اسلام میں منافق کس کو کہا گیا ہے؟



اسلام میں منافق کس کو کہا گیا ہے؟

منافقت
منافقت کا لفظ نفق سے نکلا ہے ۔ نفق کے معنی خفیہ سرنگ کے ہوتے ہیں ۔ خفیہ سرنگ کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ بوقت ضرورت دھوکہ دینے کے لئے اس خفیہ راستہ کو استعمال کیا جائے ۔ یہیں سے نفاق اور منافقت کے الفاظ نکلے ہیں جن کا مطلب ہے کہ دھوکہ دینا ، دورخاپن ، دورنگی ، دوغلہ پن ، قول وفعل کا اہم مطابق نہ ہونا اور دل میں کفر چھپا کر زبان سے ایمان ظاہر کرنا ۔ ایسے آدمی کو منافق کہا جاتا ہے ۔ منافق ہی وہ شخص کا ہوتا ہے جو زبان سے تو ایمان کا اظہار کرنا ہو مگر دل سے ایمان کے ساتھ وابستگی نہ رکھتا ہو ۔ ایک آدمی کی بات دوسرے تک پہنچاتا ہو ، ایک شخص کے سامنے اس کی تعریف کرتا ہو اور اس کے پاس سے جانے کے بعد اس کی ہجو کرتا ہو ۔ یہ سب نفاق کی صورتیں ہیں ۔ ایک دفعہ حضرت عبد الله بن عمر راضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ ہم لوگ امراء اور حکام کے پاس جاتے ہیں تو کچھ کہتے ہیں اور جب ان کے یہاں سے نکلتے ہیں تو کچھ کہتے ہیں ۔ آپ نے یہ سن کر کہا ۔ ” ہم لوگ عہد رسالت میں اس کا شمار نقاق میں کرتے تھے ۔
قرآن حکیم میں منافقت کی تعریف یوں کی گئی ہے ۔ منافق اپنی زبانوں سے دو باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوئیں ۔

منافقت انتہائی گندا ، گھناؤنا ، غلیظ اور خطرناک فعل ہے ۔ الله تعالی اور اس کے رسول مقبول کے نزدیک یہ طبقہ بدترین مخلوق شمار کیا جاتا ہے ۔ قرآن وحدیث میں منافقین کی جتنی مذمت کی گئی ہے اس قدر مذمت کفار و مشرکین کی ہی نہیں کی گئی ہے ۔ اس لئے کہ کفر وشرک تو کھل کر دشمنی کرتے ہیں ان سے بچاو کر ممکن ہوتا ہے جب کہ منافق چھپے دشمن اور آستین کا سانپ ہوتے ہیں جس سے بچاؤ دشوار بلکہ بسا اوقات ناممکن ہو جاتا ہے ۔ اسلام کو جتنا نقصان منافقین نے پہنچایا ہے ، اس قدر کفار ومشرکین نے بھی نہیں پہنچایا ۔ جنگ بدر اور دوسری اسلامی جنگوں کے موقع پر ہمیشہ منافقین نے مسلمانوں کو دھوکہ دیا اوپر سے مسلمانوں کے ساتھ رہے اندر سے کفار سے تعاون کرتے رہے ۔ ان لوگوں نے حضور علیہ السلام کو قتل کرنے کی متعدد سازشیں کیں ۔ دشمنوں سے ساز باز کر کے کئی مرتب مدینہ منورہ پرحملہ کرایا ۔ عین میدان جنگ میں مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ کر نکل جاتے رہے اور حضور علیہ السلام کے پاک گھرانے پر تہمتیں لگاتے رہے ۔

منافقت چونکہ اندر سے کھوئے اور ناپاک ہوتے ہیں ۔ اسی لئے ان کے بارے میں ٹھیک طرح سے پتہ نہیں چلتا ۔ جنگ احد کے موقع پر علیحدہ ہو جانے کی وجہ سے کھل کر سامنے آئے اور اللہ رب العزت نے ان کی نشاندہی کر کے مسلمانوں کو ان کی سازشوں سے محفوظ کیا۔ اب وحی کا دروازہ بند ہو چکا ہے ۔ ان کے بارے میں میں نشاندہی نہیں مل سکتی ۔ البته قرآن و حدیث میں ان کی کچھ علامتوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔

منافقت کی علاتیں

منافقت نماز سے جی چراتا اور دیر کر کے پڑھتا ہے۔

صدقہ و زکوت کو تاوان سمجھتا ہے۔

جہاد سے منہ پھیرتا ہے۔

مسلمانوں کی پریشانی پر خوش ہوتا ہے۔

جھوٹ بولتا، وعدہ خلافی کرتا،بدیانتی کرتا اور گالی گلوچ کرتا ہے۔

مسلمانوں کو احمق سمجھتا ہے ۔

نو مسلموں اور کمزور ایمان کے لوگوں میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے ۔

مال خرچ کرنے میں سب سے پیچھے رہتا ہے اور جب کسی مالی فائدے کی توقع ہوتو گلی صفوں میں جا بیٹھتا ہے ۔

خدا اور سول کے خلاف غلط باتیں اڑاتا ہے ۔

مسلمانوں میں اختلاف پیدا کرنے کی تدبیریں کرتا ہے۔

کفار کی فتح پر دل سے خوش ہوتا ہے اور مسلمانوں کی فتح پر رنجیدہ ہو جاتا ہے

الله تعالی اور اس کے رسول مقبول ﷺ مگر کے نزدیک منافق بدترین لوگ ہوتے ہیں ۔ ان کے لئے قبراور جہنم کا سخت ترین عذاب مقرر کیا گیا ہے ۔

ارشادربانی ہے

یقینا منافق لوگ جہنم کے سب سے نچلے اور سخت ترین طبقے میں ڈال دیئے جائیں گے اور وہاں ان کا کوئی مددگار بھی نہ ہوگا ۔


منافقت کے اثرات
قرآن حکیم کی مختلف آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ منافقین کے سارے اعمال ضائع ہو جائیں گے وہ نامراد اور ناکام ہو کر رہ جائیں گے ۔ ایک حدیث میں رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز منافق کے منہ میں آگ کی دو زبانیں ہوں گی ۔


منافقت ، معاشرتی روگ اور انسانی ناسور ہے ۔ منافقت سے انسانیت تباہ ہو کر رہ جاتی ہے ۔ اس روگ کی وجہ سے خلوص مفقود ہو کر رہ جاتا ہے ۔ جس معاشرہ میں اخلاص نہ ہو وہ اخلاق رذیلہ میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ جہاں منافقت ہو ، وہاں نفرت ، حسد ، بداعتمادی ، بغض و عداوت ، جھوٹ مکروفریب ، بدعہدی ، بددیانتی ، بخل، کنجوس اور بے حیائی جیسی مکروہ برائیاں جنم لیتی ہیں ۔ منافقت کی وجہ سے قوم میں بزدلی ، ستی ، کاہلی ، جمود اور اخلاقی گراوٹ پیدا ہوتی ہے اور معاشرہ عدم توازن کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے ۔

 

 

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران