اسلام میں حسد کسے کہا گیا ہے؟



اسلام میں حسد کسے کہا گیا ہے؟

حسد

حسد کے لغوی معنی جلنا ، کاٹنا اور آرزو کرنا ہیں ۔ اصطلاح میں کسی کی اچھی چیز ،خوبی علم و فضل اور مال و دولت کو دیکھ کر جالنے اور پریشان ہونے کا نام حسد ہے ۔ کسی کے بارے میں یہ آرزو اور تمنا کرنا کہ میرے پاس نہیں تو اس کے پاس بھی یہ مال و دولت، علم وفضل اور عزت و شہرت نہ رہے ، حسد کہلاتا ہے جو کسی کی ترقی ، خوشحالی ، عزت اور دولت پر جلتا اور پریشان ہوتا ہو ، وہ حاسد ہے ۔ ایسا آدی سکون کو کاٹتا ،قطع رحمی کی فصل بوتا کی اور کینہ، بغض ، عداوت اور غیظ وغضب کا بیج بوتا ہے ۔ قرآن و حدیث کی رو سے بھی حسد کا یہی مفہوم واضح کیا گیا ہے ۔ حسد کی بے شمار خسیسں اور مذموم شاخیں ہیں ۔ یہ رذائل اخلاق میں سے انتہائی گھٹیا اور کمینہ عمل ہے ۔ ایسا آدمی ہر کسی کا بدخواہ ہوتا ہے ۔ دوسروں کے بارے میں خیر خواہی کے جذبات نہیں رکھتا ۔ یہ بہت تنگ ظرف ،خلوص سے عاری اور کمینگی کا عصارہ ہوتا ہے ۔ قرآن و حدیث میں اس فعل کی سخت مذمت کی گئی ہے ۔ اللہ تعالی نے سورہ الفلق میں حاسد کے حسد اور اس کی شرارتوں سے پناہ مانگنے کی ہدایت فرمائی ہے ۔

ومن شر حاسد إذ حسد
میں حسد کرنے والے کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جب وہ حسد کرتا ہے ۔

حسد کے ساتھ ملتا جلتا ایک لفظ رشک ہے مگر ان دونوں میں بہت فرق ہے ۔ اگر کسی کو اللہ رب العزت انعام و اکرام، علم وفضل اور مال و دولت سے نوازے اور اسے دیکھ کرکسی کی یہ خواہش پیدا ہو کہ میرے پاس بھی ایسی چیزیں ہوں تو یہ رشک کہلاتا ہے اور اگر یہ خواہش پیدا ہو کہ اس کے پاس یہ چیزیں نہ ہوں بلکہ میرے پاس ہوں تو یہ حسد ہے ۔ اسلام میں رشک جائز ہے مگر حسد حرام ہے ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حسد کی مذمت فرماتے ہوئے ارشادفرمایا

حسد نیکیوں کو کیوں کھا جاتا ہے جیسے آگ سوکھے ایندھن کو۔

 

باہم حسد نہ رکھو، قطع رحمی نہ کرو ، ایک دوسرے سے کینہ مت رکھو ۔ ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو۔

 

مجھے اپنی امت پر جس چیز کا سب سے زیادہ خوف ہے وہ یہ ہے کہ ان میں مال کی کثرت ہو جائے تو ایک دوسرے سے حسد کرنے لگیں اور پھر لڑنے لگیں۔

 

میری امت کو پہلی امتوں کی بیماری لگ جائے گی ۔ لوگوں نے پوچھا کہ پہلی امتوں کی بیماری کیا ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ، ترش روئی ، تکبر ، دنیا کی خاطر حسد ، ایک دوسرے سے دوری ، ایک دوسرے سے حسد، اس کے بعد باہم لڑائی اور پھر قتل و غارت۔

اللہ کی نعمتوں کے کچھ دشمن بھی ہیں ۔ پوچھا گیا کہ وہ کون ہیں ؟ ۔۔۔ فرمایا وہ لوگ جو دوسروں پر اس لئے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے ان پر اپنا فضل فرمایا ہے ۔

 

چھ شخص حساب کتاب سے بھی ایک سال پہل جہنم میں داخل ہو جائیں گے :

 

حاکم ظلم اور حق تلفی کرنے کی وجہ سے۔

عربی تعصب کی وجہ سے ۔

دہقان تکبر کی وجہ سے ۔

تاجر خیانت کی وجہ سے ۔

سرحدی لوگ جہالت کی وجہ سے۔

علماء حسد کی وجہ سے ۔


بعض بزرگوں کے نزدیک کائنات میں سب سے پہلا گناہ حسد کا ہوا جو شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت پر حسد سے جل کر سجدہ سے انکار کیا ۔

الغرض حسد بہت ہی برا فعل ہے جولوگ اس کا شکار ہوتے ہیں ، انہیں گھن کی طرح کھا جاتا ہے ۔ وہ حسد کی آگ میں جلنے کے سبب پریشان رہتے ہیں اور اپنی موت آپ مر جاتے ہیں ۔ اس مرض سے معاشرے میں دھڑے بندی پیدا ہو جاتی ہے ۔ لوگوں کا معاشرتی سکون برباد ہو جاتا ہے اور جرائم و رذائل میں اضافہ ہوتا ہے ۔ بد اخلاقی ، بدتمیزی ، تند مزاجی اور خباثت پیدا ہوتی ہے ۔ خوش اخلاقی اور اخلاص دور ہوتا ہے اور اسلامی اخوت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے ۔

اس لئے اس روحانی و اخلاقی مرض سے نجات پانے کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کی تلاوت باقاعدگی سے کی جائے ۔ ذکر الہی کی کثرت کی جائے ،شکر نعمت اور فکر آخرت کو شعار بنایا جائے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے صحابہ کی تعلیمات اور طریقوں کو مشعل راہ بنایا جائے ۔ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے ۔ کفران نعمت، بغض و عداوت ، کینہ ، غرور ، جاہ پرستی ، اقتدار طلبی ، زر پرستی ، بدگمانی عیب جوئی اور نفرت و حقارت سے اجتناب کیا جائے ۔

 

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران