اصحاب ایکہ کون تھے؟ ان پر کیوں عذاب نازل ہوا ؟



اصحاب ایکہ کون تھے؟ ان پر کیوں عذاب نازل ہوا ؟

اصحاب ایکہ میں ایکہ سے مراد ہے جھاڑی ۔ان لوگوں کا شہر بہت سرسبز تھا اور جنگلوں میں تھا ۔ان لوگوں کی ھدایت کے لئے اللہ نے حضرت شعیب علیہ السلام کو اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا تا کہ یہ لوگ سیدھے راستے پر چل سکیں ۔عربی زبان میں لفظ ایکہ سے مراد وہ سرسبز جھاڑیاں ہیں جو جنگل میں بہت زیادہ ہرے بھرے درختوں کی وجہ سے اگتی ہیں اور جھاندے کی شکل حاصل کرلیتی ہیں ۔ان باتوں کو جاننے سے مدین کی آبادی کا پتہ آسانی سے معلوم ہوسکتا ہے وہ ایسا کہ یہ مدین کا قبیلہ بحر قلزم کے مشرقی کنارہ اور عرب کے مغرب شمال میں ایسی جگہ آباد تھا جسے شام کے متصل حجاز کا آخری حصہ کہا جا سکتا ہے اور حجازوالوں کو شام، فلسطین اور مصر تک جانے میں بھی اس کے کھنڈرراہ میں پڑتے تھے اور جو تبوک کے بالمقابل واقع تھا۔

مفسرین کی اس بارے میں مختلف رائے ہیں کہ مدین اور اصحاب ایکہ ایک ہی قبیلہ کے دو مختلف نام ہیں یا دو الگ الگ قبیلے کے نام ہیں کچھ مفسرین کی رائے ہے کہ مدین اور اصحاب ایکہ الگ الگ قبیلے ہیں ان کے مطابق مدین ایک شہری قبیلہ تھا اور اصحاب ایکہ ایک دیہاتی قبیلہ تھا جو جنگل میں رہتا تھا اس لئے اسی وجہ سے اصحاب ایکہ کو جنگل والا بھی کہا جاتا ہے اور آیت انھمالبامام مبین میں ھما ضمیر تثنیہ سے یہی دونوں مراد ہیں نہ کہ مدین اور قوم لوط۔

ان کے علاوہ کچھ دوسرے مفسرین دونوں کو ایک ہی قبیلہ سمجھتے ہیں اور ان مفسرین کی رائے ہے کہ آب وہوا میں تازگی اور نہروں اور آبشاروں کی کثیر مقدار نے اس جگہ کو بہت ہی سرسبز اور پر فضا بنا دیا تھا اور اس جگہ پر میووں اور پھلوں کے بے پناہ باغات تھے کہ اگر کوئی شخص اس جگہ سے باہر کھڑے ہو کر اس جگہ کو دیکھا کرتا تھا تو اس کو یہ لگتا تھاکہ یہ بہت ہی خوبصورت اور شاداب اور لمبے و گھنے درختوں کا ایک جھنڈ ہے اسی لیے قرآن مجید میں اس کو ایکہ کہہ کر پکارا گیا ہے۔

ان کو سیدھے راستہ دکھانے کے لیے حضرت شعیب علیہ السلام تشریف لائے ۔تو انہوں نے اصحاب ایکہ کو جو جو نصیحت فرمائی ان کو قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ

ترجمہ:۔کیا تم ڈرتے نہیں بیشک میں تمہارے لئے اللہ کا امانت دار رسول ہوں تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو اور میں اس پر کچھ تم سے اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔ ناپ پورا کرو اور گھٹانے والوں میں نہ ہو اور سیدھی ترازو سے تولو اور لوگوں کی چیزیں کم کر کے نہ دو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو اور اس سے ڈرو جس نے تم کو پیدا کیا ۔ اگلی مخلوق کو بولے تم پر جادو ہوا ہے تم تو نہیں مگر ہم جیسے آدمی اور بیشک ہم تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرادو اگر تم سچے ہو فرمایا میرا رب خوب جانتا ہے جو تمہارےکرتوت ہیں تو انہوں نے اسے جھٹلایا تو انہیں شامیانے والے دن کے عذاب نے آلیا۔ بیشک وہ بڑے دن کا عذاب تھا۔
(پ19،الشعراء:177 تا 189)

مختصر یہ کہ اصحاب ایکہ نے حضرت شعیب علیہ السلام کی وعظ و نصیحت کو سن کر بدزبانی اور بدتمیزی کی اور اپنی سرکشی اور غرور و تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیغمبر حضرت شعیب علیہ السلام کو کو جھوٹا قرار دے دیا اور نافرمانی اور سرکشی کا اظہار کیا اور حتی کہ حضرت شعیب علیہ السلام کو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر تم سچے پیغمبر ہو تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گراو جس سے ہم سب ہلاک ہوجائیں ۔اس کے بعد اس قوم پر اللہ تعالیٰ کا قاہرانہ عذاب نازل ہوا اور وہ عذاب کیا تھا؟جانئے اور اللہ سے پناہ طلب کریں ۔

حدیث شریف میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب ایکہ پر دوزخ کا ایک دروازہ کھول دیا جس سے پوری آبادی میں شدید گرمی اور لو کی حرارت اور تپش پھیل گئی اور بستی میں رہنے والوں کا دم گھٹنے لگا تو وہ لوگ اپنے گھروں میں چلے گئے اور اپنے اوپر پانی ڈالنے لگے مگر پانی اور سایہ سے انہیں کوئی آرام اور سکون حاصل نہیں ہوتا تھا۔ اور گرمی کی تپش سے ان کے جسم جھلس رہے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایک بدلی بھیجی جو جھونپڑی کی طرح پوری بستی پر چھا گئی اور اس کے اندر ٹھنڈک اور جسم کو سکون دینے والی ہوا تھی۔ یہ سب دیکھ کر سارے لوگ گھروں سے نکل کر اس بدلی کے شامیانے میں آگئے جب تمام لوگ بدلی کے نیچے آگئے تو خوفناک زلزلہ آیا اور آسمان سے آگ برسنے لگی جس میں سب کے سب ٹڈیوں کی طرح تڑپ تڑپ کر جل گئے۔ ان لوگوں نے اپنے غرور عوف سرکشی کی وجہ سے یہ کہا دیا تھا کہ اے شعیب اگر تم سچے ہو تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا کر ہم کو ہلاک کردو۔ چنانچہ وہی عذاب اس صورت میں اس سرکش قوم پر آگیا اور سب کے سب جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔
(تفسیر صاوی،ج۴، ص ۱۴۷۴،پ۱۹، الشعرآء:۱۸۹)

کچھ مفسرین کے مطابق حضرت شعیب علیہ السلام دو قوموں کی طرف یعنی مدین اور اصحاب ایکہ میں رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ ان دونوں قوموں نے آپ علیہ السلام کو جھٹلادیا، اور اپنےگناہوں اور اپنی سرکشی کا اظہار کرتے ہوئے ان دونوں قوموں نے آپ علیہ السلام کے ساتھ بدتمیزی اور بدزبانی کی اور دونوں قومیں الله کے عذاب سے ہلاک کردی گئیں۔ ”اصحاب مدین پر تو یہ عذاب آیا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کی چیخ اور چنگھاڑ کی خوفناک آواز سے زمین دہل گئی اور لوگوں کے دل خوف ِ دہشت سے پھٹ گئے اور سب ایک دم سے ہلاک ہو گئے ۔اور ”صحاب ایکہ عذاب یوم الظلۃ سے ہلاک کردیئے گئے۔

(تفسیر صاوی،ج۴، ص ۱۴۷۳، پ۱۹، الشعرآء:۱۷۶) 

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران