داستان حضرت موسی(ع) میں اظھار بیزاری و نفرت

 


داستان حضرت موسی(ع) میں اظھار بیزاری و نفرت

 انسان سب سے دوستی نہیں کرسکتا اور جس قدر اچھا کیوں نہ ہو پھر بھی دشمن پیدا کرلیتا ہے تاہم سوال پیدا ہوتا ہے دوستی کس سے اور دشمنی کس سے کی جائے؟

 

 تولا اور تبرا (خدا کے دوستوں سے دوستی اور دشمنوں سے دشمنی) دو اہم مذہبی احکام ہیں یعنی روح و قلب کو  زندہ ہونا چاہیے اور واضح موقف رکھنا چاہیے، کیونکہ انسان کی انفرادی خصوصیات اس کے کردار اور عمل پر اثرکرتی ہیں اور اسکی چاہت بھی قدرتی طور پر اسکی شخصیت میں اجاگر ہوتی ہے۔

 

بیزاری اور لاتعلقی سادہ الفاظ میں دوری ان چیزوں سے جس کو پسند نہیں کرتا اور رہائی ایسی چیزوں سے جس کو مبارک نہیں سمجھتا۔

 

مسئله «تولا و تبرا» یا «حب و بغض» اخلاقی نکات اور تاکیدات میں شامل ہیں جو انسان کی اہم صفات میں شمار ہوتی ہیں۔

 

امام صادق (ع) اپنے صحابی جابر سے فرماتے ہیں: جب تم دیکھنا چاہو کہ تم میں خیر ونیکی ہے یا نہیں تو اپنے قلب کی طرف توجہ کرو، اگر اہل اطاعت کو دوست رکھتے ہو اور اہل گناہ کو دشمن، تو تم اچھے انسان ہو اور خدا تم کو دوست رکھتا ہے اور اگراچھے لوگوں سے نفرت کرتے ہو تو تم میں کوئی نیکی نہیں اور خدا تمھارا دشمن ہے اور انسان اسی کے ساتھ ہوگا جس کو دوست رکھتا ہے۔

 

حضرت موسی(ع) جو عظیم نبیوں میں شمار ہوتا ہے انہوں نے اسی روش پر فرعون اور انکے حامیوں سے بیزاری کا اظھار کیا۔

 

فرعون موسی کے توحیدی پیغام اور افکار سے سخت خوفزدہ تھے لہذا انہوں نے ارادہ کیا کہ حضرت موسى )ع(  کو قتل کرے. «وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَى وَلْيَدْعُ رَبَّه ُإِنِّي أَخَافُ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ ؛  فرعون نے کہا: « موسی کو قتل کرنے دو، وہ اپنے رب سے مانگے (کہ اسے نجات دے، میں ڈرتا ہوں کہ وہ تمھارا دین تبدیل نہ کرے، یا اس سرزمین پر فساد نہ پھیلائے!»(غافر:26)

 

حضرت موسی(ع) جو اسی محفل میں موجود تھے کسی طرح ان دھمکیوں سے خوف زدہ نہ ہوئے اور خدا پر توکل کے ساتھ بولے:

 

وَقَالَ مُوسَى إِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُمْ مِنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ ؛ موسی نے کہا: «میں اپنے رب کی پناہ چاہتا ہوں ہر متکبر سے جو یوم حساب پر ایمان نہیں رکھتا»(غافر: 27)

 

حضرت موسى )ع( کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دو خصوصیات بدترین صفات میں ہیں: 1. تکبر   2. قیامت پر ایمان نہ رکھنا

 

لہذا اسے افراد سے نفرت کرنی چاہیے. متکبر اپنے سوا کسی کو اہمیت نہیں دیتا، آیات و معجزات خدا کو جادو سمجھتا ہے۔

 

قیامت پر ایمان نہ رکھنا باعث بنتا ہے کہ انسان کوئی حساب کتاب نہ رکھے اور حتی خدا کی عظیم طاقت کے برابر اپن زرہ بھر طاقت سے مقابلے پر اتر آئے اور رسولوں سے جنگ پر آمادہ ہوجائے۔

 

حضرت موسی(ع) نے اس طرح سے دکھا دیا کہ کن لوگوں سے نفرت کی جائے۔

 


ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران