نبوت کا تیسواں جھوٹا دعویدار:مرزا غلام احمد قادیانی

نبوت کا تیسواں جھوٹا دعویدار:مرزا غلام احمد قادیانی


نبوت کا تیسواں جھوٹا دعویدار:مرزا غلام احمد قادیانی

مرزا قادیانی کے مختلف پینترے

نبوت کے جھوٹے دعویداروں کے تسلسل  میں تیسویں نبوت کے جھوٹے دعویدار  مرزا غلام احمد قادیانی کے تعارف کے حوالے سے  تحریر آپ کے سامنے  رکھ رہے ہیں،اسی سلسلے میں ایک تحریر ہم پہلے بھی آپ کے سامنے رکھ چکے ہیں ،بہت سے کاموں میں ناکام رہنے کے بعد  مذہبی راہنما کے طور ظاہر ہونے والے  مرزا غلام احمد قادیانی نے  سب سے پہلے تقابل ادیان کے  ماہر کے طور پر خود پیش کرکے لوگوں کواپنی طرف متوجہ کیا ، جتنے بھی جھوٹے اور مکار لوگ ہوتے ہیں ان کی گفتگو سنیں یا ان کی تحریریں پڑھیں تو ان  میں الجھاؤ  لازمی ہوگا۔ بے سرو پا اور بے تکی باتیں ہوں گی۔ اس طرح کا فلسفہ بگھارا جائے گا کہ عام انسان کو اس کی سمجھ ہی نہیں آئے گی۔ یہی کام مرزا غلام احمد قادیانی نے کیا۔ اس کی کتاب  براہین احمدیہ کے بعد  انبیاء ورسل کی اس قدر توہین  شروع ہوگئی  کہ جو شاید پہلے اس طرح نہ تھی، کیونکہ براہین احمدیہ میں ان کے حوالے سے زبان ہی ایسی استعمال کی گئی تھی، اسی دوران امرتسر میں مرزا قادیانی کے دوست حکیم محمد شریف کلانوری نے اس کو مجددیت  کے دعویٰ کا مشورہ دیا۔ چنانچہ مرزا نے مجددیت کا ڈھنڈورا  پیٹنا شروع کردیا اور دنیا بھر میں مختلف زبانوں میں لٹریچر بھجوانے شروع کردیے۔ لیکن مرزا کے مجددیت کے دعوے کے بعد بیس ہزار دعوتی اشتہار اس نے مختلف غیر مسلموں کو بھیجے لیکن اس سے  ایک بھی غیر مسلم اس کا ہم نوا نہ ہوا۔ اس نے پہلے ہی دن نبی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ آہستہ آہستہ وہ آگے بڑھا۔ پہلے مرحلے  میں  تیئیس مارچ اٹھارہ سو نواسی کو لدھیانہ میں اس نے  باقاعدہ لوگوں سے بیعت لینے   کا آغاز کیا۔ اپنے مریدوں سے بیعت لینا لوگوں کے لئے عام سی بات تھی۔ بر صغیر میں ہزاروں مشائخ اور پیر ہیں جو لوگوں سے بیعت لیتے ہیں۔ چونکہ یہ بطور مبلغ لوگوں میں مشہور تھا اس لئے کسی نے اس کی بیعت لینے پر زیادہ تنقید نہیں کی۔علمائے لدھیانہ میں ممتاز حیثیت کے حامل مولوی محمد، مولوی عبداللہ اور مولوی اسمعٰیل تینوں حقیقی بھائیوں کو اس کی فکر کے بارے میں تفصیلی  معلوم ہوا  تو انہیں  مرز ا کی فکر میں   الحاد  اورزندقیت  نظر آئی ،جس کے بعد  انہوں نے شہر میں اعلان کردیا کہ یہ شخص مجدد نہیں بلکہ ملحد وزندیق ہے اور مرزا کی تکفیر کا فتویٰ جاری کردیا۔ تھوڑے ہی دنوں بعد علماء حرمین کی طرف سے بھی مرزا کے کفر کے فتوے ہندوستان پہنچ گئے۔ جب تکفیری فتوؤں کے بعد مرزا قادیان کی سرگرمیاں متاثر ہونے لگیں تو اس نے مسیح ہونے کے اعلان کی منصوبہ بندی شروع کردی،مرزا غلام احمد کا دوسرا دور اٹھارہ سو نوے سے شروع ہو کرانیس سو تک رہتا ہے۔ اس دور میں مرزا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ دنیا میں واپس آنے ‘ آسمانوں میں ان کا زندہ اٹھایا جانا ،اس کا انکار کرتا ہے۔

 

پھر وہ ایک قدم آگے بڑھتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ میں ہی وہ مسیح موعود ہوں یعنی وہ عیسیٰ جن کے دوبارہ دنیا میں آنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔وہ پھر مثیل مسیح یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی مثل ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ پھر اس نے صاحب کن فیکون اور امام زمان ہونے کا دعویٰ بھی کر دیا۔علماء کی جانب سے اس کے اس دعویٰ کی بھی بھرپور نفی کی گئی مگر پادریوں کی جانب سے خاموشی نے اس کا حوصلہ بڑھایا ۔اس کے مسیح یت کے دعوے کے بعد  جب ہر طرف سے معجزات مسیح میں سے کوئی ایک ایک معجزہ دکھانے کے مطالبات بڑھنے لگے تو اس زندیق نے معجزات مسیح کا سرے سے ہی انکار کردیا۔اسی دورانیے  اٹھارہ سو بانوے  میں اس نے  مہدی ہونے کا بھی دعویٰ کردیا۔ مرزا کے جھوٹ پر جھوٹ اور دین اسلام کا حلیہ بگاڑنے پر   مولوی محمد حسین بٹالوی بھی اس کے خلاف  میدان عمل میں آگئے،اور انہوں نے اس کے جھوٹے دعوؤں کے پول کھولنے شروع کردیئے۔مرزا قادیانی  اپنی کتاب سراج منیر  کے صفحہ  تہتر اور روحانی خزائن  کی جلد بارہ اور صفحہ  پچھتر پر لکھتا ہے  کہ  نذیر حسین دہلوی نے تکفیر کی بنا ڈالی ، محمد حسین بٹالوی نے کفار مکہ کی طرح یہ خدمت اپنے ذمہ لے کر تمام مشاہیر اور غیر مشاہیر سے کفر کے فتوے اس پر لکھوائے۔اسی طرح تحفہ گولڑویہ کے صفحہ  ایک سو انتیس  پر اپنا غصہ نکالتے ہوئے  لکھتا ہے کہ مولوی محمدحسین جو اول المکفرین،  یعنی میری تکفیر کے بانی  وہی تھے اور اس آگ کو اپنی شہرت کی وجہ سے تمام ملک میں سلگانے والے میاں نذیر حسین دہلوی تھے۔ اسی دوران حضرت پیر مہر علی شاہؒ گولڑی نے مرزا قادیان کی ایسی خبر لی کہ اس کے چودہ طبق روشن ہوگئے، جب اس نے محسوس کیا کہ اب بچنے کا کوئی راستہ نہیں تو مناظرے کی دعوت دے دی اور جب بے حد مصروفیت کے باوجود حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب مناظرے کے لیے لاہور پہنچے تو یہ بھاگ گیا اور پروپیگنڈہ پیر صاحب کے خلاف شروع کردیا کہ وہ تشریف نہیں لائے۔مرزا مسیحیت اور مہدویت کے دعوے کے بعد  پھر  تھوڑا سا آگے بڑھا  اور اٹھارہ سو نناوے   میں اپنے ظلی بروزی اور لغوی ہونے کا اظہار کر دیا۔اس کے بعد  پھر  اس کا آکری دور شروع ہوتا ہے  جو انیس سو ایک سے لیکر مرزا کی وفات انیسو سو آٹھ تک ہے۔انیس سو ایک  میں مرزا غلام احمد قادیانی  نے بڑے واضح الفاظ میں اپنے نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ جن لوگوں نے اس کی نبوت کو قبول نہ کیا انہیں دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔مرزا غلام احمد قادیانی   نے  مختلف پینترے بدلے،بے شمار لوگوں کو گمراہ کرنے کا باعث بنا،اور آج بھی لوگ اس کے پیچھے چل کر مالی فائدے کےلیے جان بوجھ کر گمراہ ہورہے ہیں۔ لوگوں کی توجہ  پاکر مجددیت کا دعوی کردیا،مجددیت سے  مہدویت اور مسیح موعود تک یہ سلسلہ پہنچا،بالاخر  انیس سو ایک میں  اس نے ظلی وبروزی اور غیر تشریعی بنی اور پھر اصلی نبی ہونے کا دعویٰ کردیا۔اورنبوت کے دعوے کے بعد تنگ آکر   مولانا ثناء اللہ  امرتسری  کے ساتھ مباہلہ کیا اور انیس آٹھ  میں اسی  مباہلہ کے دوران عبرت ناک موت   مر گیا۔لیکن افسوس کہ اس کے پیرکاروں کو ابھی تک اس کے جھٹ کی سمجھ نہیں آئی اور جانتے بوجھتے ہوئے دنیاوی فائسے کی خاطر اس کے پیچھے چل رہے ہیں۔

(تحریر : ڈاکٹر ایم ۔اے رحمن )

 

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران