نبوت کا نواں جھوٹا دعویدار:کذاب صالح بن طریف
عقیدہ
ختم نبوت اسلام کی اساس ہے۔یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس پر قصر اسلام کی پوری عمارت
کھڑی ہے۔اس عقیدہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سرکار
دوعالم(ص)کے بعد مملکت اسلامیہ کی دگر
گوں حالت کے باوجود خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبرؓ نے منکرین ختم نبوت کے خلاف بھر
پور جہاد کیا۔صحابہ کرام کی بھاری تعداد ان جنگوں میں شہید ہوئی۔لیکن حضرت ابو بکر
صدیق ؓ نے ان سے تعرض نہ فرمایا۔بلکہ ان کے خلاف جہاد مکمل کیا۔ختم نبوت اتنا اہم
مسئلہ ہے کہ قرآن کریم میں واضح الفاظ اس امر کا اعلان کیا کہ سرکاردوعالم (ص)
خاتم النبین ہیں۔لیکن طلوع اسلام کے بعد اسلام فتنوں کا شکار رہا
ہے۔ اختراعات ا ور بدعات پیدا کرکے
اسلام کی حقیقی روح کو خراب کرنے کی کوششیں
بھی بہت ہوئیں ہیں۔بہت سے جھوٹے مدعیان نبوت پیدا ہوئے جنہوں نے صدیوں تک
لوگوں کو دین محمد (ص) سے گمراہ کئے رکھا ۔ان میں سے ایک بڑا نام کذاب صالح بن طریف کا بھی تھا۔اس کے حوالے سے تاریخ میں بتایا گیا ہے کہ یہ نسلاً یہودی تھا جس کی نشونما اندلس میں ہوئی
تھی۔ اس کی نسل نے مشرقی افریقہ میں کم و
بیش ساڑھے تین سو سال تک جھوٹی نبوت کے بل بوتے پر حکومت کی ۔ بالآخر یوسف بن تاشفین
کے دور میں اس فتنے کا خاتمہ ہوا ۔ مرابطین کے نام سے مسلم اقتدار کا سورج طلوع
ہوا۔ کذاب صالح بن طریف نے اپنی چرب زبانی
اور شعبدوں کی ابتدا بربر قبائل سے کی۔وہ جادو گر تھا اور اس زور پر اس نے جاہل
اور وحشی بربر کو اپنا پیروکار بنالیا تھا
۔ ایک سو ستائیس ہجری میں ہشام بن عبدالملک کی خلافت کے دور میں اس
نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ شمالی افریقہ میں اس کی حکومت مستحکم ہوگئی ۔ کذاب صالح کے
کئی نام تھے عربی میں مصالح۔ فارسی میں عالم۔ سریانی میں مالک۔ عبرانی میں روبیل
اور بربری زبان میں اس کو واریا یعنی خاتم النبین کہتے تھے۔ جھوٹے مدعیان پر لکھی
جانے والی کتاب کے مصنف و محقق علامہ ابوالقاسم رفیق دلاوری لکھتے ہیں کہ یہ نبوت کا جھوٹے دعویدار کہتا تھا کہ
سیدنا رسول کریم(ص) کی طرح مجھ پر بھی قرآن کی طرح کی وحی نازل ہوتی ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی قوم کے سامنے
جو قرآن پیش کیا اس میں اسی سورتیں تھیں۔اس نے اپنے قرآن میں حلال وحرام کے احکام بھی گھڑے ہوئے تھے ۔ اس
کے خود کے تراشیدہ کلام میں ایک سور ت غرائب الدنیا کے نام سے تھی جسے
اس کے امتی اپنی نماز میں پڑھاکرتے تھے،
اس کی جھوٹی شریعت کی خاص باتیں یہ بھی تھیں کہ ۔ یہ روزے رمضان کے بجائے رجب میں رکھا
کرتے تھے۔ نمازیں پانچ کی بجائے دس فرض تھیں۔ اس نے اپنی شریعت میں عید الاضحی
کے دن قربانی کرنے کی بجائے گیارہ محرم کے دن ہر شخص پر قربانی ضروری قرار دی تھی۔ شادی شدہ عورت اور مرد پر غسل جنابت معاف کردیا تھا،یعنی اس نبوت کے جھوٹے دعویدار کے پیروکار میاں بیوی والے تعلق کے بعد غسل کے مکلف نہ تھے۔ نماز صرف اشاروں سے پڑھتے تھے
،البتہ آخری رکعت کے بعد پانچ سجدے کئے جاتے تھے۔ شادیوں کی تعداد کے حوالے سے
آزادی تھی،کوئی جتنی عورتوں سے چاہے۔شادی کرے،اس حوالے سے کوئی روک
ٹوک نہیں تھی ۔ ہر حلال جانور کی سری
کھانا حرام قرار دیا ہوا تھا۔ یہ کذاب شخص
صالح بن طریف سینتالیس سال تک دعوائے نبوت
کے ساتھ اپنی قوم کے سیاہ وسفید کا مالک رہا ۔ایک سو چوہتر ہجری میں
تخت وتاراج سے دستبردار ہو گیا اور کہیں مشرق کی طرف جاکر گوشہ نشین ہوگیا۔ جاتے
وقت اس نے اپنے بیٹے الیاس کو نصیحت کی کہ
میرے دین پر رہنا، چنانچہ نہ صرف الیاس بلکہ صالح کے تمام جانشین پانچویں صدی ہجری
کے وسط تک اس کے تخت وتاج کے وارث
رہے ۔اس کی خانہ ساز نبوت کے بھی وارث
رہے۔ تاریخ کی کتابوں کے مطابق الیاس بن صالح باپ کی وصیت کے مطابق اس کی تمام کفریات
پر عمل کرتا رہا اور پچاس برس تک حکومت کی۔ مخلوق خدا کو گمراہ کرنے کے بعد دو سو
چوبیس ہجری میں مرگیا۔ الیاس کے بعد اس کا
بیٹا یونس آیا،اس نے بھی نبوت کا دعوی کیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا ابو غفیر تخت نشین ہوا اور اس نے بھی نبوت کا دعوی کیا۔اس
کے بعد اس کا بیٹا ابو الانصار اس کا جانشین
بنا،اور نبوت کا جھوٹا دعویدار رہا،اس کے بعد اس کا بیٹا ابو منصور عیسیٰ تخت نشین
ہوا،اور یہ بھی نبوت کا جھوٹا دعویدار رہا،گویا انہوں نے
اپنی بادشاہت کو نبوت کے جھوٹے تسلسل سے جوڑا،بالاخر اتنا عرصہ ان کی حکومت قائم رہنے کے بعد جب
مرابطین مضبوط ہوئے تو انہوں نے ان کا پیچھا کیا۔تین سو انسٹھ ہجری میں ایک لڑائی میں جھوٹی نبوت کے اس خاندان کا
آخری کذاب بھی واصل جہنم ہوا اور مرابطون نے
چار سو اکاون میں مسلمانوں
کی حکومت قائم کردی اور یوں تین صدیاں
تاریکی اور گمراہی میں رہنے کے بعد یہ
خطہ اسلام کے زیر نگیں آگیا۔صالح کی اس جھوٹی دعویداری اور حکومت سے یہ سمجھنے میں مدد ملےگی کہ نبوت کا جھوٹا
دعویدار اگرچہ حکمران ہی بن جائے،بالاخر
حق غالب اور باطل مغلوب ہو کر رہتا ہے۔آج اس کا پیروکاروں میں سے کوئی دنیا پر
موجو د نہیں۔یہاں ان لوگوں کو بھی جواب مل جاتا ہے کہ جو کہتے ہیں کہ اسلام اور نبی کریم (ص) کی نبوت اس لیے پھیلی کہ انہیں
حکومت میسر آگئی تھی،اور اقتدار کی وجہ سے انہیں اتنی شہرت ملی،جبکہ صالح کے واقعہ سے معلوم
ہوتا ہے کہ اگر سلطنت مل بھی جائے،طاقت
آ بھی جائے،تب بھی باطل کی عمر زیادہ نہیں ہوتی اور ختم ہوکر رہتا
ہے۔نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی شعبدہ بازیوں سے آگاہی کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔
تحریر : (ڈاکٹر ایم۔اے رحمن)
ایک تبصرہ شائع کریں