نبوت کا تیسواں جھوٹا دعویدار:مرزا غلام احمد قادیانی
مرزا قادیانی کے ابتدائی حالات
عقیدہ
ختم نبوت یہ ہے کہ سیدنا رسول کریم (ص) اللہ کے آخری نبی ہیں۔ ان کے بعد دعویٰ
نبوت کرنے والے مسیلمہ کذاب سے لے کر قادیانی کذاب تک تمام جھوٹے، کافراور اقبال
کے بقول شرک فی النبوت کے مرتکب ہیں ۔ عقیدہ ختم نبوت بہت دور رس عمرانی، سیاسی،
تمدنی اور دینی اثرات رکھتاہے۔ اگر اس عقیدے سے روگردانی کی اجازت دے دی جائے تو
اسلام کی عالمگیریت اور آفاقی حیثیت ختم ہو کر رہ جائے گی۔ لہٰذا عقیدہ ختم نبوت
کی حفاظت خود اسلام کی حفاظت ہے۔ یہ محض قادیان کے ایک بدبخت تک محدود امر نہیں
ہے۔ ان ملحدوں کو کیا معلوم کہ انہوں نے کتنا خوفناک جرم کیا ہے؟برصغیر پاک و ہند
کے مسلمانوں کی یہ بدنصیبی ہے کہ خاتم
النبیین جناب سیدنا محمد کریم(ص)
کا ایک گستاخ، ختم نبوت کا ایک چور
، برصغیر بالخصوص پنجاب میں پیدا ہوا اور یہ خوش نصیبی بھی ہے کہ انہوں نے پوری عزیمت،
طاقت، قوت اور سرفروشی سے اس فتنہ کا تعاقب کیا۔جس شخص نے یہ کیا،اسے تاریخ میں مرزا غلام احمد قادیانی کے نام سے جانا جاتا ہے۔تفصیل اس حوالے سے یہ
ہے کہ ہندوستان کے ایک ضلع کا نام گورداس پور
کے ایک قصبہ قادیان میں اٹھارہ سو چالیس
میں غلام مرتضیٰ کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام غلام احمد رکھا گیا۔
غلام مرتضیٰ کا تعلق مغل برلاس خاندان سے تھا۔ بعد میں یہ لڑکا مرزا غلام احمد قادیانی
کے نام سے معروف ہوا۔ مرزا غلام احمد اپنی خاندانی نسبت میں تذبذب کا شکار تھا
،کبھی خود کو چینی الاصل کہتا‘ کبھی وہ اپنا تعلق اسرائیلی یہودی النسل یعنی بنو
اسحاق سے نسبت جوڑتا۔ کبھی بنو فارس اور بنو فاطمہ کے خون کا معجون مرکب بنتا
تھا۔مرزا قادیانی نے قرآن مجید اور فارسی کی چند کتب فضل الہٰی نامی ایک شخص سے
پڑھیں۔سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں گل علی
شاہ نامی شخص سے نحو منطق اور حکمت کی تعلیم حاصل کی۔ طبابت اپنے والد غلام مرتضیٰ
سے سیکھی۔انگریزی کی دوکتابیں ڈاکٹر امیر شاہ سے پڑھیں۔ مرزا قادیانی قابل یا ذہین فطین نہ تھا۔ بلکہ نالائقی کا یہ عالم تھا کہ مختاری کے
امتحان میں فیل ہو گیا تھا۔مرزا غلام احمداٹھارہ چونسٹھ سے لے کر اٹھارہ سو ارسٹھ
تک سیالکوٹ کی کچہری میں پندرہ روپے
ماہوار تنخواہ پر نوکری کرتا رہا۔ اس شخص کی بے ایمانی کا یہ عالم تھا کہ اس کے
دوست لنگر خانے کے معاملات میں اس پر خورد برد کا الزام لگایا کرتے ۔ یہاں انہیں
باتوں کی وجہ سے نکال دیا گیا ۔قادیان کا رخ کیا۔ قانون کے چند نکات سے واقفیت تھی،
والد کے اثرورسوخ کی وجہ سے وکیل بن گیا لیکن
وہاں بھی ناکام ہوا،کیونکہ جو مقدمہ بھی پکڑتا،جیتنا نصیب میں نہ ہوتا،بلکہ اپنے
بعض خاندانی مقدمات بھی عدالت میں ہار دیئے،جس
سے اس کا یہ کام بھی ٹھپ ہوگیا ۔مرزا قادیانی
اس بات پر فخر کیا کرتا تھا کہ اٹھارہ سو ستاون
کی جنگ آزادی میں اس خاندان نے انگریز سامراج کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ
پچاس گھوڑوں اور افراد کے ساتھ مدد کی تھی۔
مرزا کا گھرانہ انگریز سامراج کا بڑا خیر خواہ تھا۔ وہ خود کو انگریز کا خود کاشتہ
پودا کہا کرتا تھا۔ مالی طور پرمرزا کا گھرانہ نہ تو بہت زیادہ امیر کبیر نہ تھا اور
نہ ہی بالکل غریب تھا کہ گھر میں کھانے کے لالے پڑے ہوں۔مرزا
غلام احمد کے بچپن کے حوالے سے سیرت المھدی میں لکھا ہے کہ مرزا کو بچپن میں چڑیاں
پکڑنے کا بڑا شوق تھا ۔ جب چڑیاں پکڑ لیتا تو انہیں ذبح کرنے کے لئے چاقو میسر نہ
ہوتا تو سرکنڈے کی تیز دھار سے انہیں ذبح کر لیتا۔اسی طرح اس کے بارے میں ہے کہ وہ ایک قمیص سات ،سات
دن تک پہنے رکھتا۔ اسے دھلوانے یا بدلنے کی نوبت نہ آتی۔ کام کاج میں والد کا
ہاتھ نہ بٹاتا جس کی وجہ سے وہ اکثر اس سے ناراض رہتے۔اسی طرح والدہ کی بھی بات نہ مانتا تھا۔ بچپن میں بچوں
جیسی چوریاں کرنے کی عادت بھی تھی۔ سیرت المہدی کے حصہ اول میں مرزا قادیانی کا
اپنا بیان درج ہے کہ جب میں بچہ ہوتا تھا تو ایک بار بعض بچوں نے مجھے کہا کہ جاؤ
گھر سے میٹھا لاؤ۔ میں گھر میں آیا اور چوری چھپے ایک برتن میں سے سفید بورا اپنی جیبوں میں بھر
کر باہر لے گیااور راستہ میں ایک مٹھی بھر کر منہ میں ڈال لی۔ پس پھر کیا تھا میرا
دم رک گیا اور بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ معلوم ہوا کہ جسے میں نے سفید بورا سمجھ کر جیبوں
میں بھرا تھا وہ بورا نہ تھا بلکہ پسا ہوا نمک تھا۔مرزا غلام احمد نے خود کو سادہ ظاہر کرنے کےلیے بتایا
کہ وہ بعض اوقات راکھ سے روٹی بھی
کھا لیتا تھا۔ ایک بار بچپن میں اپنی والدہ سے روٹی کے ساتھ کچھ کھانے کو مانگا۔
انہوں نے کوئی چیز شاید گڑ بتایا کہ یہ لے لو۔ تو اس نے بچوں کی طرح ضد کی کہ یہ میں نہیں کھاؤں گا۔ اس کے والدہ
نے کوئی اور چیز بتائی۔ مرزے نے اس
پر بھی وہی جواب دیا۔ وہ اس وقت کسی بات پر چڑی بیٹھی تھیں۔ سختی سے کہنے لگیں کہ
جاؤ پھر راکھ سے روٹی کھا لو۔ تو مرزا قادیانی
روٹی پر راکھ ڈال کر بیٹھ گیا ۔ جب ہم اس شخص کے حالات زندگی کا تفصیلی
مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کو انگریز نے بڑی ہوشیاری سے اس منصب
کے لئے تیار کیا۔ یہ شخص گرگٹ کی طرح اپنے آپ کو بدلتا رہا۔بٹالہ اور گردونواح میں
بزرگان دین کے جاہ وجلال کو دیکھ کر دل للچایا
اور پیری مریدی کے خواب دیکھنے لگا۔ اسی دوران اس کے بچپن کے دوست اور ہم مکتب مولوی محمد حسین بٹالوی دینی تعلیم
مکمل کرکے بٹالہ آئے۔ یہ ان کی خدمت میں
حاضر ہوگیا اور غیر اسلامی ادیان کے رد میں کتاب لکھنے کا خیال ظاہر کیا،چنانچہ انہوں نے کہا کہ یہ اچھا
خیال ہے ،جہاں میری مدد کی ضرورت ہوئی تو میں حاضر ہوں، یہی وہ زمانہ تھا جب پنڈت
دیانند سرسوتی نے اپنی ہنگامہ خیزیوں سے ملک میں مذہبی فضا کو آلودہ کردیا تھا۔
اسلام کیخلاف ہرزہ سرائی عروج پر تھی، غلام احمد قادیانی نے مولوی محمد حسین کے
پاس مسجد چینیا نوالی لاہور میں رہائش اختیار
کی اور مختلف مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ کرنے لگا، اس دوران گاہے بگاہے اس کی
ہندو، عیسائی اور دیگر مذاہب ومسلک کے لوگوں سے مڈبھیڑ بھی ہونے لگی اور اس نے
اپنے گرد مجمع اکٹھا کرنے کا ہنر سیکھ لیا۔ اس نے عیسائیوں ،ہندوؤں اور آریوں کے
ساتھ کچھ مناظرے کیے۔ مسلمان قوم جذباتی تو ہے ہی‘ انہوں نے جب دیکھا کہ ایک شخص غیر
مسلمانوں کے ساتھ مناظرے کرتا ہے تو اس کی تحسین کی ۔ اس طرح اس نے مسلمانوں کی
ہمدردیاں حاصل کیں اور شہرت کی بلندیوں تک پہنچ گیا۔اٹھارہ سو اسی سے پہلے کی بات ہے کہ مرزا نے اسلام کی صداقت
پر برا ہین احمد یہ کے نام سےپچاس جلدوں پر مشتمل کتاب لکھنے کا اعلان کیا۔ اس
نے قوم سے اس کتاب کی طباعت کے لئے چندے کی اپیل کر دی۔ لوگوں نے خطیر رقوم چندے کی
مد میں عطا کی۔اٹھارہ سو اسی میں مرزا اس کتاب کی ابتدائی دو جلدیں منظر عام پر لایا۔
پانچ جلدیں شائع کر کے کام کو روک دیا۔
جب چندہ دینے والوں نے سوال کیا کہ مرزا صاحب آپ نے تو پچاس جلدیں شائع کرنے کا کہا تھا، اب پانچ شائع کر کے بس کیوں کر بیٹھے تو مرزا نے بڑی ڈھٹائی سے جواب دیا کہ
پانچ اور پچاس میں صفر کا فرق ہوتا ہے۔ اگر پچاس سے صفر ختم کر دیں تو باقی پانچ رہ جاتا ہے ۔ مرزا قادیانی قادیانی آہستہ
آہستہ آگے بڑھا،جب علمی مباحثوں اور بطور مصنف شہرت حاصل کرلی تواس نے ان بحث مباحثوں سے باہر نکل کر الہام بازی کی
دنیا میں قدم رکھا اور الہام ا ورمستجاب
الدعوات ہونے کا پروپیگنڈا شروع کردیا، شہرت تو پہلے سے تھی، اب اہل حاجات کی
آمدورفت کا بھی سلسلہ بھی بڑھ گیا ۔لالہ شرمپت رائے اور لالہ ملا واہل یہ دو ہندو
اس کے مشیر خاص اور حاشیہ نشین بن گئے ۔ خوشامدیوں اور واہ واہ کرنے والوں کی ایک
جماعت پیدا ہوگئی تھی،اس نے اس کا دماغ
خراب ہونا شروع ہوگیا۔اور یہ مہدویت ،مسیحیت
اور پھر نبوت کے دعوے تک پہنچ گیا۔اگر
ہم مرزا غلام احمدقادیانی کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مرزا کا
تعلق اس خاندان سے تھا جو انگریزوں کا نہ صرف وفادار تھا بلکہ ان سے شدید محبت
کرتا تھا۔ مرزا غلام احمد ان محدود چند لوگوں میں سے تھا جو ہندوستانی ہونے کے
باوجود اپنے ہم وطنوں کو سدا غلام دیکھنا چاہتا تھا۔انگریز ہندوستان پر لمبی مدت
کے لیے حکومت کرنا چاہتا تھا۔ صرف مسلمان ایسی قوم تھی جو اس کے ساتھ مدتوں جہاد
کرتی رہی۔انگریز چاہتا تھا کہ اسے کوئی ایسا شخص ملے جو مذہبی لبادے میں مسلمان
قوم کو انگریزی حکومت کا وفادار بنائے۔ اس مقصد کے لیے انہیں مرزا غلام احمد بڑا
موزوں نظر آیا، مرزا غلام احمد کو نبی
بنانے کی دوبڑی وجوہات تھیں، ایک تو انگریز
کی اطاعت اور فرمانبرداری کو دل و جان سے قبول کرنا۔ دوسرا انگریز حکومت کے
استحکام کے لئے جہاد کو حرام قرار دینا۔ان دو بڑے مقاصد کے حصول کے لئے مرزا قادیانی
نے خود لکھا کہ میں نے جہاد کی مخالفت اور انگریز حکومت کی اطاعت کے بارے میں اس قدر
کتابیں اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو
پچاس الماریاں بھر جائیں ۔ میں نے ان
کتابوں کو بلاد عرب مصر‘ شام ‘ کابل اور روم تک پہنچا دیاہے۔ میری کوشش رہی ہے کہ
مسلمان اس سلطنت کے سچے خیر خواہ ہو جائیں ۔ جہاد کے جوش دینے والے مسائل جو یہاں
کے لوگوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں
،ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں۔جب انگریز غاصبانہ طور پر ہندوستان پر قابض تھا، عین
اس موقع پر قوم کو انگریزوں کی دائمی غلامی کی تلقین کرنا کون سا مذہب ہو سکتا
ہے؟دنیا کا کوئی بھی مذہب غلامی اور ذلت کی زندگی بسر کرنے کی تعلیم نہیں دیتا۔ یہ
ایک جھوٹے مدعی نبوت کا جھوٹا مذہب تھا جو اپنے ہم وطنوں کو سدا غلام دیکھنا پسند
کرتا تھا۔آج بھی اس کے پیروکار خود کو یہودیوں اور عیسائیوں کا پروردہ سمجھتے ہیں اور ان کے مقاصد کے تحت چلنے کو اپنی فلاح قرار دیتے ہیں۔ مسیلمہ کذاب کا دعویٰ نبوت امتی
نبی اور
تابع نبی کے طور پر تھا جسے نبی
اکرم (ص) نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ چنانچہ اس سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی
تھی کہ حضورؐ کے بعد کسی قسم کی نبوت کی کوئی گنجائش نہیں ہے، خواہ کوئی شخص مستقل
نبی ہونے کا دعویٰ کرے یا تابع اور امتی نبی کہلائے۔ اس لیے قادیانیوں سے گزارش ہے
کہ وہ امت مسلمہ بلکہ پوری دنیا کو بے جا تاویلات کے چکر میں ڈالے رکھنے کی بجائے
نئی نبوت اور وحی سے دستبردار ہو کر امت مسلمہ کے اجتماعی دھارے میں متفقہ عقائد کی
بنیاد پر واپس آجائیں، یا پھر خود کو ایک الگ اور مستقل مذہب کے پیروکار تسلیم کرلیں۔
ان کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ اور آپشن باقی نہیں رہا۔
(تحریر : ڈاکٹر ایم ۔اے رحمن )
ایک تبصرہ شائع کریں