکی مجلس میں بیٹھے تو وہ بھی اس کی
علمی قابلیت کے معترف ہوگئے۔جب یہ سارا مقام حاصل کرچکا،لوگ
اسے ایک بہت بڑا عالم دین سمجھنے لگے تواس کا دماغ خراب ہونا شروع ہوگیا،یہ آہستہ
آہستہ اپنے علوم وفنون کو مختلف تاویلات
کےلیے استعمال کرنے لگا اور ان تاویلات
سے اپنی نبوت کی راہ نکالنے لگا،علامہ شمس
الدین ذہبی نے اپنی تاریخ میں ذکر کیاہے
کہ اس شخص نے بالاخر نبوت کا دعوی کردیا۔اور
اسی نبوت کے جھوٹے دعوے کی وجہ سے یہ شخص بلاد مغرب سے نکالا گیا۔یہ کہا کرتاتھا
کہ نبوت کے معاملے میں گنجائش تو بہت ہے لیکن ابن آمنہ یعنی نبی آخر الزمان سیدنا
محمد کریم(ص) نے لانبی بعدی کہہ کر اس میں بہت تنگی کردی،اور ان کی یہ بات نعوذ
باللہ اب درست نہیں ہے۔اس نے اپنی نبوت کا
دعوی مراکش کے شہر مرسیہ میں کیا تھا،اس کے پیروکار اسی کے نام کی نسبت
سےسبعینیہ کہلاتے ہیں۔اس نے اپنے پیروکاروں سے کہہ رکھاتھا کہ اعمال کی کوئی اہمیت نہیں ،اس لیے نماز،روزہ ،اور
دوسرے مذہبی فرائض کی ادائیگی کی کوئی ضرورت نہیں ۔انہی باتوں کی وجہ سے جب اسے وہاں
سے نکالاگیا تو یہ جوانی کی عمر میں تھا
اور اس وقت ایک بڑی جماعت کو اپنا گرویدہ بناچکا تھا،جس میں ہر عمر کے افراد شامل
تھے،خصوصا اس کی جماعت میں طلباء اور بڑی عمر کے افراد کی بہتات تھی،شاید اس کی وجہ یہ
تھی کہ یہ سب کو نماز ،روزہ معاف کرکے
کہتا تھا کہ آپ کو فکر کی ضرورت نہیں
،مجھے خدا کی طرف سے یہ سب بتایا گیا ہے اور میں تمہارا ذمہ دار ہوں،بد عمل اور
سست لوگ اس کے پیچھے ہوگئے۔اس کی جماعت کی
خوبی یہ تھی کہ یہ جہاں جاتا،وہ بھی ساتھ ہی ہوتی،دس سال تک اس نے اپنی جماعت کے
ساتھ مل کر مختلف علاقوں کا سفر کیا،اس دوران دور دراز علاقوں میں اس کی اچھی اور
بری دونوں طرح کی شہرت پھیل گئی،کچھ اس کے
مداح بن گئے تو کچھ اسے نبوت کا جھوٹا دعویدار ہی سمجھتے،اسی حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ مین آپ سے شئیر کرتا ہوں،اسی بھاگم بھاگ کے دور میں ایک دن ایک علاقے میں پہنچے تو وہاں ایک حمام تھا،اس کے مرید اسے
وہاں لے گئے،وہاں حمام کے مالک نے اس کی خوب خاطر مدارت کی،اس کی شخصیت بظاہر بہت
معصومانہ تھی،حمام کے ایک خادم نے دوران خدمت اس سے پوچھ لیا کہ جناب کہاں سے تشریف لائے،تو اس نے بتایا کہ میں مرسیہ سے ہوں،وہ خادم مرسیہ
کے جھوٹے مدعی نبوت کے نام سے واقف تھا،لیکن
وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ میں جس کی خدمت کررہاہوں ،یہ شخص وہی ہے جس کے بارے میں میں بات کررہاہوں،چنانچہ اس نے اس کا نام لیکر
برا بھلا کہنا شروع کردیا کہ ابن سبعین
زندیق ہے،وہ نبوت کا جھوٹا دعوی کرتا ہے وغیرہ وغیرہ ،یہ سن کر اس کے پیروکار
کچھ بے قرار سے ہونے لگے،لیکن ابن سبعین
نے انہیں اشارہ کیا کہ اسے کچھ نہ کہو ،اسے میرے حوالے سے معلوم نہیں
کہ میں ہی وہ شخص ہوں جسے یہ برا بھلا کہہ رہاہے،وہ خادم تھا کہ چپ ہی نہ
ہورہاتھا،بالاخر ابن سبعین یہ سن کر غصے میں
آگیا اور خود ہی بول پڑا ،تکبر سے اسے کہنے لگا کہ تو اسی کے پاؤں کے نیچے ہے جسے تو گالیاں دے رہاہے،یہ سن
وہ خادم بےچارہ خاموش ہوگیا،او راستغفر
اللہ پڑھنے لگا،کہ میں کس بد بخت کی خدمت
میں لگ گیا ہوں،اسی ندامت میں ابن سبعین یہاں سے نکلا،اپنی بری شہرت سے بہت ڈس
ہارڈ ہوا،چلتا چلاتا مکہ مکرمہ پہنچ گیا،ابن سبعین لوگوں کو ساتھ ملانے کے ایک چال یہ چلتا تھا کہ یہ
جہاں جاتا ،وہاں کے ضرورت مندوں کا بہت خیال
رکھتا تھا،مکہ مکرمہ میں بھی اس نے وہان کے حاکم سے مل کر ایسا ہی
منصوبہ شروع کردیا۔شیخ صفی الدین ہندی کا بیان ہے کہ چھے سو چھیاسٹھ ہجری میں میری اس سے مکہ معظمہ میں ملاقات ہوئی تھی،علم
وفلسفہ میں اس سے مباحثے ہوئے ،اس نے مجھے
مکہ مکرمہ سے نکلنے کا کہا تھا کہ کہیں یہ میری پول نہ کھول دے، وہ کہتے ہیں کہ میں
نے اس سے وہاں قیام کے بارے میں
پوچھا تو اس نے کہا کہ یہاں کا حاکم اور
لوگ میرے معتقد ہوگئے ہیں اس لیے میں تو اب یہیں رہوں گا، مکہ میں اس نے اتنا اثر
ورسوخ بڑھالیا تھا کہ اس کے مخالفین کو وہاں سے نکلنا پڑا،مقامی حکمران کو اس
نے مال کے ذریعے اپنے ساتھ ملایا ہوا
تھا،مال بنانے کےلیے یہ اپنے فنون کو
بروئے کار لاتا اور سونا بنا تا تھا،اور اس کے ذریعے لوگوں کو اپنے ساتھ ملاتا تھا، ابن خلدون کی تاریخ میں
لکھا ہوا ہے کہ یہ شخص سونا بنانا جانتا تھا،اس نے اس کے ذریعے اسی
ہزار دینار اہل مکہ پر خر چ کیے اور اس
طرح انہیں اپنا معتقد بنایا تھا،کئی کتب تصنیف کیں ۔چھے سو ارسٹھ ہجری میں اس نے
اپنی کسی بیماری کے علاج کےلیے سینگی لگوائی،اس سے کون زیادہ بہہ گیا اور
اسی سے یہ جھوٹا مدعی نبوت اپنے انجام کو
پہنچا۔اس کے مرنے کے بعد اس کے پیروکار بھی اس کے نقش قدم سے پھر گئے اور اس کا نام تک لینا چھوڑ دیا۔یوں یہ
فتنہ اپنے انجام کو پہنچا۔
(تحریر : ڈاکٹر ایم ۔اے رحمن )
ایک تبصرہ شائع کریں