عبداللہ بن ابی



عبداللہ بن ابی

ہم  اسلام اور اہل اسلام سے غدادری کرنےوالے یا منافقت سے انہیں نقصان پہنچانے والوں کے تعارف  پر مشتمل سیریز آپ کے سامنے پیش کرنے جارہے ہیں۔آج اس سلسلے کی  پہلی تحریر آپ کے سامنے پیش خدمت ہے جس میں  ہم مشہور منافق عبد اللہ بن ابی کا تعارف آپ کے سامنے رکھیں گے۔ منافقین مدینہ میں سب سے پہلا اور اہم نام عبداللہ بن ابی ابن سلول کا ہے۔وہ اپنی دادی کے نام سے معرو ف  تھا۔ اس کی دادی کا نام سلول تھا۔ جنگ بعاث کے بعد اس نے زیادہ اہمیت اختیار کرلی تھی۔  اوس و خزرج دونوں نے متفقہ طور پر طے کرلیا تھا کہ عبداللہ بن ابی کو مدینہ کا بادشاہ بنادیا جائے گا۔ اس کو تاج پہنانے کی ساری تیاریاں بھی کرلی گئی تھیں، اسی دوران  رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ اس وجہ سے صورت حال بدل گئی۔

 

عبداللہ بن ابی ابن سلول نہایت  مالدار، خوبصورت اور دل کش شخصیت کا مالک تھا۔ مدینہ میں اس کا طوطی بولتا تھا، وہ قبیلہ خزرج کا سردار تھا۔قبیلہ خزرج اوس کے مقابلے میں  بڑا  تھا ۔ قبیلہ  اوس نے اپنے افراد کی قلت کے باعث دو یہودی قبائل بنی نضیر اور بنوقریظہ  سے دوستی کررکھی تھی۔ جب کہ خزرج نے  ایک چھوٹے قبیلے بنو قینقاع سے معاہدہ کررکھا تھا ۔ اس پس منظر میں تعجب ہوتا ہے کہ  خود اس کا بیٹا عبداللہ بن عبداللہ بن ابی بن سلول مخلص ترین  مسلمان ہوگیا اور اس  کی بیٹی جمیلہ بھی مسلمان ہوگئی تھی۔ اس کا داماد حنظلہ بن عامر  شہید ہوئے اور غسیل ملائکہ کہلائے۔ اس نے اپنی تاج پوشی کی تقریب کا انتظار کیا، مگرجب بدر کے موقعہ پر  دوہجری  میں  اہل اسلام کوپہلی بڑی فتح  نصیب ہوئی، اور سارے سرداران مکہ قتل کردئیے گئے تو مدینہ کے  یہود  بھی ڈر گئے۔ اس وقت خوف  اور مسلمانوں کی طاقت بڑھ جانے کی وجہ سے ابن سلول بظاہر مسلمان ہوگیا ۔لیکن  اصل میں وہ  نہ صرف یہ کہ منافق تھا بلکہ منافقوں کا سردار بن گیا۔مورخین کے مطابق  تین سو منافق مرد اور ستر منافقہ  عورتیں  اس کی ہمنوا بن گئیں تھیں  ۔ یہ لوگ مسلمانوں کے اندر اپنا اثر رکھتے تھے اور مسلمان کہلاتے تھے۔بظاہر  نماز،روزہ بھی   کرتے تھے ۔ لیکن در حقیقت اسلام کے خلاف سازش میں مشغول رہتے۔  سازش کا یا  مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع   اپنے ہاتھ سے نہیں  جانے  دیتے تھے۔ اس لیے ان سے نپٹنا آسان نہ تھا۔ یہ نبی کریم (ص) تحمل و بردباری اور اعلیٰ اخلاق کا کرشمہ تھا کہ اس طبقہ کے ساتھ نہایت فاضلانہ اخلاق کا مظاہرہ کیا اور منافقوں کے نہایت رزائل اخلاق کو برداشت کیا۔عبداللہ بن ابی  سلول  عام طور سے غزوات میں شریک نہیں ہوتا تھا۔ اس کی مدینہ میں عظمت اور قبیلہ خزرج میں اہمیت بہت زیادہ تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کی عزت کرتے تھے۔ خزرجی صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کرتے تھے کہ :اس پررحم کیجئے۔ اس لیے کہ یہ منافقانہ سوچ رکھتا ہے کہ مدینہ میں آپ کی آمد سے اس کی بادشاہت چلی گئی ہے۔ اسی  لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کی دل دہی کیا کرتے تھے۔ ورنہ اندیشہ تھا کہ اس  کے قتل اور سخت سزا سے  اتحاداور معاہدے  ختم ہوجائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے  کبھی کوئی سزا نہیں دی گئی۔

 

غزوہ  بنی المصطلق میں عبداللہ بن ابی ابن سلول شریک تھا۔ پانی کے لیے ایک جہنی صحابی اور مہاجر صحابی میں جھگڑا ہوا، جہنیوں نے انصار کو مدد کے لیے پکارا۔ مہاجر نے مہاجرین کو آواز دی۔ اس موقع پر ابن سلول نے انصار کو مخاطب کرکے کہا کہ یہ تم سب کا بڑا کارنامہ ہے، تم ان مہاجرین کو اپنے گھر لے آئے، اپنا آدھا مال دے دیا اور ان پر پیسہ خرچ کررہے ہو۔ میں کہتا ہوں کہ تم ان کی مدد کرنا چھوڑ دو تو یہ سب کہیں اور بھاگ جائیں گے۔ مدینہ چل کر میں دیکھوں گا کہ عزت والے ذلت والے کو نکال دیں گے۔ اس وقت ایک نوجوان صحابی ارقم بن ارقم موجود تھے، انھوں نے جاکر پورے واقعہ کی اطلاع  رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی غیرت ایمانی کو جنبش ہوئی، انھوں نے فرمایا: یا رسول اللہ حکم دیجئے کہ میں اس کی گردن قلم کردوں۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر لوگ کہیں گے کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔اس واقعہ کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ایک صحابی نے کہا کہ ابن سلول کو قتل کردینا چاہیے تو دوسرے صحابی جو خزرج کے  اور ابن سلول کے ہم قبیلہ تھے ۔وہ  بولے کہ تم ابن سلول کو قتل نہیں کرسکتے وہ ہمارا سردار ہے۔ حضوراکرم   صلی اللہ علیہ وسلم نےدرمیان  میں آکر  معاملہ کو رفع دفع کروادیا۔جب ابن سلول کو معلوم ہوا کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو پورے واقعہ کی اطلاع ہوگئی ہے تو وہ جلدی  سے آپ کی کی خدمت میں پہنچا اور قسم کھاکر کہا کہ میں نے کچھ نہیں کہا ہے۔ اس واقعہ کے کچھ دیر بعد سورہ المنافقون نازل ہوئی، جس سے ابن سلول کی جھوٹی قسم واضح ہوئی اور حضرت ارقم بن ارقم کی رپورٹ صحیح ثابت ہوئی۔ رسول کریم (ص) نے حضرت ارقم کو بلاکر سورہ منافقون سنادی۔ اب خدشہ یہ تھا کہ خزرج اور مہاجرین میں اختلاف نہ شروع ہوجائے، اس لیے رسول کریم (ص) نے سفر کا حکم دے دیا، حالانکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سفر نہیں کرتے تھے اور پھر پورے دن اور پوری رات سفر کرتے رہے، جب تھک گئے تو صحابہ کرام کو پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا، سارے لوگ سوگئے۔ کسی نے رسول کریم (ص) سے پوچھا کہ آپ تو اس وقت سفر نہیں کیا کرتے تھے۔ نے فرمایا کہ کیا تم نے ابن سلول کی بات نہیں سنی۔ مطلب یہ تھا کہ فتنہ کو روکنے کے لیے یہ کام کیاگیا تھا۔اسی سفر میں حدیث افق کا واقعہ پیش آیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کسی ضرورت بشری کے تحت لشکرگاہ سے باہر گئی ہوئی تھیں، جس کاعلم کسی کو نہ ہوا۔ جب وہ واپس لوٹنے لگیں تو ان کی نظر اپنے گلے کے ہار پر پڑی جو ٹوٹ کر گرجانے کی وجہ سے نظر نہ آیا۔ وہ ان کو تلاش کرنے میں لگ گئیں اور دیر ہوگئی، ادھر قافلہ اپنی جگہ سے کوچ کرگیا تھا۔ نہ وہاں کوئی آدمی ہے نہ آدم زاد۔ مجبور ہوکر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئیں یہاں تک کہ ان کو نیند آگئی۔ ابن سلول نے اس واقعہ کا فائدہ اٹھایا اورحضرت عائشہ پر تہمت لگا دی ۔ صحیح صورت حال کی وضاحت پر قرآن کی سورہ نورنازل ہوئی ۔اسے تہمت قرار دیا گیا۔ ابن سلول کی مدینہ میں اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس  کے لیے مسجد نبوی میں منبر کے قریب ایک ممتاز جگہ بنادی گئی تھی۔ اس ممتاز جگہ سے وہ لوگوں کو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری کی دعوت دیا کرتا تھا۔ لیکن غزوہ  احد کا موقع آیا اور اس منافق کے مشورے کو رسول کریم نے تسلیم نہیں کیا، اس لیے کہ صحابہ کی اکثریت چاہتی تھی کہ شہر مدینہ سے نکل کر جنگ کی جائے۔ اس لیے رسول کریم (ص) نے باہر نکلنے کافیصلہ کرلیا، حالانکہ خود  آپ  کی رائے مدینہ میں رہ کر دفاع کرنے کی تھی۔ بہر حال حضور  صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز پڑھ کر تیار ہوکر نکلے اور مدینہ کے باہر رات گزاری۔ ابن سلول منافق بھی حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نکلا، اس کے ساتھ اس کے تین سو متبعین بھی تیار ہوکر جنگ کے لیے نکل پڑے ۔ جب صبح ہوئی اور حضور  صلی اللہ علیہ وسلم احد کے میدان کے لیے چلے جہاں کفار پہلے سے موجود تھے تواس عین موقع پر ابن سلول نے خود بھی اور اس کے متبعین نے مسلمانوں سے علیحدگی اختیار کی اور لوٹ کر مدینہ چلے آئے۔ ابن سلول نے کہا کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری مخالفت کی اور لونڈوں کا کہنا مان لیا۔اگر ہم کو معلوم ہوتا کہ یہ واقعی جنگ ہے تو ہم ضرور شریک ہوتے۔منافقین بلکہ عبداللہ بن ابی ابن سلول کے اس رویہ سے کئی سوالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب ابن سلول باہر نکل کر جنگ کرنے کا مخالف تھا تو پھر حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلح ہوکر گھر سے کیوں نکلا اور پھر ساتھ رات بھی گزاری؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام ایک سازش کے مطابق کیاگیا تھا، مقصد یہ تھا کہ عین جنگ کے موقع پر ایک تہائی تعداد کو دشمن کے سامنے سے نکال لیا جائے تاکہ ایک طرف مسلمانوں کی ہمتیں ٹوٹ جائیں اور کفار کی ہمتیں بڑھ جائیں۔ اس کے تین سو آدمی مدینہ لوٹ آئے۔ایسے سخت منافق کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ بن ابی بن سلول نہایت سچے پکے اور کٹر مسلمان تھے۔ انھوں نے جب سنا کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم ابن سلول کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو وہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بولے یا رسول اللہ میں اپنے باپ کا نہایت فرماں دار ہوں لیکن اگر کسی نے میرے والد کو قتل کیا تو ہوسکتا ہے کہ پدری عصبیت کے تحت میں اس کے قاتل کو قتل کردوں اور ایک مسلمان کو قتل کرکے میں جہنم میں جاؤں۔ لہٰذا آپ حکم دیجئے میں اپنے والد ابن سلول کا سر کاٹ کر آپ کی خدمت میں پیش کردوں۔ مجھے اس میں کوئی تذبذب نہیں ہوگا۔ اس پر حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک تمہارے والد میرے ساتھ ہیں۔ میں ان کے ساتھ حسن سلوک کروں گا چنانچہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے تاعمر اس منافق کے سردار کے ساتھ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا۔ اس کو اپنی قمیص بھی دی، اس کی نماز جنازہ پڑھائی اوراس کے لیے دعائے مغفرت کی۔لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت نہیں فرمائی بلکہ آپ کو بھی اس کی مغفرت سے روک دیا۔

 
مصادر ومراجع
الرحیق المختوم۔از: مولاناصفی الرحمن مبارکپوری
تاریخ اسلام ۔مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی۔
سیرت ابو بکر صدیق۔از؛محمد حسین ہیکل
رحمۃ اللعالمین۔از:قاجی سلیمان منصور پوری
الکامل فی التاریخ ۔از: علامہ ابن ابن اثیر

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران