نبوت کا دسواں جھوٹا دعویدار:اسحاق اخرس

نبوت کا دسواں جھوٹا دعویدار:اسحاق اخرس


نبوت کا دسواں جھوٹا دعویدار:اسحاق اخرس

خوشنما نعرے مذہب کی بنیاد پر بلند کئے جائیں  تو بہرحال عوام میں سے پیروکار مل جاتے ہیں ۔شعبدہ بازی اور شیطان کی پیروی کرتے ہوئے جن بدبختوں نے نبوت کا جھوٹادعویٰ کیا بالاخر وہ اپنے باطلانہ عقائد کے ساتھ  اپنے انجام کو   پہنچے،ان جھوٹے  کذابوں میں سے ایک اسحاق اخر س مغربی بھی تھا ، اسحاق آخرس مغربی ایک سو پینتیس ہجری  میں اصفہان میں منظر عام پر آیا، اہل عرب کی اصطلاح میں مغرب شمالی افریقہ کے اس حصے پہ مشتمل ممالک کا نام ہے کہ جن میں مراکش ، تیونس، الجزائر وغیرہ شامل ہیں ۔اس   کے پیروکار عمان میں آج بھی پائے جاتے ہیں ،لیکن ان کی تعداد سو سے کم   ہے ۔خلیفہ ابوجعفر منصور عباسی کے دور خلافت میں اس بدبخت نے جنم لیا ۔اس نے مختلف مذہبی کتابوں میں مہارت تامہ حاصل کی، اور کئی  زبانیں سیکھیں اور کئی فنون میں کمال حاصل کیا ،ا سکے بعد   اس نے گمراہی کا ایسا دلفریب جال پھیلایاکہ عام اور خاص  اسکے شیطانی شعبدوں کو دیکھ کر اسے سامنے سرنگوں ہوگئے تھے    ۔یہ شخص ابو جعفر کے دور میں   اصفہان پہنچا اور ایک عربی مدرسے میں داخلہ لےلیا ۔ اسی مدرسے میں  ایک چھوٹے  کمرے میں مکمل دس سالوں تک ٹھہرا رہا۔ کہا جاتا ہے کہ  اس نے وہاں  اپنی زبان پر ایسی خاموشی طاری کی  کہ ہر عام و خاص شخص اسے گونگا سمجھتا رہا۔ دس سالوں تک گونگے ہونے کا ناٹک کرنے کی وجہ سے وہ  اخرس  کے لقب سے مشہور ہو گیا۔ وہ ہمیشہ اشاروں سے مدعا  بیان کیا کرتا ۔اس وجہ سے ہر شخص کا اس  سے ہمدردری کا رشتہ ہوگیا ۔ گونگے بنے رہنے کے دس سالوں کے بعدبالاخر  وہ   وقت آ گیا کہ جب اس نے چپ کا روزہ توڑا۔اس کےلیے اس نے زبردست چال چلی،وہ علوم وفنون میں تو پہلے ہی ماہر تھا، اس نے نہایت رازداری کے ساتھ کیمیائی مادوں کو ملا کر ایک مادہ  تیار کیا۔ ایک رات جب  سب لوگ سوئے ہوئے تھے، اس نے وہ  مادہ اپنے بدن پر ملا جس کے بعد اس کے جسم سے نورانی کرنیں پھوٹیں ، وہ جگنو کی طرح چمکنے لگا  ۔ اس کے بعد اس نے ہولناک چیخ نکالی جس کی وجہ سے مدرسے کے تمام لوگ جاگ اٹھے۔ جب لوگ اس کے ارگرد جمع ہوگئے  تو اس نے اٹھ کر نماز ادا کی اور ایسی خوش الحانی اور تجوید کے ساتھ   قرآن کی تلاوت کرنے لگا کہ بڑے بڑے قاری بھی دنگ رہ گئے۔جب مدرسے کے  معلمین اور طلبہ نے دیکھا کہ پیدائشی گونگا بول  رہا ہے اورقوت گویائی ایسی  کہ   اعلیٰ درجے کی فصاحت ،قرأت اور  تجوید کا کمال بھی  ہے ۔اور ساتھ ہی  چہرہ ایسا روشن  کہ نگاہ نہیں ٹھہر سکتی ،لوگ سخت حیرت زدہ ہوئے۔ خصوصاً صدر مدرس تو بالکل  دیوانے ہوگئے۔   بڑی خوش اعتقادی سے  کہا کہ  شہر کے بڑوں کو  بھی خدا کے اس کرشمےکا  مشاہدہ کروانا چاہیے ۔ انہوں نے   شہر کے بڑے لوگوں  کو دعوت دی کہ  وہ   اس کرشمےکا جلوہ دیکھ لیں۔شوروغل پیدا ہوا، شہر کاقاضی شور  سن کر گھر سے  باہر نکلا اور ماجرا دریافت کیا۔ کہانی سننے کے بعد قاضی مجمع کے ہمراہ وزیرِ اعظم کے در پر جا پہنچا ،اسے لمبی کہانی سنائی گئی ،اس نے  کہا کہ ابھی رات کا وقت ہے صبح فیصلہ کیا جائے گا ۔  اس کے بعد اس قاضی نے چند رؤسائے شہر کو ساتھ لیا اوراس   بزرگ ہستی کو دیکھنے کے لیے مدرسے میں پہنچ گیا۔   مگر دروازہ بند پایا ۔ قاضی نے نیچے سے پکار کر کہا ،  آپ کو اسی خدائے ذو الجلال کی قسم! جس نے آپ کو اس کرامت اور منصبِ جلیل سے نوازا۔ دروازہ کھولیے اور اپنے چاہنے والوں اپنا دیدار کروایئے۔ یہ سن کر اس  نے تالے کوکھلنے کاحکم دیا۔شعبدہ بازی سے   کسی کنجی کے بغیر  اس نےتالہ   کھول دیا۔تالہ   گرنے کی آواز سن کر لوگوں کی خوش اعتقادی اور بھی بڑھ گئی   ۔   سب لوگ اسحاق کے روبرو نہایت مؤدب ہو کر جا بیٹھے۔ قاضی شہر نے نیاز مندانہ لہجے میں پوچھا کہ حضور اقدس، سارا شہر اس قدرت خداوندی پر حواس باختہ ہے اگر حقیقت حال  سے آگاہ کیا جائے  تو بڑی نوازش ہوگی۔ اسحاق نے کہا کہ چالیس روز پیشتر ہی فیضان کے کچھ آثار نظر آنے لگے تھے۔ آج رات خدا تعالیٰ نے اپنے خاص  فضل سے اس عاجز پر علم و عمل کی وہ راہیں کھول دیں  کہ جن کا زبان پر لانا مذہب طریقت میں ممنوع ہے، البتہ مختصراً اتنا کہنے کا مجاز ہوں کہ آج رات دو فرشتے حوض کوثر کا پانی لے کر میرے پاس آئے اور مجھے اپنے ہاتھ سے غسل دیا۔  کہنے لگے السلام علیک یا نبی اللہ! مجھے جواب میں تامل ہوا اور گھبرایا کہ یہ کیا آزامائش  ہے؟ فرشتے  نے کہا: اے اللہ کے نبی، بسم اللہ کہ کر ذرا منہ تو کھولیے، میں نے منہ کھول دیا اور دل میں بسم اللہ کا ورد کرتا رہا، فرشتے نے نہایت لذیذ چیز منہ میں رکھ دی، یہ تو معلوم نہیں کہ وہ چیز کیا تھی؟ البتہ اتنا جانتا ہوں کہ وہ شہد سے زیادہ شیریں، مشک سے زیادہ خوشبودار اور برف سے زیادہ سرد تھی ،اس نعمت خداوندی کا حلق سے نیچے اترنا تھا کہ میری زبان بولنے لگی اور میر منہ سے یہ کلمہ نکلا : اَشہَدُ اَن لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشہَدُ اَنَّ مُحَمَّدَا رَّسُولُ اللّٰہِ یہ سن کر فرشتوں نے کہا محمد ﷺ کی طرح تم بھی رسول اللہ ہو، میں نے کہا: اے دوستو! تم یہ کیسی بات کہہ رہے ہو، مجھے اس سے سخت حیرت ہے ،فرشتے کہنے لگے خدا نے تمہیں اس قوم کے لیے نبی مبعوث فرمایا ہے، میں نے کہا کہ خدا نے تو سیدنا محمد  کریم(ص) کو خاتم الانبیا قرار دیا اور آپ کی ذات اقدس پر نبوت کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ،اب میری نبوت کیا معنی رکھتی ہے؟ کہنے لگے درست مگر محمد صلى اللہ عليہ وسلم کی نبوت مستقل حیثیت رکھتی ہے اور تمہاری ظلی ا ور بروزی ہے۔ اسحاق کی تقریر سن کر عوام کا پائے ایمان ڈگمگا گیا اور ہزار ہا آدمی اس کے پیروکار بن بیٹھے ۔حاملین شریعت نے بھولی عوام کو بہت سمجھایا کہ اسحاق گونگا دجال، کذاب اور رہزن دین و ایمان ہے،اس سے بچ جاؤ۔ لیکن عقیدت مندوں کی خوش اعتقادی میں ذرا فرق نہ آیا بلکہ جوں جوں علما انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کا جنون خوش اعتقادی اور زیادہ بڑھتا

تحریر :( ڈاکٹر ایم ۔اے رحمن )

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران